پاکستان پر قائم ہوتی کمپنی کی حکومت

March 04, 2018

انسانی تاریخ میں ہندوستان (بھارت) اپنے جغرافیے، فطری ماحول اور قدرتی اثاثوں کے باعث انسانی آباد کاری کیلئے کرہ ارض کے پرکشش خطوں میں بھی سر فہرست رہا۔ برفانی یورپ سے اعلیٰ و بالا نسل ہونے کے دعویدار آریائی طویل تر سفر کرتے دریائے سندھ کے کناروں پر آباد ہوئے۔ انہوں نے اسے ہی ہر لحاظ سے بہترین خطہ سمجھتے ہوئے یہیں آباد ہونے کی ٹھانی اور مقامی قبائلی کو اپنے زیرنگیں کرنے کا نسلی فیصلہ کیا۔ اس مقصد کیلئے ان کے اہل دانش نے کمال کی کہانی نویسی اور فسانہ تراشی سے تقدس اور عقائد سے پرہندومت یوں گھڑا کہ اس کی بنیاد ذات پات کے معاشرے (جاتی سماج) پر رکھی۔ انتہائی مکاری سے گھڑی کہانیوں سے مقامیوں اور اپنی نئی نسل میں مذہبی عقیدے کی حد تک یہ یقین پیدا کر دیا گیا کہ ہم (آریائی جو ہندو سماج میں برہمن کہلائے) مقامی بھارتیوں کے مقابلے میں اعلیٰ و برتر ہیں۔ ہمارے بزرگوں کی نیک کاریوں کے باعث ہم (تصوراتی) دیوتائوں کے مراعات یافتہ اور اس اعتبار سے پرکشش رنگ و روپ اور نقش و نگار والے ہیں جبکہ مقامی (جو اچھوت قرار پائے) اپنے بزرگوں کی بداعمالیوں کے باعث نسل در نسل حقیر، پلید اور ملامتی ہو گئے۔ 5سے6 ہزار سال قبل تک بھارت میں آباد آریائی دانشوروں کے مکارانہ و شیطانی ابلاغ مسلسل کا انسانیت سوز اثر دیکھیں کہ آج ایک عالمی آبادی کے چھٹے حصے کا حامل بھارت، آج 21ویں صدی میں بھی برہمنوں کی سماجی، اقتصادی و ثقافتی اور سیاسی برتری کے ساتھ آئینی طور پر جمہوری اور سیکورلر ہوتے ہوئے بھی ووٹ سے بنی ہندو بنیاد پرستی کی حکمرانی کی ریاست ہے۔ بمطابق آئین، نئی دہلی کے حاکم ہندوہوں مسلمان یا سکھ پس پردہ اصل مقتدر سیاسی طاقت برہمنوں کی ہی ہے۔ تبھی تو ماڈرن ڈیموکرٹیک سیکولر انڈیا کا آرکیٹیکٹ ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈ کر کو بھارت کیلئے کمال کی آئین سازی کے باوجود مرنے سے قبل ہندومت ترک کر کے بدھ مت قبول کرنا پڑا۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر صاحب ہندو سماج کی درجہ بندی میں اچھوت تھے۔ آپ جب قبل از تقسیم امریکہ اور برطانیہ سے آئین و قانون میں الگ الگ پی ایچ ڈی کر کے اپنے آبائی علاقے ریاست بڑودالوٹے تو ریاست کے راجہ نے ڈاکٹر صاحب کو سیکورٹی چیف تعینات کر دیا۔ وہ ریاست کے ہم پلہ اونچی ذات کے افسران کے ساتھ کھانا کھا سکتے تھے نہ ان کے ساتھ اٹھ بیٹھ سکتے تھے۔ (یہ اک الگ اور دلچسپ کہانی ہے کہ ڈاکٹر امبیڈ کرقائداعظم سے ملاقات کے بعد لاہور کیوں نہ آ سکے اور خواہش کے باوجود مرنے سے قبل مسلمان ہونے کے باوجود کیوں بدھ مت قبول کر کے مرے) کس طرح انڈین کانگریس کے برہمن ٹولے نے ان سے آئین سازی کرا کر، انہیں سیاسی و حکومتی امورمیں وزیر قانون سے آگے آنے نہیں دیا۔
یہ تو تھی بھارت میں آریائوں کی آباد کاری، ہندومت کی تشکیل سے لے کر آج بھارت میں اس کے آئین کی روح کے برعکس ہندو بنیاد پرستی کے غلبے (بذریعہ ووٹ) کی اذیت ناک کہانی۔
تاریخ جدید میں بھی ہندوستان کے ساتھ خوب ہوا۔ پھر یورپ سے ہی ایک تجارتی سیاسی ذہن بڑھتا پھیلتا ہندوستان پہنچا۔ عظیم تر سیاسی عزائم کے محدود تر وسائل سے دیار غیر (اور وہ بھی سات سمندر پار) میں جا کر تکمیل کی کہانی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان پر پہلی یورپی حکومت قائم کی۔
