روشن راہوں کی خبر

February 15, 2018

سعادت علی خاں اپنے وقت کے جید موسیقار اور کلاسیکی گایک استاد تصدق علی خان کے بیٹے اور یوں شام چوراسی گھرانے ایسی موسیقی کی شان دار روایت کے امین ہیں۔اس امانت داری کا خمیازہ مالی پذیرائی میں کمی کی صورت میں بھگتتے رہنے کے باوجودسازو آوازسے جڑے رہتے ہیں۔کوئی دو برس پہلے ملک میں انسانی حقوق کی صورت حال پر آزاد اور غیر جانب دار نظر رکھنے والے ادارے پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کے ایک ریڈیو پراجیکٹ کے ساتھ پروڈیوسر کے طور پر منسلک تھے۔ایک روزمائک لے کرسڑک پر نکل گئے، مقصدیہ جاننا تھا کہ عام لوگ اپنے حقوق سے کس حد تک آگاہ ہیں۔واپس لوٹے توان کی آواز پٹاری میںکوئی ادھیڑ عمر خاتون گیس کی کمی کی شاکی سنائی دیں، کسی نوجوان مزدور کے مطابق ماں باپ کا ادب اور ان کی خدمت حقوق کے زمرے میں آئے، اور کسی صاحب نے جو دکان چلاتے تھے چند فرائض کو حقوق کا نام دیا۔ایک دو لوگ تو ناگوار انداز میں پتا نہیں کہہ کراپنی راہ لیے۔
انسانی حقوق کے عالمی منشور کی تمہید میں بیان ہے کہ ہر انسان کی ذاتی عزت اور حرمت اور انسانوں کے مساوی اور ناقابلِ انتقال حقوق کو تسلیم کرنا دنیا میں آزادی، انصاف اور امن کی بنیاد ہے۔اور یہ کہ انسانی حقوق سے لاپروائی اور ان کی بے حرمتی اکثر ایسے وحشیانہ افعال کی شکل میں ظاہر ہوئی ہے جن سے انسانیت کے ضمیر کو سخت صدمے پہنچے ہیں۔ عام انسانوں کی بلندترین آرزو یہ رہی ہے کہ ایسی دنیا وجود میں آئے جس میں تمام انسانوں کو اپنی بات کہنے اور اپنے عقیدے پر قائم رہنے کی آزادی حاصل ہو اور خوف اور احتیاج سے محفوظ رہیں۔اور یہ بہت ضروری ہے کہ انسانی حقوق کو قانون کی عمل داری کے ذریعے محفوظ رکھا جائے تا کہ انسان عاجز آکر جبر اور استبداد کے خلاف بغاوت کرنے پر مجبور ہوں۔ اس عہد کی تکمیل کے لیے بہت ہی اہم ہے کہ ان حقوق اور آزادیوں کی نوعیت کو سب سمجھ سکیں۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اعلان کیا کہ انسانی حقوق کا یہ عالمی منشور تمام اقوام کے واسطے حصولِ مقصد کا مشترک معیار ہوگا تاکہ ہر فرد اور معاشرہ کا ہر ادارہ اس منشور کو ہمیشہ پیش نظر رکھتے ہوئے تعلیم و تبلیغ کے ذریعہ ان حقوق اور آزادیوں کا احترام پیدا کرے اور انہیں منوانے کے لیے بتدریج کوشش کر سکے۔
حقوق اورآزادیوں کی نوعیت کو ہم کس حدتک سمجھتے ہیں، ریڈیو کے لیے کیے گئے سروے سے اشارہ ملتا ہے۔ساتھ ہی ساتھ یہ پہلو بھی عیاں ہوتا ہے کہ ہر فرد اور معاشرہ کے ہرادارے کے لیے تعلیم وتبلیغ کے ذریعہ ان کا احترام پیدا کرنے اور انہیں منوانے کے لیے کوشش یا تو سرے سے کی ہی نہیں گئی یا اگر کی بھی گئی تو انتہائی ناکافی۔
