جسٹن ٹروڈو کےحالات زندگی پر ایک نظر

March 11, 2018

طلعت عمران

دراز قد، کسرتی بدن، خیرہ کُن رنگت، شوخ و چمک دار سُرمئی آنکھیں، روشن پیشانی سے اٹکھیلیاں کرتی سُنہری زُلفیں، سحر انگیز تبسّم اور دِل میں اُتر جانے والا اندازِ تکلّم…

یہ تمام خصوصیات اگر کسی ایک سیاسی رہنما میں پائی جاتی ہیں، تو وہ ہیں، کینیڈا کے 47سالہ وزیرِ اعظم، جسٹن ٹروڈو، جن کا انسانیت سے اُنس و محبّت دیکھ کریہ گمان ہوتا ہے کہ جیسے احساسِ تفاخر اور طمطراق اُنہیں چُھو کر بھی نہیں گزرا۔

گرچہ اُمورِ جہاں بانی گُھٹّی میں پڑے تھے، لیکن 35برس تک خار زارِ سیاست سے کہیں دُور نِت نئے جہاں تلاش کرنے میں مصروف رہے اور اس تگ و دَو میں معلّم سے لے کر بائونسر تک کے فرائض نبھائے۔ اگر بات جسٹن ٹروڈو کی خُوب صُورت، جاذبِ نظر شخصیت اور رکھ رکھائو ہی تک محدود ہوتی، تو شاید زیادہ اہم نہ تھی کہ وجاہت اور حُسن و جمال توپیدائشی طور پر قدرت کی طرف سے ودیعت کردہ ہوتے ہیں۔

مگر اس بات کا سہرا کینیڈین وزیرِ اعظم کے سَر ضرور جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے احساسِ درد مندی سے نہ صرف مختلف نسلی و لسانی اکائیوں سے تعلق رکھنے والے کینیڈین باشندوں کے درمیان جذبۂ یگانگت پیدا کیا، بلکہ ہزاروں مہاجرین کو بھی اپنایا اور اپنی ذہنی صلاحیتوں کی بہ دولت قریب المرگ، لبرل پارٹی میں نئی رُوح پُھونک کر وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔ کرسمس کے روز پیدا ہونے والے جسٹن ٹروڈو نے وزیرِ اعظم کی حیثیت سے کینیڈا میں مقیم اقلیتوں کے تہواروں میں شرکت اور مساجد، مندروں اور گوردواروں کے دوروں کے نتیجے میں دُنیا بالخصوص پاکستان اور بھارت میں مقبولیت حاصل کی۔

یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دِنوں اپنے دورۂ بھارت کے موقعے پر جب مشرقی لباس میں ملبوس جسٹن ٹروڈو اور اُن کی اہلیہ اور بچّوں کی تصاویر منظرِ عام پر آئیں، تو انہیں سوشل میڈیا اور روایتی ذرایع ابلاغ میں بے حد پزیرائی ملی۔

2015ء میں کینیڈا کے 23ویں وزیرِ اعظم منتخب ہونے والے جسٹن پیرے جیمز ٹروڈو 25دسمبر 1971ء کو دارالحکومت، اوٹاوا میں پیدا ہوئے۔ سیاست میں آمد سے قبل ایک معلّم اور سماجی کارکن کے طور پر خدمات انجام دینے والے جسٹن ٹروڈو ،سابق کینیڈین وزیرِ اعظم، پیرے ٹروڈو کے سب سے بڑے صاحب زادے ہیں اوران کی والدہ کا نام،مارگریٹ ٹروڈو ہے۔

سیاست ان کے خون میں شامل ہے کہ ان کے نانا، جمی سنک لیئر 1950ء کی دہائی میں کینیڈا کی وفاقی کابینہ میں وزیر رہے۔ جسٹن 2007ء میں اسٹیبلشمنٹ کے نمایندے کو شکست دے کر مونٹریال کے ضلعے،پاپی نیو سے لبرل پارٹی کے امیدوار نام زَد ہوئے اور ایک سال بعد دارالعوام ( کینیڈا کے ایوانِ زیریں) کے رُکن منتخب ہوئے۔

اُن کا رُکنِ پارلیمنٹ منتخب ہونا ،اس اعتبار سے حیران کُن تھا کہ سیاسی پنڈت مسلسل انہیں فرانسیسی بولنے والے ووٹرز کے لیے ناقابلِ قبول قرار دے رہے تھے۔ انہوں نے 2013ء میں لبرل پارٹی کی قیادت حاصل کی اور2015ء میں اپنی جماعت کو ایوان میں برتری دِلا کر کینیڈا کے وزیرِاعظم منتخب ہوئے۔

