یونیورسٹیوں میں وائس چانسلر کی تقرری کا مسئلہ

February 20, 2018

نظام ہائے حکومت و سیاست اور ان کے تحت حکومتوں کی اپنی شخصیت اور مزاج کچھ بھی ہوں، ان کی خامیوں کے ساتھ ساتھ کچھ نہ کچھ مثبت پہلو بھی ضرور ہوتے ہیں۔ اصل میں حکمرانی ہے ہی اتنی کثیر الجہت ذمہ داری کی بد سے بدتر حکومت بھی کچھ نہ کچھ اچھا کر ہی جاتی ہے۔ پاکستانی تاریخ میں مشرف، شوکت حکومت جہاں رسوائے زمانہ این آر او، مسئلہ بلوچستان پیدا کرنے، پھر اس کی بدترین مس ہینڈلنگ سے اسے تشویشناک بنانے اور بالائی عدلیہ کو اپنے تابع مہمل بنانے کے ریکارڈ کے حوالے سے بدتر سمجھی جائے گی، وہاں اس کے پروپیپل اقدامات میں سے نجی شعبے میں الیکٹرانک میڈیا کے آغاز کے علاوہ ہائر ایجوکیشن پر خصوصی توجہ دینا ایک اور قابل تحسین اقدام تھا جو اس سے قبل پاکستان کی کسی حکومت نے ترجیحی بنیاد پر نہ کیا۔بلاشبہ اس نیم جمہوری اور نیم آمرانہ حکومت نے آئین کی پیروی میں لوکل باڈیز سسٹم کا احیا کرنے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم کے لئے فراخدلانہ بجٹ مختص کئے تو ملک میں یونیورسٹیوں کی بہار آگئی۔ یونیورسٹی اساتذہ کو اس لحاظ سے بیوروکریسی کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دی گئی کہ وزیر اعظم شوکت عزیز کی خصوصی توجہ اور دلچسپی کے بعد یونیورسٹی ٹیچنگ کا آغاز(لیکچرر شپ) گریڈ 18کا مستحق قرار پایا۔یونیورسٹیوں میں ریسرچ کلچر کو فروغ دینے کے لئے اساتذہ کو پی ایچ ڈی سکالر بنانے کے لئے بڑی فراخدلی سے فنڈز مہیا ہونے کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہوا، چاروں صوبوں کے بڑے اضلاع میں نئی پبلک یونیورسٹیاں بننے کے ساتھ ساتھ آئی ٹی، ہیلتھ سائنسز ، اینمل سائنسز ، ویمن اور کئی دوسرے اسپیشل فیلڈز کی یونیورسٹیاں قائم کی گئیں اور پہلے سے موجود کے معیار کو بلند کرنے ،اعلیٰ تعلیم کے شعبے کے استحکام اور اسے نتیجہ خیز بنانے کے لئے کتنے ہی اقدامات کئے گئے۔ ایک اہم اقدام پبلک یونیورسٹیوں کو معیاری علمی قیادت مہیا کرنے کے لئے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی چھتری میں بہتر سے بہتر اور اہل ترین وائس چانسلر کی تقرری کے لئے ’’سرچ کمیٹیوں‘‘ کا قیام تھا۔ بلاشبہ ہائر ایجوکیشن کے شعبے کو اچانک اتنی وقعت دینے اور بڑے بڑے اقدامات کے حوالے سے کچھ اطرافی نوعیت کی خامیاں بھی پیدا ہوئیں لیکن یہ پرانا نظام اور روایتی کلچر کی ٹوٹ پھوٹ کے ساتھ ساتھ نئے نظام کو اختیار کرنے میں ابتدائی نوعیت کی مشکلات تو تھیں،بحیثیت مجموعی یہ حکومتی ترجیح اور عملاً اس کا اختیار ہونا بڑا بابرکت ہورہا تھا، اس کے ابتدائی نتائج ابھی شروع ہوئے تھے کہ ملکی حالات تبدیل ہوگئے، جو متوازی حکومتی ڈیزاسٹر ساتھ ساتھ ہورہے تھے، ان کے نتیجے میں روایتی سیاسی قوتوں کی زور و شور سے