آرٹ انسانی اقدار کا ترجمان ہے : تفریح صحت مند معاشرے کا لازمی جز ہے

March 06, 2018

عاشق چوہدری

موجودہ دور میں میڈیا معاشرے کی بقا اور اس کو متحرک رکھنے کے لئے ایک لازمی اکائی کی حیثیت رکھتاہے۔ میڈیا کے بغیر موجودہ معاشرتی، اقتصادی اور ثقافتی نظام قائم نہیں رہ سکتا۔ میڈیا معاشرے میں کئی اہم سرگرمیاں ادا کرتا ہے۔ معلومات کی فراہمی میڈیا کا سب سے اہم کام ہے۔ میڈیا معاشرے کی تمام جزئیات تک مختلف معاملات کے بارے میں معلومات کی فراہمی کو یقینی بناتا ہے۔ علاوہ ازیں میڈیا معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان ان اقدار کا ابلاغ بھی کرتا ہے جن کے باعث معاشرے کا توازن قائم رہتا ہے۔ میڈیا کا ایک اہم ترین کام تفریح مہیا کرنا بھی ہے۔ تفریح انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ تفریحی ذرائع کسی بھی معاشرے کو اعتدال کی سطح پر قائم رکھنے کے حوالے سے اہم ترین فریضہ انجام دیتے ہیں۔ تفریح کو معاشرے کا بفر کہا جاسکتا ہے۔

تفریح کے ذریعے سے معاشرے تخریب سے محفوظ رہتے ہیں۔ خالق نے انسان کو بے شمار صلاحیتوں اور طاقتوں سے نوازا ہے۔ان صلاحیتوں اور طاقتوں کا استعمال اگر تعمیری سرگرمیوں میں نہیں ہو پائے تو اس کے نتیجے میں ایسے رجحانات جنم لیتے ہیںجو کہ معاشروں کو تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔ انسانی معاشروں میں موجود تنائو، پریشانی، فرسٹریشن اور ڈپریشن کا واحد حل معاشرے میں ایسی سرگرمیوں کا فروغ ہے جن کے ذریعے سے افراد اجتماعی اور انفرادی سطح پر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کر سکیں۔

ان سرگرمیوں کی فہرست طویل ہے۔ ان میں کھیلوں کے مواقع، آرٹ کی تقریبات، ادب کو تخلیق کرنے کے حوالے سے سرگرمیاں اور موسیقی، ڈرامہ، رقص اور دیگر فنون لطیفہ کا فروغ اہم ہیں۔ تاہم اس تحریر کا میلان فنون لطیفہ کی جانب ہی مرکوز رہے گا۔

اگر پاکستانی معاشرے کے موجودہ مسائل کا تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہے کہ پاکستانی معاشرے میں تفریح کے ذرائع کے فروغ، اس اہم انسانی ضرورت کو سمجھنے اور اس کی عوام تک رسائی کو آسان بنانے کے لئے خاظر خواہ اقدامات نہیں کئے گئے۔

پچھلے ستر برسوں کے دوران ہمیں حکومتی سطح پر کوئی ایسی پالیسی یا اقدامات دکھائی نہیں دیتے جو کہ پاکستانی معاشرے میں تفریحی ذرائع کے فروغ کے لئے کئے گئے ہوں۔ حکومتوں کے نزدیک معاشرتی اور ثقافتی معاملات کی کوئی اہمیت دکھائی نہیں دیتی۔ فنون لطیفہ کے تمام ذرائع کی نشوو نما خود ر و پودوں کی مانند ہوتی رہی ہے۔ یہاں اس امر کا تذکرہ لازمی ہے کہ محض آرٹس کونسلز کی تشکیل یا ان کی عمارات بنا دینے سے معاشروں میں فنون کی پروان نہیں ہوتی اور نہ ہی ایسا کر دینے کے بعد حکومتیں اپنے فرائض کی ادائیگی سے سبکدوش ہو جاتی ہیں۔

بلکہ حکومتوں کا مقصد معاشرے میں آرٹ، ادب اور فنون لطیفہ کی بڑھوتی، فروغ اور ابلاغ کے حوالے سے سازگار ماحول کو فراہم کرنا اور اس ماحول کی نمو کو یقینی بنانا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں عدم برداشت، عدم رواداری اور انتہا پسندی کے جو نشانات ملتے ہیں ان کی ایک اہم وجہ معاشرتی حلقوں کی جانب سے تفریح کے ذرائع کے فروغ کے حوالے سے اقدامات کا نہ کئے جانا ہے۔پاکستانی معاشرے میں تفریح کے مواقع پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

