خلق خدا کی بھلائی کے دشمن

February 02, 2018


کبھی کبھی عام لوگ سادگی میں اتنی بڑی بات کہہ جاتے ہیں کہ ذہن سے کبھی محو نہیں ہوتی۔ ایک بار میں کسی سے کہہ رہا تھا کہ فلاں صاحب خلق کی بھلائی کا بہت ہی بڑا کام کر رہے ہیں مگر حیرت ہے کہ دنیا کو خبر نہیں۔اس پر انہوں نے کیا کہا ، غور سے سنئے۔ بولے کہ اچھا ہی ہے دنیا کو خبر نہیں، خبر ہوئی تو کہیں سے کوئی سر پھرا کھڑا ہوجائے گا اوران کے کام میں کچھ اس طرح اڑنگا ڈالے گا جیسے یہ اس کا قومی فریضہ ہے۔غور کیجئے تو خیال ہوتا ہے کہ یہ کتنا بڑا سچ ہے۔ ادھر کسی نے لوگوں کی بھلائی کا کوئی بڑا کام انجام دیا، ادھر کوئی صاحب اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کے کام میں کیڑے ڈالنے لگے اور جب تک وہ چپ چاپ کھڑا کیا جانے والا خوابوں کا محل مسمار نہیں ہوگیا،وہ صاحب چین سے نہیں بیٹھے۔ ہم بہت عرصے سے سنتے آرہے تھے کہ کراچی میں کوئی حوصلہ مند خاتون ایسی جرا ت اور بہادری کی مالک نکلیں کہ انہوں نے کسی کے آگے ہاتھ پھیلائے بغیر شہر کے ان بچّوں کو تعلیم دینے کی ٹھانی جو گلی محلوں میں کچرے میں سے اپنے کام کی چیزیں چنتے پھرتے ہیں کہ اس سے ان کے نادار گھرانے کو دو وقت کی روٹی نصیب ہو جاتی ہے۔ سنا ہے کہ ان خاتون نے حیرت انگیز کام یہ کیا کہ شہر میں جا بجا جو فلائی اوور بنے ہیں، ان کے نیچے غریب بچّوں کی جماعتیں لگادیںاور دیکھتے دیکھتے سینکڑوں بچوں نے زندگی میں پہلی بار کتاب دیکھی اور کاغذ پر حروف بنائے۔
ان بچوں کو نہلا دھلا کر سنوارا گیا جس کے ساتھ ہی ان کے بچپن کا بھولپن بھی لوٹ آیا اور ان کے اندر چھپی فطری خوبیاں باہر آنے لگیں۔ حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں، کسی نہ کسی کونے کھدرے سے کچھ بھلے لوگ نکل آتے ہیں، ایسے ہی لوگ آگے بڑھے اور ان خاتون کی مدد کو جا پہنچے۔ خاتون نے نادار بچّوں کے تین چار اسکول کھول دئیے۔ شہر میں ان کی دھوم مچی۔ بس وہ دن او رآج کا دن، سنا ہے ان خاتون کا جینا حرام ہے، وہی کوڑھ مغز لوگ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور ان کا بس نہیں چل رہا ہے کہ خاتون کو زندہ گاڑ دیں۔ ان کو دھمکیاں مل رہی ہیں، حملے بھی ہو رہے ہوں گے اور نئے نئے ستم ایجاد کئے جارہے ہوں گے۔ مجھے تو ان ستم گروں کی چیرہ دستیوں کا علم نہ تھا۔ مجھے تو کہیں سے خاتون کی سر راہ لگی ہوئی کلاس کی ایک بڑی سی تصویر ملی تھی جو میں نے اپنی فیس بک پر ڈال دی۔ اس کا پوسٹ ہونا تھا کہ ہر طرف سے خاتون کی جرات اور دردمندی کو سلام کے پیغام آنے لگے۔ میں بھی خوش تھا اور پیغام بھیجنے والے بھی سرشار تھے کہ ان ہی پیغامات کے ہجوم میں دو چار احباب نے سر گوشی کے لہجے میں مجھے بتایا کہ آپ کہاں گم ہیں، بدخواہوں نے خاتون کی زندگی عذاب بنا رکھی ہے ۔ کسی نے لکھا کہ آپ غریب بچوں کے حق میں ہونے والی جس نیکی پر اس قدر خوش ہیں، وہ سلسلہ تو کبھی کا بند پڑا ہے۔ خاتون کو صبح شام دھمکیاں مل رہی تھیں اور جو احتجاج کی چند آوازیں بلند ہو رہی تھیں انہیں با اختیار لوگ ایک کان سے سن کر ہاتھ کے ہاتھ دوسرے کان سے اڑا رہے تھے۔اس کے بعد یہ ہوا ہے کہ اب ایک نرالی دعا مانگ رہا ہوںکہ اﷲ کرے یہ ساری خبریںغلط ہوں ۔ مگر یہ کیسی دعا ہے کہ مانگو تو اندر سے کوئی کہتا ہے کہ بہتر ہے اب صبر کرو او رچپ سادھ لو۔دنیا کا یہی چلن ہے جو بدلنے کا نہیں۔
پچھلے دنوں صغرا صدف کی دل کو چھو جانے والی ایک تحریر پڑھی۔ دس بارہ سال پہلے ان کی والدہ کی دماغ کی رگ پھٹ گئی اور گھر والے انہیں لے کر گجرات کے ایک معتبر اسپتال پہنچے جہاں ایک مشہور ڈاکٹر نے کچھ گھنٹوں کے معائنے کے بعد علاج سے معذرت کرلی اور کہا کہ انہیں گھر لے جائیے۔ ماں کی حالت دیکھی نہیں جارہی تھی۔ گھر والے انہیں لاہور کے ایک بڑے اسپتال لے گئے جس کے نام پر پرائیوٹ ہونے کا ٹھپہ لگا ہوا تھا۔ وہاں تین دن تک ٹیسٹ اور پیسے جمع ہوتے رہے مگر نہ درد کم ہوا نہ علاج کی کوئی صورت نکلی۔ تب کسی نے مشورہ دیا کہ انہیں جنرل اسپتال کے ڈاکٹر انور چوہدری کو دکھائیے۔ جمعہ کا دن تھا، صغرا ماں کو لے کر کسی سفارش، پرچے یا حوالے کے بغیر ان کے پاس جا پہنچیں۔ وہ نماز پڑھ رہے تھے اور صبح سے چار آپریشن کر چکے تھے۔ بیٹی کی آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب دیکھ کر ڈاکٹر صاحب نے فوری کارروائی کا حکم دیا اور ایک گھنٹہ بعد آپریشن شروع ہوگیا جو چار گھنٹے جاری رہا۔ اگلے دن ماں کو ہوش آگیا اور آزمایا گیا تو ان کی یاد داشت سلامت تھی۔ بس اس کے بعد ڈاکٹر انور چوہدری کے فرشتہ صفت ہونے کے قصّے سننے میں آتے رہے۔ وہ اپنے گاؤں میں ہر اتوار کو مفت میڈیکل کیمپ لگاتے ہیںاور اس روز آسمان سے نیکی کی جھڑی لگتی ہے۔ صغرا نے آگے چل کر لکھا کہ ڈاکٹر صاحب اور ان کے ساتھیوں نے دماغی امراض کا ایک الگ ادارہ قائم کرنے کا منصوبہ پیش کیا جو کسی بڑے حاکم کی طبع نازک پر گراں گزرا۔ نتیجہ وہی ہو ا جس کا رونا رو رہا ہوں۔ صغرا لکھتی ہیں ’’اس پاداش میں ڈاکٹر انور چوہدری پچھلے کئی مہینوں سے او۔ایس۔ ڈی ہیں۔ جو قارئین اصطلاحوں سے گھبراتے ہیں ان کے لئے عرض ہے کہ اس سے مراد ہے’ آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی‘۔ یعنی گھر کی وہ اندھیری کوٹھڑی جس میں وہ فالتو چیزیں ڈھیر کردی جاتی ہیں جو پھر کسی کام کی نہیں رہتیں۔‘‘
یہ ہیں ہمارے دکھ اور ہماری بے حسی۔ پاکستان میں غریبوں کے دوا علاج کا جو عالم ہے وہ ایسا گرداب ہے کہ کبھی کبھی تو اس طائر لاہوتی کا خیال آنے لگتا ہے جو شاید اب بے بس ہے۔ایسے میں رہ رہ کر یہ سوچتا ہوں کہ جن لوگوں کے دماغ میں نیکی کا کیڑا رینگ رہا ہے اور وہ خلق خدا کے لئے کچھ کر جانا چاہتے ہیں، کسی نے وعدہ کیا تھا کہ ان کے راستے آسان ہو جائیں۔ پھر کیا ہوا اس وعدے کا؟