اک رشتہ، اک کہانی...

March 11, 2018


سہرے کی بجائے کفن

یہ9 نومبر 2017 ء کی ایک دُھند آلود صبح تھی اور مَیں حسبِ معمول روزگار خانے پہنچ چکا تھا، لیکن نہ جانے کیوں آج قدم بوجھل اور دِل ویران سا تھا۔ کوئی دس منٹ گزرے ہوں گے کہ برابر میں بیٹھے، اسد کے فون کی گھنٹی بجی اور پھر اُس نے روتے ہوئے بتایا کہ’’ ماموں ظہیر کا فون تھا، نعمان بھائی کا بہت سیریس ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے۔“ نعمان، ریسکیو 1122 حافظ آباد میں ملازم تھا اور شاہ جمال کے قریب ایک ٹریفک حادثے کی اطلاع پر ساتھیوں کے ہم راہ مدد کے لیے جا رہا تھا کہ ایمبولینس، سامنے سے آنے والے ڈمپر سے ٹکرا گئی۔ مَیں نے فورًا عبّاس بھائی کو فون کیا، تو اُنہوں نے بتایا کہ’’ نعمان ہوش میں نہیں، سی ٹی اسکین ہو رہاہے، جس کے بعد اُسے جنرل اسپتال، لاہور منتقل کیا جائے گا۔‘‘

ہمارے لیے ایک ایک لمحہ، صدیوں کے برابر تھا، کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں…بہرحال، ریسکیو 1122 کے لوگ اپنے زخمی ساتھی کو لاہور لے آئے اور ہم بھی جنرل اسپتال پہنچ گئے، جہاں عبّاس بھائی بار بار پوچھتے رہے’’ نعمان ٹھیک تو ہو جائے گا ناں؟‘‘ ہم اُنہیں تو تسلّیاں دے رہے تھے، لیکن خود ایک اَن جانے خوف میں گھِرے ہوئے تھے۔

نعمان کی ایک ماہ بعد یعنی23 دسمبر کو شادی طے تھی، مگر وہ 9 نومبر کی شام سب کو روتا چھوڑ گیا۔ اس جوان موت پر پورا شہر ہی سوگ میں ڈوب گیا اور جب میّت اٹھی، تو لوگوں کا سمندر امڈ آیا، ہر آنکھ اشک بار تھی۔ اہلِ خانہ کی چیخ و پکار دِلوں کو دِہلا رہی تھی، تو دوسری طرف ریسکیو 1122 کے غم زدہ اہل کار بھی اپنے جواں سال ساتھی کے یوں اچانک بچھڑ جانے پر ایک دوسرے سے لپٹ کر رو رہے تھے۔

محمد نعمان عباس 15 ستمبر 1992ءکو حافظ آباد کے محلّے، گڑھی اعوان میں پیدا ہوئے۔ والد شہر کے ماہر ٹیلر ماسٹر شمار کیے جاتے ہیں اور اپنی شرافت و سادگی کی وجہ سے عوام میں مقبول ہیں۔ نعمان نے سِول انجینئرنگ میں تین سالہ ڈپلوما کرنے کے بعد ایک سال تک نیشنل ہائی وے کے ایک منصوبے میں ملازمت کی۔ 2014ءمیں ریسکیو 1122 سے منسلک ہو گئے اور تربیتی مراحل طے کرنے کے بعد حافظ آباد میں تعینات ہوئے۔

وہ انتہائی محنتی، فرض شناس اور بہادر نوجوان تھا۔ انسانیت کی خدمت کے لیے ہر لمحہ مستعد اور دست یاب رہتا۔ ڈائریکٹر جنرل ریسکیو، ڈاکٹر رضوان نصیر (ستارۂ امتیاز) نے ریسکیو ہیڈ کوارٹر، لاہور میں ایک تقریب کا بھی اہتمام کیا، جس میں مقرّرین نے نعمان عباس شہید کی بہادری، جرأت اور خدمتِ خلق کے جذبے کو سراہا۔ اس موقعے پر شہید کے والد نے کہا کہ ”مجھے اپنے بیٹے کی شہادت پر فخر ہے اور ریسکیو کے دیگر کارکنان بھی میرے لیے اولاد ہی کی طرح ہیں۔“