اقتدار میں دوبارہ واپسی ممکن ہوگئی، جنہوں نے بطور حکمران اپنے سبق آموز ماضی سے سبق سیکھنے کے بجائے، وکلا کی تحریک بحالی ،آئینی عدلیہ کے نتائج کو حقیقی جمہوریت کے سنہری موقع میں تبدیل کرنے کے بجائے پھر نئے شروع ہوئے عشرہ جمہوریت کو دو بدترین جمہوری حکومتوں پر مشتمل عشرے میں ہی تبدیل کردیا جس میں کرپشن ، کنبہ پروری عروج پر رہی اور اس کے نتیجے میں قومی ادارے اجڑنے کا قومی ماتم جاری ہے۔
اس عشرے(2008-18)میں مشرف، شوکت دور کے متذکرہ جمہور دوست اقدامات، مقامی حکومتوں کا قیام اور گورننس میں ہائر ایجوکیشن کی ترجیح دونوں کو پی پی اور ن لیگی حکومت نے لپیٹ کر پھر سے آئینی لازمے، بلدیاتی نظام کی ممکنہ حد تک حوصلہ شکنی کرکے اسے تو مکمل ہی لپیٹ دیا، جسے سول سوسائٹی نے عدلیہ سے رجوع کرکے فقط بلدیاتی انتخابات کو ممکن بنایا، نظام پھر بھی بحال نہ کراسکی، نہ سوسائٹی نہ منتخب ہونے والے۔
ہائر ایجوکیشن کے ساتھ ہر دو نے اپنے روایتی مزاج کے مطابق سلوک کیا۔ ایک یہ کہ سندھ میں پی پی کی حکومت نے 18ویں ترمیم میں ہائر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کے بطور وفاقی موضوع کے تحفظ کے باوجود اپنے صوبے کا علیحدہ ہائر ایجوکیشن کمیشن قائم کردیا جو سراسر غیر آئینی ہے اور اب نیب زدہ ڈاکٹر عاصم اس کے سربراہ ہیں۔ ن لیگ اور پنجاب حکومت نے ابتدا میں سندھ کے اس اقدام کو غیر آئینی قرار دیالیکن اپنی وفاق میں حکومت آنے پر بھی سندھ حکومت کے اس غیر آئینی اقدام کو ختم نہیں کرایا بلکہ خود بھی اس کی تقلید کرتے ہوئے اعلیٰ تعلیم کا اپنا محکمہ اور کمیشن دونوں قائم کرلئے جس سے یونیورسٹیوں کی علمی و انتظامی خود مختاری بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ ہر دو صوبوں اور بلوچستان میں بھی اضلاع میں قائم نئی اور پہلے سے موجود پبلک یونیورسٹیز میں صوبائی حکومتوں کی محکموں میں روایتی طرز کی مداخلت میں بےپناہ اضافہ ہوا ہے، جہاں نہیں ہوا یا کم ہوا وہاں ہائر ایجوکیشن کی قائم کردہ سرچ کمیٹیوں کے مقررہ فارمولے کے مقرر کئے قابل اور اہل وائس چانسلرز کی مطلوب کیپسیٹی اس کی وجہ بنی۔ پی پی کی وفاقی حکومت لیکن انہوں نے بتدریج ختم ہو کر ملک میں یونیورسٹیوں کا کردار بڑھانا تھا اور بالآخر بڑھانا ہے۔ خصوصاً جدید علوم کو گورننس کے ساتھ منسلک کئے بغیر گڈ گورننس خواب خرگوش ہی ہے جس کی تعبیر نہ نکلے گی جس طرح آئین و قانون کی حقیقی بالادستی کے بغیر عوام کو انصاف ملے گا نہ مطلوب جمہوریت آئے گی۔
