شہباز شریف

January 28, 2018

شریف فیملی جب جلاوطن تھی، یہ ان دنوں کی بات ہے جب احمد ندیم قاسمی کی یاد میں احسان شاہد نے ایک یادگارتقریب کا اہتمام کیا تھا جس کے مہمان خصوصی میاں شہباز شریف تھے نظامت کے فرائض میں نے سرانجام دئیے تھے ۔مجھے پہلی بار معلوم ہوا کہ میاں شہباز شریف کا شاعرانہ ذوق اچھے اچھے شاعروں سے زیادہ بہتر ہے،انہوں نے اپنی گفتگو میں جیسے اشعار سنائے اور جس طرح انہیں پاکستان کے تناظر میں پیش کیا اس کی امید کسی سیاسی لیڈرسے کم ہی کی جا سکتی ہے ۔کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ شہباز شریف کے اس ادبی ذوق کی آبیاری شعیب بن عزیز کی ہے ۔بلکہ مسلسل کئے جارہا ہے اس لئے ان کی شعر فہمی پر اظہارِ حیرت ممنوع ہے ۔انہوں نے اس تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے اپنی روایت کے مطابق پاکستان میں ایک نئے نظام کی اہمیت و ضرورت پر زور دیا جس میں غریب اورامیر درمیان بڑھتے ہوئے تفاوت کو کم کرنا بنیادی بات تھی۔ان کی گفتگو میں عطالحق قاسمی کا یہ شعر بھی شامل تھا
ظلم بچے جن رہا ہے کوچہ و بازار میں
عدل کو بھی صاحب اولاد ہو نا چاہئے
اور پھر عدل صاحبِ اولاد ہوگیا نواز شریف نا اہل قرار پا گئے ۔بڑی توقع تھی کہ ان کے بعد شہباز شریف بھی نا اہل ہوجائیں گے ۔انہیں گھیرنے کی بھی پوری پوری کوشش کی گئی مگر ابھی تک نیب ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکی ۔دوسری طرف نوازشریف فیملی کی دس آف شور کمپنیوں کی لندن حکام نے تصدیق کر دی ہے ۔میں نے اس بات پر کافی غور کیا ہے کہ نواز شریف کے بعد شہباز شریف گرفت میں کیوں نہیں آئے ۔ان میں ایسا کیا کمال ہےکہ وہ بہت ہی الجھے ہوئے معاملات سے بخیر و خوبی نکل آتے ہیں ۔مجھے اُن پر اُس وقت بھی حیرت ہوئی تھی جب میاں نواز شریف اور ان کے حامی افواج ِپاکستان اور عدلیہ کے خلاف بول رہے تھے اور میاں شہباز شریف کہہ رہے تھے ’’ہمیں اداروں کے خلاف نہیں بولنا چاہئے ‘‘ وہ دلیر ہونے کے ساتھ ساتھ ذہین آدمی بھی ہیں ۔جہاں سمجھتے ہیں کہ یہاں لڑائی صرف اور صرف نقصان کا سبب بن سکتی ہے وہاں سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور دوسروں کو بھی ایسی لڑائی سے گریز کا مشورہ دیتے ہیں ۔انتھک آدمی ہیں ۔اپنے ہر دن کے ہر لمحہ سے جو کچھ نکل سکتا ہے نکالتے ہیں ۔ایک اور خوبی بھی ان کی کامیابیوں میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ وہ مردم شناس ہیں ۔ان کے ارگرد جتنے لوگ نظر آتے ہیں تمام پڑھے لکھے ذہین لوگ ہیں۔وہ تقریباً سارا کام بیورو کریسی سے لیتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ کام انہی کو آتا ہے ۔پنجاب حکومت کےوزیروں کی حالت پرتو مجھے کبھی ترس آنے لگتا ہے ۔ ہمارے میانوالی سے ایک ایریگیشن کے وزیر ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ انہوں نے پوری کوشش کی کہ چودہ گریڈ کے ملازم کا تبادلہ ادھر سے ادھر ہوجائے مگر کسی نے ان کی بات پر کان ہی نہیں دھرا ۔(شہباز شریف کوتھوڑا بہت اس چیز کا ضرور نوٹس لینا چاہئے ) اسی طرح میرے بہت قریبی دوست ندیم بھابھہ کے بڑے بھائی زراعت کے وزیر ہیں ان میں کام کرنے کی بے پناہ اہلیت موجود ہے مگر وہ کوئی کام سیکرٹری زراعت کو کہنے پر تیار ہی نہیں کہ اپنی عزت اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے ۔