فلم تفریح کا ایک اہم ترین ذریعہ ہے۔ آج پاکستانی فلمی صنعت اپنی بقا کی جنگ میں مصروف ہے۔ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں ہے کہ لولی وڈ نے پچھلے ستر برسوں کے دوران تمام تر مسائل کے باوجود پاکستانی معاشرے میں تفریح کی فراہمی کو یقینی بنانے کے حوالے سے بےشمار اقدامات کئے ہیں۔

ساٹھ، ستر، اسی اور نوے کی دہائیاں اس حوالے سے خوش قسمت قرار دی جا سکتی ہیں ۔ اوائل میں پاکستانی فلمی صنعت مشکلات کا شکار تھی لیکن ان حالات میں بھی فلمی صنعت سے وابستہ افراد نے ملک میں فلم کے فروغ اور اس میڈیم کو تفریح کا ایک اہم ذریعہ بنانے کے حوالے سے اہم ترین اور قابل قدر خدمات انجام دیں۔ پاکستانی فلموں کا تجزیہ کیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان فلموں کی کہانیوں نے نہ صرف معاشرتی مسائل کو پردہ اسکرین تک پہنچایا بلکہ ان فلموں میں تفریحی مواد بھی موجود تھا۔

لولی وڈ میں فلموں کے حوالے سے مزاحیہ اداکاروں کی ایک بڑی تعداد موجود رہی ہے۔ مزاح کے حوالوں سے پاکستانی اداکاروں نے فلموں میں لازوال پرفارمنس دی ہے۔ ان فنکاروں میں رنگیلا، منور ظریف، علی اعجاز، ننھا، ظریف، خلیفہ نذیر، نرالا، ریمبو اور دیگر فنکار شامل ہیں۔ نوے کی دہائی سے شروع ہونے والے بحران نے جہاں پاکستانی فلمی صنعت کو ہر حوالے سے متاثر کیا وہاں پر فلموں میں تفریحی مواد کی نمایاں طور پر کمی بھی دکھائی دی اور مزاح کا معیار بھی تنزلی کا شکار ہوا۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ فلموں میں اعلیٰ درجہ کی مزاح نگاری اور تفریح کے حوالے سے دوسرے لوازمات کا خیال رکھا جائے۔ اس حوالے سے پاکستانی ثقافت اور معاشرتی اقدار کو ملحوظ خاطر رکھنا بھی ضروری ہے۔

پاکستان کی ٹی وی ڈرامہ کی صنعت اس وقت عروج پر ہے۔ اس صنعت سے وابستہ افراد کو نہ صرف معاشی آسودگی حاصل ہوئی ہے بلکہ ٹی وی ڈرامہ دوسرے تمام فنون لطیفہ کے لئے نرسری کا کردار ادا کر رہا ہے۔ پچھلے پانچ برسوں کے دوران ٹی وی ڈرامہ رائٹرز نے قریباً تمام موضوعات پر بہترین کہانیوں کو تخلیق کیا ہے۔ ٹی وی ڈرامہ کی صنف میں کامیڈی ڈرامہ اس بھر پور انداز میں دکھائی نہیں دیتا جو کہ اس کی اہمیت کا تقاضا ہے۔ حالیہ برسوں میں بلبلے کو سب سے کامیاب سٹ کام قرار دیا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر یونس بٹ کا تخلیق کر دہ ہم سب امید سے ہیں بھی کامیڈی میں کامیابی کے نئے ریکارڈز قائم کر چکا ہے۔ اس وقت ٹی وی پر تفریح کے حوالے سے صرف انفوٹینمینٹ پروگرام ہی مشہور ہیں جن میں جیو ٹی وی کا پروگرام خبرناک سب سے آگے ہے۔ ٹی وی سے وابستہ افراد کو اس میڈیم میں تفریحی مواد کے حوالے سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔پاکستانی فلمی صنعت کی ایک اہم خدمت ملک میں موسیقی کے فروغ کے حوالے سے خدمات انجام دینا ہیں۔

فلمی موسیقی کے حوالے سے ہمارے پاس ایک بیش بہا خزانہ موجود ہے۔ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ موسیقی کا فن اس بھر پور انداز میں اجاگر نہیں ہو پا رہا جو کہ معاشرتی ضروریات کو پورا کر سکے۔ اگر تھیٹر کی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ یہاں بھی معاملات ابتر ہیں۔ تھیٹر کو معیاری تفریح کا ذریعہ بنانے کے حوالے سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور اس مقصد کے لئے تھیٹر میں سے لچر پن کا خاتمہ کرنا ہو گا۔ صحت مند تفریح معاشرے کے لئے آکسیجن کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لئے رقص، موسیقی، ادب، ڈرامہ، تھیٹر اور فلم کے شعبہ جات کی جانب موثر حکمت عملی کے ذریعے سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