امر واقعہ یہ ہے کہ ہائر ایجوکیشن جو دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں وفاقی موضوع ہے ، کو صوبائی چھتری میں لاکر بڑا ستم کیا گیا ہے۔ جاری عشرے میں پی پی اور ن لیگ دونوں نے پبلک سروس کے اداروں کی سربراہی کنبہ پروری کی بنیاد پر نااہلوں کے سپرد کرکے اداروں میں تباہی مچا کر بڑی رسوائی کمائی، انتہا یہ ہے کہ اب جو پنجاب حکومت نے وائس چانسلر کی تقرری کا فارمولا اپنی سیاسی ضروریات پورا کرنے کے لئے بیوروکریسی سے تیار کرایا، وہ اس قدر متنازع ہے کہ اسے فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈیمک سٹاف ایسوسی ایشن (فیپوآسا) نے یکسر مسترد کردیا ہے، جس کے رسپانس میں فیڈریشن کے پنجاب چیپڑ نے وی سی کی تقرری کا اپناTORتیار کیا ہے، جس کی بنیاد یہ ہے کہ پبلک یونیورسٹیوں کو بلند مرتبے کی علمی قیادت میسر ہو نہ کہ اس حساس تقرری میں بیوروکریٹس اور سیاسی اثر لئے ایسی شخصیات یونیورسٹیوں کی سربراہ بن جائیں جو ہائر ایجوکیشن کی ابجد سے بھی واقف نہیں،
جیسا کہ پنجاب حکومت کے بنائے گئےTORمیں یہ گنجائش نکلتی ہے کہ نان پی ا یچ ڈی، یونیورسٹی ٹیچنگ اور مینجمنٹ کا تجربہ تو دور کی بات ایک بی اے پاس بھی کسی پبلک یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر ہوسکتا ہے جبکہ فیپوآسا جو اپنے پنجاب چیپڑ کی سفارشات کو اپنا مطالبہ بناچکا ہے، اس کے مطابق وائس چانسلر کے عہدے کے لئے ہائر ایجوکیشن تحقیق اور یورنیورسٹی سطح کا تعلیمی انتظامیہ کا تجربہ لازم ہے۔ اس کے برعکس پنجاب کے نئے فارمولے میں سرکاری افسران کا مطلوبہ تجربہ ضروری ہے نہ یونیورسٹی کو وقت کے نئے تقاضوں کے مطابق چلانے اور سمجھنے کا کوئی ادراک ضروری ہے۔ اس اعتبار سے یونیورسٹی سطح کی پروفیسر شپ کی بنیادی شرط لازم ہو۔ پھر حکومت پنجاب نے جو نئی سرچ کمیٹیاں بنائی ہیں اس میں اسکول کی سطح کے انتظامی افسران تک کو کمیٹیوں میں شامل کیا گیا، یہ ابتدائی کمیٹی کی طرح بڑے قد آور اراکین پر مشتمل ہوں،جو وائس چانسلر علمی مرتبے کے حامل عہدے کے ساتھ مذاق ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ یونیورسٹیوں میں ایسی صاحب نظر علمی قیادت لائی جائیں جو یونیوسٹیوں کو گورننس کی نتیجہ خیز معاونت کی راہیں نکالیں اور حکومت انہیں قبول کریں کہ ہماری کیا وفاقی اور کیا صوبائی حکومتوں میں گورننس جدید علوم کی ناگزیر معاونت سے یکسر محروم ہے، جس کی وجہ حکمرانوں کے روایتی سیاسی رویے ہیں حتیٰ کہ ہماری گورننس پالیسی اور فیصلہ سازی کے جدید اور انتہائی بنیادی اصولوں تک سے شناسا نہیں، تبھی تو ہمارے پبلک سروس کے اداوں سے لے کر ریاستی ڈھانچے کے ادارے بھی تشویشناک حد تک بگاڑ میں مبتلا ہیں۔ وائس چانسلری کے امیدواروں کےTORمیں ایک ،امیدواروں کے یونیورسٹیوں کو ان کی اہمیت کے مطابق بنانے اور چلانے کے حوالے سے ان کے ذاتی ویژن کی پرکھ ہونی چاہئے کہ وہ اس کے ذریعے اپنی اہلیت ثابت کریں۔ جناب شہباز شریف اس پرپوری سنجیدگی سے غور کریں وگرنہ ان کا گڈ گورننس کا دعویٰ فقط سیاسی نعرہ ہی بن جائے گا،کہ ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں۔