16دسمبر 1600ء میںبرطانیہ کے تاجروں کے ایک گروپ نے باہم مل کر ’’ایسٹ انڈیز کمپنیز‘‘ قائم کی۔ اپنی شاہی حکومت سے تجارت کرنے کی اجارہ داری کا استحقاق حاصل کیا۔ 1608ء میں پہلا جہاز ہندوستانی بندرگاہ سورت پہنچا۔ یہاں جائزے اور ممکنہ سرگرمیاں شروع کیں۔ 1615ء میں سرتھامس رونے جہانگیر کے دربار میں حاضر ہو کر مغل شہنشاہ سے سورت میں فیکٹری قائم کرنے کی اجازت لی۔ بس پھر کیا تھا، ہندوستان میں کمپنی کی تجارتی سرگرمیاں ہمارے آج کے حکمرانوں کی ’’بیرونی تجارت‘‘ کی طرح کمال رفتار سے بڑھنے لگیں۔ برصغیر کے ہر دو مشرقی و مغربی ساحلوں پر تیزی سے تجارتی ٹھکانے بننے لگے۔ کلکتہ، ممبئی اور مدراس میں گوروں کی رہائشی کالونیوں کی تعمیر ہونے لگی۔ سماجی تعلقات بڑھنے لگے۔ بات تجارت سے آگے نکل رہی تھی، لیکن بڑے دھیمے اور قابل قبول انداز میں۔ پھر کمپنی سیاسی ہونے لگی۔ ہوتے ہوتے بس سیاسی ہی ہو گئی۔ مقامی مزاحمت ہونے لگی تو عسکری بھی ہونے لگی۔ مقامی معاونت حاصل کرنے کا کمال دکھایا جاسوسی کا فن استعمال کیا اور مقامی معاونت کی کامیابی غدار پیدا کرنے میں تبدیل ہونے لگی۔ باقاعدہ عسکری مزاحمت جنگوں میں تبدیل ہو گئی۔ توڑے دار بندوق نے مقامی غداروں اور غداروں نے جدید بندوق سے بڑھ کر گوروں کو کامیاب کرایا۔ آگے نواب سراج الدولہ، تیتو میر اورٹیپو سلطان کی مزحمت کی تاریخ ایسٹ انڈیا کمپنی نے 100 سال مشرقی ہند پر حکومت کی اور آگے بڑھتی گئی۔ ہندوستان پر راج کی دوسری صدی کمپنی نہیں برطانوی راج سے شروع ہوئی جو آنے والے نوعشروں تک جاری رہا۔ یہ تاریخ کا دلچسپ سوال ہے کہ ہندوستان پر گورا راج جو آغاز نرم خوئی اور تجارت کے سودوں سے ہوا تھا، وہ نرا گھاٹے کا سودا تھا یا برصغیر کو بھی بہت کچھ ملا؟ اور یہ بھی کتنا بڑا سوال ہے کہ چند ہزار گوروں نے اس وقت بھی کروڑوں پر کامیاب ترین راج کیسے کیا؟
آج اسلامی جمہوریہ میں پیدا ہوا اور تیزی سے واضح ہوتا ہوا سوال یہ نہیں؟ کہ آئین، جمہوریت سیاسی جماعتوں اور منتخب حکومتوں کی آڑ میں پاکستان میں بھی کمپنی راج قائم نہیں ہو چکا ؟ ہماری سیاست سودوں، کک بیکس، فرنٹ مین اور کمپنیوں سے عبارت نہیں ہو چکی۔ ہمارے برہمن بھارتی برہمنوں سے زیادہ خطرناک نہیں، جو پاکستان کی بڑھتی غربت اور کروڑوں عوام کی بنیادی ضروریات سے محروم کے ذمہ دار ہیں۔
پانامہ لیکس کے بعد جس تیزی سے ہمارے حکمرانوں کی سمندر پار پوشیدہ اور حکمرانی کے گورکھ دھندے میں لپٹا کمپنیوں کا ریکارڈ جس تیزی سے نکل رہا ہے۔ اس سے تو یہ لگ رہا ہے کہ ملک میں پارلیمان کی حکومت ہے نہ کابینہ کا کوئی کردار۔ عدلیہ فقط ’’5 جج‘‘ مانی جا رہی ہے۔ پارلیمنٹ اتنی لاغر کہ اپنے بنیادی وقار کا تحفظ نہیں کر سکتی۔ پانامہ لیکن کی تفتیش نے بے نقاب کیا کہ ہمارے حکمراں تو اقامہ یافتگان بھی ہیں اور اقاموں کے نیچے کتنی کتنی کمپنیاں چھپی ہوئی ہیں۔ اب تو ہمارا کوڑا بھی کسی شہرمیں ہمارے یار غار چین کی اور کس شہر میں برادر ترکی کی کمپنی ٹھکانے لگاتی ہے۔ تعلیم، صحت، زراعت، رہائشی کالونیاں، سڑکیں، ٹرانسپورٹ سب کچھ کمپنیوں کے حوالے نہیں ہوتا جا رہا؟ اور کمپنیوں کے شریک ہمارے حکمراں، واہ واہ، کیا کاروبار ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے تو تجارت کرتے کرتے ہندوستان پر اپنی حکمرانی مسلط کر دی۔ ہمارے حکمراں حکومت کرتے کمپنیاں بنا کر ملک کا اصل اپنی اولاد سمیت باہر لے جا رہے ہیں۔ ملک کھوکھلا نہیں ہو رہا ہے؟ اب ہماری بندرگاہوں، ہوائی سفر اور اڈے، یونیورسٹیاں، ہسپتال تاجر سیاست دانوں اور آنے والے وقت میں ان کی آل اولاد کرنے کا دھندہ اپنے عروج پر آن نہیں پہنچا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی بھی اپنا اپنا کاروبار کرنے والوں نے مل کر بنائی تھی۔ ہمارے ملک اپنی اپنی سیاست کرنے والے سیاستدان ایک ہی کمپنی کے حصے دار نہیں؟ جس کا کاروبار ملک کو تادم حکومت لوٹنا ہے۔