( محمّد عُمر، حافظ آباد)

ہمارے اماں،ابا

زندگی کی بنیاد اور پھر سارا حُسن، والدین ہی کے مرہونِ منّت ہے۔ میرے والدین نے اَن پڑھ ہونے کے باوجود، تعلیم کو ہمیشہ اوّلین ترجیح دی۔ امّاں اور ابّا نے بھارت سے پاکستان ہجرت کرنے کے دَوران اس بات کا عہد کیا کہ وہ اپنے بچّوں کی بہترین تعلیم و تربیّت کریں گے، چاہے اس کے لیے اُنہیں کتنی ہی محنت اور مشقّت کیوں نہ کرنی پڑ ے۔ ہم چھے بھائی تھے اور کوئی بہن نہیں تھی۔

چوں کہ والدین کے ارادے نیک اور نیّت صاف تھی، اس لیے قدرت نے بھی اُن کی مدد کی اور ہم تمام بھائیوں نے اللہ کے فضل و کرم سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ مجھ سمیت چار بھائیوں نے کسی سفارش کے بغیر سرکاری ملازمت حاصل کی اور بعد ازاں، تین بھائیوں نے بیرونِ مُمالک بھی خدمات انجام دیں۔

الحمداللہ، ہمارے بچّوں میں بھی علم حاصل کرنے کی لگن موجود ہے، جو یقیناً ہمارے بزرگوں ہی کی دُعائوں کا ثمر ہے۔ ہماری والدہ صاحبہ نے کئی اسلامی کتب کا بغور مطالعہ کر رکھا تھا اور وہ اکثر محفلوں میں اُن کے حوالے بھی دیتیں۔ اُنھیں قرآن پاک پڑھنے کا بہت شوق تھا، لیکن بچپن میں نہیں پڑھ پائیں، پھر اس شوق کی تکمیل یوں ہوئی کہ ہماری بڑی بھابھی نے والدہ کو قرآنِ پاک پڑھنا سکھایا ۔

ہمارے ابّا اپنے پیر و مرشد، حضرت محمّد مختار اشرف الاشرفی الاجیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے چہیتے مرید تھے۔ امّاں، ابّا نے معاشی حالات بہتر بنانے کے لیے بھی دن رات محنت مشقّت کی اور اللہ تعالیٰ نے اُنھیں اس محنت کا پھل بھی دیا۔ ہمارے والدین نے انتہائی سادہ لیکن ایک بھرپور زندگی گزاری، جو ہمارے لیے یقیناً مشعلِ راہ ہے۔

(جاویدؔاقبال،ملیرکالونی،کراچی)

جھیل،تتلیاں سب،مگر گاؤں کھوگیا

پنڈی سے اسلام آباد کی طرف جائیں، تو تقریباً14کلو میٹر کے فاصلے پر مشہور تفریح گاہ، راول ڈیم ہے۔ یہاں کسی زمانے میں’’ راول‘‘ نام کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہوا کرتا تھا۔ ڈیم بننے سے پہلے، اس گاؤں کے عقب میں ایک خُوب صُورت آبشار، بڑے بڑے کالے پتھروں سے نکل کر گرا کرتی تھی، اسی آبشار کا پانی راول جھیل میں جمع کیا گیا اور اسی پر ڈیم تعمیر ہوا ۔

راول، کسی ہندو زمین دار کا نام تھا، جو کسی زمانے میں یہاں رہتا ہوگا، اسی وجہ سے اس گاؤں کا نام، راول پڑا۔ یہ گاؤں، اپنے قدرتی حسن اور آبشار کی وجہ سے مشہور تھا، یہی سبب ہے کہ کئی فلمز کی یہاں عکس بندی بھی کی گئی۔