میاں شہباز شریف کے بر عکس نواز شریف نےاپنے جو نورتن بنائے ہوئے ہیں ان میں ضلع چکوال کے بزرگ ایک نعت خواں بھی شامل ہیں ۔وہ ایسے لوگوں سے مشورہ کرتے ہیں جن سے مشورہ کرنامشورہ کےلئے قابلِ عزت نہیں ۔پانامہ کیس کا جب فیصلہ آیا توایک وکیل نےمجھے کہا ’’نواز شریف نےیونہی وکیلوں کوکروڑوں روپے کی فیس دے کر عدالت سے یہ فیصلہ کرایا ہے یہی فیصلہ کرانا تھا تو مجھے بتایا ہوتا میں دوچار لاکھ میں کرادیتا۔
نواز شریف کے قریبی حلقوں کا خیال ہے کہ الیکشن ہوئے اورنون لیگ فتح یاب ہوئی تومیاں شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے کے کوئی امکان نہیں۔پھر آئینی ترمیم کی جائے گی اور چوتھی مرتبہ نواز شریف کو وزیر اعظم بنایا جائے گا۔اس بات کی کوشش بھی جاری ہے کہ سپریم کورٹ اثاثے چھپانے کے جرم میں نااہلی کی سزا کو تاحیات کی بجائے ایک سال قرار دیدے ۔یہ بات ایک مخصوص انداز میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی کہہ چکے ہیں ۔بلکہ نواز شریف کے ایک رتن کے خیال میں اگر نواز شریف کو وزیر اعظم نہ بنایا جا سکاتو پھر مریم نواز ہی وزیر اعظم ہونگی ۔ہاں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کوئی سودےبازی کرنا پڑگئی تو ممکن ہے مجبوراً شہباز شریف کو وزیر اعظم بنا دیا جائے جس کے امکانات بہت کم ہیں ۔ یہ نون لیگ کے اندر کی باتیں ہیں ۔اگر آپ یقین نہیں کرنا چاہتے تونہ کیجئے۔
میرے خیال میں تو شریف فیملی آئندہ انتخابات کے بعد سیاست سے مکمل طور پر فارغ ہونے والی ہےمگر جس طرح شہباز شریف اپنے پتے کھیلتے آرہے ہیں اُس سے لگتا ہے کہ نہیں ابھی یہ لوگ کھیل میں موجود ہیں۔
شہباز شریف کی سیاست کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مولانا خادم حسین رضوی نے وزیر قانون کو مستعفی کرالیاتھا مگر پیر سیال اور بہت سے دوسرے اہم ترین مذہبی رہنما پنجاب کے وزیر قانون سےجان چھڑانے میں ناکام رہے ۔لگ یہی رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اس وقت شہباز شریف کی مخالفت نہیں کر رہی ۔کیا یہ حیرت انگیز بات نہیں کہ نجفی رپورٹ کے شائع ہوجانے کے باوجود شہباز شریف اسی طرح وزیراعلیٰ ہیں ۔حالانکہ اس رپورٹ کی اشاعت کے بعد گنجائش نہیں تھی ۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف نے آپس میں طے کیا ہوا ہے کہ نوازشریف اداروں کے خلاف گفتگو کریں گے تو شہباز شریف اداروں کے حق میں بولیں گے تاکہ توازن برقرار رہے ۔پچھلے دنوں جب نواز شریف کے کیمپ سے پرویز رشید نے چوہدری نثار علی خان کے خلاف گفتگو کی تو شہباز شریف فوراً چوہدری نثار علی خان کی حمایت میں سامنے آ گئے اور بیان دیا کہ پرویز رشید کو ایسی باتیں نہیں کرنا چاہئیں ۔یہ بھی شہباز شریف کا کمال ہے کہ نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان اتنے سخت اختلافات کے باوجود ابھی تک وہ مسلم لیگ نون میں شامل ہیں ۔اس وقت بھی صورت حال یہی ہے کہ تحریک انصاف کے ممبران قومی اسمبلی اٹھائیس تاریخ کے بعد کسی وقت بھی مستعفی ہو سکتے ہیں ۔پیپلز پارٹی بھی اس کام میں ان کا ساتھ دے سکتی ہے یعنی قومی اسمبلی ٹوٹ سکتی ہے ۔سندھ بلوچستان اور خبیر پختون خوا کی اسمبلیاں بھی ٹوٹ سکتی ہیں مگر پنجاب اسمبلی ٹوٹنے کے بظاہر کوئی امکان نہیں دکھائی دیتے۔شہباز شریف آخری آئینی دن تک حکومت کرنا چاہتے ہیں اور اگر انہیں خود نون لیگ کی طرف سے کسی سازش کا سامنا نہ کرنا پڑ ا تو آخری دن تک حکومت کرتے ہوئے نظر بھی آئیں گے۔