ایک فرد دوسرے فرد سے،افراد کا ایک گروہ دوسرے گروہ سے جڑتا ہے تو معاشرہ تشکیل پاتاہے۔معاشرہ ملک کا لبادہ کسی آئین کے تحت اوڑھتا ہے۔یہ آئین ہی ہے جوکسی ایک جغرافیائی حدود میں رہنے والی مختلف اکائیوں کوان کی اپنی شناخت کو احترام دیتے ہوئے ایکتا بخشتا ہے۔یہ آئین ہی ہے جوریاست کی جانب سے حقوق اور آزادیوں کی فراہمی کے ذریعہ فرد کے ساتھ تعلق کو استوار رکھتا ہے۔ایسا نہیں کہ حقوق کی یہ فراہمی یک طرفہ ہے۔انسانی حقوق کے عالمی منشور ہی کے مطابق ہر شخص پر معاشرے کے بھی حق ہیں۔ کیو ں کہ معاشرے میں رہ کر ہی اس کی شخصیت کی آزادانہ اور پوری نشوونما ممکن ہے۔ اپنی آزادیوں اور حقوق سے فائدہ اٹھانے میں ہر شخص صرف ایسی حدود کا پابند ہوگا جو اقوامِ متحدہ کے مقاصد اور اصول کے مطابق دوسروں کی آزادیوں اور حقوق کو تسلیم کرانے اور ان کا احترام کرانے کی غرض سے یا جمہوری نظام میں اخلاق، امن عامّہ اور عام فلاح و بہبود کے مناسب لوازمات کو پورا کرنے کے لئے قانون کی طرف سے عائد کئے گئے ہیں۔ عدالتیں فرد کو ان ہی حقوق اور آزادیوں کی فراہمی کی نگہ بان ہوتی ہیںاور خلاف ورزی یا قدغن کی صورت میں فرد یا گروہوں کے لیے مداوا کا سامان کرتی ہیں۔ جمہوریت اور آمریت میں فرق ان ہی حقوق اور آزادیوں کی فراہمی اور عدم فراہمی ہی کا تو ہوتا ہے۔جمہوریت میںاختلاف چاہے سوچ کا ہویا اظہار کا، رنگ کا ہو یا شناخت کا، احترام ملتا ہے اور یوں ان اختلافات کے حامل افراد یا گروہ اسی احترام کی چھتری تلے ایک ہو جاتے ہیں، ایک قوم بناتے ہیں۔ آمریت میں یہ تنوع قابل نفرت، جرم یا یہاں تک کہ غداری قرار پاتا ہے ۔چونکہ آمریت میں حقوق ،آزادیوں اور تنوع کو جگہ نہیں ملتی اس لیے معاشرہ مصنوعی اکٹھ کے بوجھ تلے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگتا ہے۔یہی صورت حال اس معاشرہ میں سامنے آتی ہے جہاں انتہا پسند نظریات اس میں رہنے والے افراد یا گروہوں کوایک ہی رخ، ایک ہی سوچ اپنانے پرمجبور کرتے ہیں۔یوں شہریوں کو حقوق اورآزادیاں مساوی میسر ہوںتو جمہوریت ہے اگر ایسا نہیں ہے تو جمہوریت بھی جمہوریت نہیں آمریت کی ذرا خوش نما شکل ہے۔
ہمارے ہاں اور کئی دوسرے معاشروں اورملکوں میںانسانی حقوق کی حیثیت عالم گیر مثالیہ کی نہیں بلکہ جہاں چاہا ان کو رہ نما مان لیا، جہاں چاہا ان کو پامال کر لیا۔کبھی منافقت کرتے ہوئے انہیں راہ دے دی، کبھی مرضی کے کچھ حقوق دے دیے اوردیگر سلب کر لیے۔ایسے معاشرے افراد کے لیے ایک ایسی دنیا کا سامان کرتے ہیں جس میں نہ وہ جیتے ہیں نہ مرتے ہیں۔ گھٹتی بڑھتی یہ روشنی ان کی بصارت چھین لیتی ہے۔
انسانی حقوق اورآزادیوں کی فراہمی افراد کی صلاحیتوں کو جلا بخشتی ہے اور وہ معاشروں اور ملکوں کو ترقی کی راہ پر گام زن کرتے ہیں۔ فرد فرد سے ، گروہ گروہ سے جڑتے ہیں تو معاشروں اورملکوں کو وہ استحکام ملتاہے جسے کوئی نام نہاد بیرونی طاقت نقصان نہیں پہنچا سکتی۔رنگوں کی ایسی قوس قزح جنم لیتی ہے جس سے منظر منظر خوش کن ہو جاتا ہے ۔ہر آنگن بہاروں کا مسکن ہوتا ہے ۔سر سے سر ملتا ہے اوروطن سے لازوال محبت کے نغمے ہرسوپھیلنے لگتے ہیں۔