میرا ننھیال اسی گاؤں میں تھا اور یہ میری جنم بھومی بھی ہے۔ میرا بچپن یہاں کے خُوب صورت کھیت، کِھلیانوں میں تتلیوں کے پیچھے بھاگتے، اس کے صاف شفّاف ندی، نالوں میں نہاتے اور مچھلیاں پکڑتے گزرا۔ ندی میں نہانے کے لیے گھر والوں سے چوری چُھپے جانا پڑتا اور اس چکر میں کئی بار مار بھی پڑی لیکن باز پھر بھی نہیں آتا تھا۔ میرے والدین پنڈی کے ایک پرانے محلّے میں رہتے تھے۔

اُن کا جب بھی راول آنے کا پروگرام بنتا، تو سب سے زیادہ خوشی شاید مجھے ہی ہوتی۔ مکئی کے موسم میں کھیتوں سے چھلیاں (بُھٹّے) توڑنا اور کھانا بڑا مزا دیتے۔ کھیت چاہے کسی کا ہو، کوئی منع نہیں کرتا، البتہ گھر والوں کی طرف سے بہت ڈانٹ پڑتی۔ وہاں کی مسجد میں نانا اذان دیا کرتے تھے اور گاؤں کی پُر سکون فضا میں صبح اذان کی آواز بہت بھلی لگتی۔ وہ مسجد آج بھی موجود ہے، مگر میرا گاؤں نہیں رہا۔ پچھلے دنوں مجھ بوڑھے کو اپنا گاؤں یاد آیا، تو وہاں جا پہنچا، بہت سے اور لوگ بھی تفریح کی غرض سے آئے ہوئے تھے۔ مَیں ایک بینچ پر بیٹھا، اپنے سہانے بچپن کو یاد کرتا رہا۔

وہاں کی گلیاں اور کھیت، کسی فلم کی مانند نگاہوں میں گھوم گئے۔ اب بوڑھا ہوگیا ہوں، وہاں تتلیاں اُسی طرح اُڑتی پِھرتی ہیں، تو مچھلیاں اب بھی جھیل میں اٹکھیلیاں کرتی ہیں۔ چشمے کا پانی بھی ٹھنڈا اور شیشے کی طرح صاف و شفّاف ہے، مگر میرا بچپن اور لڑکپن کہیں کھو گیا ہے۔

( شیخ ظہیراحمد، راول پنڈی)

تھجے اے ماں لاؤں کہاں سے۔۔۔۔؟؟

ہماری والدہ پچھلے سال شدید علالت کے بعد نوّے برس کی عُمر میں انتقال کرگئیں۔ عُمر کے اس حصّے میں پرانے امراض نہایت شدّت سے لَوٹ آئے تھے، جس کی وجہ سے اُنہیں بار بار اسپتال میں داخل کروانا پڑتا اور جب گھر آتیں، تب بھی اُن کا کمرا کسی اسپتال ہی کا منظر پیش کرتا۔

والدہ کی بیماری کے دَوران ہی مَیں اپنی مدّتِ ملازمت مکمل ہونے پر ریٹائر ہوگیا، لیکن امّاں کی پریشانی کے سبب اپنی زندگی کے اس نئے موڑ کا احساس تک نہ ہوا ۔ اب تو ہر وقت اُن ہی کے پاس بیٹھا رہتا۔ امّاں کی حالت دن بہ دن بگڑتی جارہی تھی اور ڈاکٹرز بھی ناامید ہوچکے تھے، لیکن ہمیں پھر بھی ایک ڈھارس تھی کہ ماں جس حال میں بھی ہے، ہمارے درمیان تو موجود ہے۔ وہ اتنی شدید تکلیف اور نقاہت کی حالت میں بھی اپنے لاغر ہاتھ سے، میرا ہاتھ پکڑے رکھتیں اور دُعائیں دیتی رہتیں۔ بالاؔخر اسی کش مکش میں ایک دن اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔

امّاں کی وفات کو ایک برس سے زاید ہوچکا ہے، مگر جدائی کا یہ زخم ابھی تک نہیں بَھرا۔ مَیں ہر ہفتے اُن کی قبر پر جاتا ہوں اور کافی دیر تک بیٹھا رہتا ہوں۔ اب تو میری زندگی بھی عُمر کے آخری حصّے میں داخل ہوچکی ہے اور قدرت کی عطا کردہ ہر نعمت میرے پاس ہے، لیکن ماں سے محرومی کا قدم قدم پر احساس ہوتا ہے۔ اللہ اُن تمام دُکھی اور غم زدہ لوگوں کوصبر عطا کرے، جن کی جنّت اُن سے جدا ہوچکی ہے اور جن خوش نصیبوں کے والدین حیات ہیں، اُنہیں اُن کی خدمت کرنے اور دعائیں لینے کی توفیق عطا کرے۔

(عبدالقیوم، فیڈرل بی ایریا، کراچی)

دلوں میں زندہ رہیں گی.....

ہماری والدہ’’ امّ رباب‘‘، جنھیں ہم آپا جان کہا کرتے تھے، بھارت سے پاکستان آئیں، تو اُن کی عُمر14برس تھی۔ 1955ء میں بیاہ کر لاڑکانہ آئیں۔ اُن دنوں کراچی کا موسم بہت خوش گوار ہوتا تھا، جب کہ لاڑکانہ میں سخت گرمی پڑتی تھی اور وہاں بجلی بھی نہیں آئی تھی۔ پھر یہ کہ ہمارا گھر صرف2کمروں پر مشتمل تھا اور تین خاندان ساتھ رہتے تھے، لیکن آپا جان نے زندگی بھر شکایت نہ کی۔

اُنھوں نے ہم ساتوں بہن، بھائیوں سے ہمیشہ یک ساں سلوک کیا، کسی کے زیادہ نخرے اٹھائے اور نہ کسی کو نظر انداز کیا۔وہ نماز، روزے کی سخت پابند تھیں اور اس معاملے میں ہم پر بھی سختی رکھتی تھیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ہم سب بہن، بھائی نماز روزے کے پابند ہیں۔ محرّم کے دنوں میں خود بھی پابندی سے مجالس میں جاتیں اور ہمیں بھی تاکید سے بھیجتیں۔ اُن کی خاص بات یہ تھی کہ ہمیں کسی بھی مذہب یا مسلک سے نفرت کا درس نہیں دیا۔

2000 ء میں ہمارے والد کی وفات ہوئی، تو ہم بہت پریشان رہنے لگے، جس پر وہ ہمیں دلاسا دیتیں کہ’’ ارے تم لوگ پریشان کیوں رہتے ہو، ابھی میں زندہ ہوں، فکر کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ جب یونی ورسٹی جاتا، تو میری ساری تیاری اپنی نگرانی میںخود کرواتیں۔ ہم اُن سے خُوب ہنسی مذاق بھی کرتے، مگر مجال ہے جو کبھی بُرا مانا ہو۔

2014ء میں اُن کی دائیں ٹانگ میں درد ہوا اور ایسا ہوا کہ پلنگ سے لگ کر رہ گئیں، ضروری امور کے لیے بھی مشکل سے اٹھ پاتیں، جس کی وجہ سے دیگر امراض نے بھی لپیٹ میں لے لیا۔ ہم سب بہن، بھائیوں نے جی جان سے اُن کی خدمت کی۔

اس موقعے پر اپنے ڈاکٹر دوست، محمّد ایوب شفیع کا شکریہ ادا کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں، جنھیں جب بلایا، فوراً چلے آئے۔پھر وہ دن بھی آ ہی پہنچا، جو ہر ذی روح کو دیکھنا ہے، یہ عزیز از جان ہستی 14دسمبر 2016 ء کو انتقال کر گئیں۔ اے ہماری ماں، آپ ہمارے دِلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔

( وقار وحید جعفری اور دیگر بہن بھائی، لاڑکانہ)