سر رہ گزر

March 02, 2018

ووٹ کس کو دیں؟
اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں آپ صحافی ہیں یہ بتائیں کہ اب کیا ہوگا؟ ملک کا کیا بنے گا؟ اگر الیکشن ہوئے تو کسے ووٹ دینا چاہئے، پاکستان کا مستقبل کیسا دیکھتے ہیں؟ اس طرح کے تمام سوالات کے پیچھے ایک ہی سوال ہوتا ہے ہم کسی سے مطمئن نہیں ہم کیا کریں؟ ہم چونکہ خود اسی کیفیت سے گزررہے ہوتے ہیں ایک ہی جواب دے کر بحث کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ بہتر کو چن لیں جبکہ دل میں یہ چور بھی ہوتا ہے کہ کیا کوئی بہتر ہے؟ جب قیادت کا فقدان بلکہ بحران پیدا ہوجائے تو یہ بات سمجھ آجاتی ہے کہ پاکستان کو گرے لسٹ میں کیوں ڈالا، ہمارے ہاں اگرچہ دہشت گردی کے خلاف سب سے بڑھ کر بڑی جنگ لڑی گئی ا ور اب بھی باقیات سے نبردآزما ہیں لیکن اصل وجہ یہ ہے کہ یہاں 70برس ہم نے کرپشن کے پودے کی آبیاری کی اب اس تناور درخت کا کیا کریں جس کی جڑیں کسی نہ کسی شکل میں ہم سب کے عمل میں نکل آتی ہیں، وہ جو کہتے ہیں ’’لکھ دا وی چور تے ککھ دا وی چور‘‘ چور بننے کو کوالی فائی کرنے کے لئے تو ایک تنکا بھی کافی ہے جو ہم نے چوری کرلیا ہو اور یہ کہہ دیا ہو کہ ہم نے کبھی اپنے بچوں کو لقمہ حرام نہیں کھلایا۔ عدالت کا فیصلہ تو اب آیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ضمیر کی عدالت میں ہم میں سے کوئی صادق و امین نہیں۔ ایسے میں جو کم کاذب و خائن ہو ا سے ہی قیادت کا تاج پہنادینا چاہئے۔ ہماری فقہ میں بھی ایک صورت موجود ہے کہ (دوگناہوں میں سے جو کم ترین ہو اسے بحالت مجبوری اختیار کرلیں)، ہمارا خیال ہے کہ ایسے اضطراری حالات میں"Lesser Evil"پر عمل کرلینا چاہئے اور اس بارے فیصلہ کرنا مشکل نہیں اور اس حدیث پاک کو سامنے رکھنا چاہئے کہ’’اپنے دل سے فتویٰ لے لو چاہےمفتیان دین کچھ بھی کہیں‘‘۔
٭٭ ٭ ٭ ٭
انکم ٹیکس کا بوجھ اور تنخواہ دار طبقہ
ذیشان مرچنٹ کا تجزیہ سامنے آیا ہے کہ انکم ٹیکس کا سارا بوجھ تنخواہ دار طبقے پر ڈال دیا گیا ہے کیونکہ وہ ’’کڑکی‘‘ میں آئے ہوئے چوہے کی مانند ٹیکس چوری بھی نہیں کرسکتا کیونکہ ٹیکس پہلے کاٹا جاتا ہے اور پھندے میں بعد میں پھنستا ہے۔ تنخواہ دار طبقہ سرکاری ہو یا نجی ایک جبر کے تحت اس کی ماہانہ تنخواہ سے 7فیصد پھر 15فیصد اور اب ساڑھے سترہ فیصد انکم ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے اور باقی پیسے اس کی ماہانہ مزدوری میں سے کاٹ لئے جاتے ہیں۔ گویا اس کا پسینہ بہنے سے پہلے نچوڑ لیا جاتا ہے تاکہ یہ کوئی نہ کہے کہ مزدور کو اس کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کردو ۔ تنخواہ میں سے پیسے کاٹنا مزدور کی مزدوری پر بالجبرڈاکہ زنی ہے اور جو ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں ان کی موج ہے۔ ساڑھے سترہ فیصد تنخواہ میں سے کٹوانے کے بعد عام تنخواہ دار کو’’لون مرچ ادرک‘‘ پر بھی سیلز ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ تنخواہ پر انکم ٹیکس معاف کردیں لیکن ٹیکس اتنا ہو کہ اگر تنخواہ سے الگ کیا جائے تو تنخواہ کو محسوس نہ ہو۔ ذیشان مرچنٹ نے صحیح کہا ہے کہ انکم ٹیکس کا سارا بوجھ تنخواہ دار طبقے پر ڈال دیا گیا ہے۔ اوپر سے پٹرولیم مصنوعات پر اضافوں کی موسلادھار بارش گویا غریب عوام جن کی عدالت پر حکمرانوں کو ناز ہے کہ وہ ان کو باعزت بری کرکے پھر سے حق حکمرانی دیں گےانہی کو نچوڑنا بھی ہے اور ان سے ہی اپنے حق میں فیصلہ دینے کی درخواست بھی کرنا ہے۔ تنخواہ دار طبقے میں ہی ایک طبقہ ہے کہ انکم ٹیکس تو کیا اس کی ساری تنخواہ بھی کٹ جائے اسے ذرا بھی ملال نہیں ہوتا، مگر جن ملازمین کو اوپر کی آمدن کی سہولت حاصل نہیں ہوتی وہ جب ٹیکس کٹی دم کٹی تنخواہ گھر لاتے ہیں تو نوحہ غم برپا ہوتا ہے مگر لسے دا کی زور محمد نس جانا یا رو نا۔
٭٭ ٭ ٭ ٭
جب ہنسنے کا جواز نہ رہے
مزاح لکھنا، لطیفہ سنانا، ہنسنا ہنسانا تب اچھا لگتا ہے جب ا نتڑیاں خوش ہوں، طرح طرح کی ٹینشن بائولے کتوں کی طرح پیچھے نہ پڑی ہوں، فارسی کا مقولہ ہے’’من چہ سرایم وطنبورہ من چہ سراید‘‘ میں کیا گارہا ہوں اور میرا ساز کیا گارہا ہے، جب ساز آواز میں ہم آہنگی نہ رہے تو قوم بےسری ہوجاتی ہے۔ ایک عجب سی کیفیت ہے کہ ہر لمحہ ایک نہ ایک کرپشن لطیفہ کا انکشاف سامنے آتا ہے،باقی کچھ بھی سامنے نہیں آتا۔ پورا پاکستان گویا پائپ لائن میں ہے اور پائپ کا دوسرا سر نظر نہیں آتا، لہجے شدت اختیار کرتے جارہے ہیں اور میڈیا ہے کہ اس نے کچھ بھی نہ چھپانے کی قسم کھارکھی ہے۔ اس پر بس نہیں غلاظت کے ڈھیر میں خوب بار بار ڈانگ پھیری جاتی ہے جس کے نتیجے میں پورا ملک تعفن زدہ ہے اب تو یہ فتنہ نظر نہیں آتا لیکن ایک طویل عرصہ ہماری لگ بھگ ساری سیاست وردی کی آغوش میں پلتی رہی سیاست کا جوہر کسی میں نہ تھا، ہر ایک کو مسلط ہونے کے لئے طاقت کی ضرورت تھی، نتیجہ یہ نکلا کہ سیاست کا شجرہ نسب داغدار ہوگیا، اگر جمہوریت، عسکریت کے شکم سے جنم لے گی تو کیا اس جمہوریت کا کوئی اپنا حسب نسب ہوگا؟ اس ریاست میں باقاعدہ آمروں کو دعوت دی گئی، اس میں لیڈرز اور عوام دونوں شامل رہے۔ اب خدا کا فضل ہے ایسا نہیں مگر فضل اتنا زیادہ ہوچکا ہے کہ ہر زبان پر ہذا من فضل ربی کا ورد جاری ہے، اب جب کوئی ہنستا بھی ہے تو یوں لگتا ہے کہ بچے کو ماں نے گدگدی کرکے ہنسایا ہے؎
روتے ہوئے کہتے ہو کبھی پھر سے ہنسیں گے
کیا خوب ہنسنے کا ہے گویا کوئی دن اور
مہنگائی بمباری
٭...مریم نواز، عمران خان کو صادق اور امین قرار دینے والے ججوں کو سلیوٹ، بنی گالہ کا این او سی جعلی قرار دینے پر ٹوئٹ۔
مریم ٹھیک ٹھیک نشانے لگاتی ہیں۔
٭...عوامی حلقے کشمالہ کی شخصیت متنازع، وفاقی محتسب برائے انسداد جنسی ہراسگی بنانا حیرت انگیز ہے۔
عوامی حلقے بتائیں کشمالہ کس پہلو سے متنازع ہیں۔ عوامی حلقے یہ جان رکھیں کہ یہ اعتراض جو انہوں نے اٹھایا ہراسگی ہے، یہ بھی تو حیرت انگیز ہے۔
٭...نواز شریف ، قوم نے فیصلہ کرلیا، ووٹ کا احترام نہ کرنے والے کی عزت نہیں کریں گے۔
میاں صاحب! کیوں پوری قوم کو کنٹیمپٹ میں ڈال رہے ہیں۔
٭...دفتر خارجہ، پاکستان گرے لسٹ میں شامل۔
مبارک ہو!
٭...حکومت نے عوام پر پٹرول بم گرادیا۔
حکومت بات بات پر عوامی عدالت میں جانے کی دھمکی دیتی ہے، پھر عوام ہی پر یہ بم گرانا کیوں؟