جب جسٹن ٹروڈو کی عُمر صرف 6برس تھی، تو ان کے والدین کے درمیان علیٰحدگی ہو گئی اور وہ اور ان کے دو چھوٹے بھائی، الیگزینڈر اور مائیکل اپنے والد کے زیرِ کفالت رہے۔ اپنی زندگی کے ابتدائی ایّام وزیرِ اعظم کی سرکاری رہایش گاہ، 24سسیکس ڈرائیو میں گزارنے کی وجہ سے وہ اکثر عوام کی نظروں میں رہتے۔

جب جسٹن کی عُمر 12برس ہوئی، تو اُن کے والد نے سیاست کو خیر باد کہہ دیا اور اپنے بیٹوں کے ساتھ مونٹریال منتقل ہو گئے، جہاں جسٹن نے اپنے والد ہی کی مادرِ علمی، کالج جین ڈی بری بیوف سے ثانوی تعلیم مکمل کی۔ بعدازاں، مزید تعلیم کے حصول کے لیے میک گِل یونی ورسٹی میں داخلہ لیا، جہاں وہ مذاکرے کرنے والی ٹیم کے رُکن اور جنسی تشدّدکے خلاف کام کرنے والی اسٹوڈنٹس سوسائٹی کے رضاکار بھی رہے۔ 1994ء میں انگلش لٹریچر میں گریجویشن کے بعد جسٹن نے ایک سال بیرونِ مُلک سفر کرتے گزارا۔

1995ء میں میک گِل یونی ورسٹی میں واپس آئے اور اتالیق بننے کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔ تاہم، تعلیم مکمل ہونے سے قبل ہی وِسلر، برٹش کولمبیا منتقل ہو گئے، جہاں انہوں نے سِنو بورڈنگ کے انسٹرکٹر کے علاوہ ایک نائٹ کلب میں بائونسر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ چند ماہ بعد یونی ورسٹی آف برٹش کولمبیا کے ٹیچرز کالج میں داخلہ لیا، جہاں سے 1998ء میں بیچلرز آف ایجوکیشن کی ڈگری حاصل کی۔

کوکویٹ لیم، بی سی میں متبادل ٹیچر کے طور پر خدمات انجام دینے کے بعد، وینکوور کے ایک نجی اسکول، ویسٹ پوائنٹ گرے اکیڈمی میں مستقل ملازمت اختیار کی، جہاں ابتدا میں فرانسیسی اور ریاضی پڑھاتے رہے اور آخر کار وینکوور کی سرکاری درس گاہ، سر ونسٹن چرچل سیکنڈری اسکول میں ملازمت حاصل کرنے میں کام یاب ہو گئے۔

جہاں تک سوال ہے کہ ایک معلّم کے طور پر عملی زندگی کا آغاز کرنے والے جسٹن ٹروڈو سیاست میں کیسے آئے؟ تودراصل، دو الم ناک واقعات نے جسٹن ٹروڈو کی زندگی میں تحرّک پیدا کیا ۔ 1998ء میں کوکینی جھیل میں برفانی تودہ گرنے کے نتیجے میں چھوٹے بھائی، مائیکل کی موت نے انہیں گہرے صدمےسے دوچار کیااور اس واقعے کے صرف دو برس بعد پروسٹیٹ کینسر کے سبب والد کی موت نے توانہیں جیسے ہلا کر رکھ دیا۔

سرکاری اعزاز کے ساتھ والد کی تدفین کے موقعے پر ٹی وی چینلز پر اُن کی تعریف و توصیف جسٹن ٹروڈو کو ایک مرتبہ پھر عوام کی نظروں میں لے آئی اور اُن کی جانب سے اپنے آنجہانی والد کی طرح سیاست کو کیریئر بنانے کی افواہوں کو بھی تقویّت ملی۔

تاہم، 2002ء سے 2007ء کے درمیان جسٹن ٹروڈو نے پہلے یونی ورسٹی آف مونٹریال میں انجینئرنگ اور پھر میک گِل یونی ورسٹی میں ماحولیاتی جغرافیے کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخلہ لیا، لیکن کوئی ایک ڈگری مکمل کیے بغیر ہی سماجی کارکن بن گئے۔

2003ء میں جسٹن اور گریگوری کے درمیان ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا، جو ان کے چھوٹے بھائی، مائیکل کی بچپن کی دوست تھی اور کیوبک میں فرانسیسی اور انگریزی زبانوں کے ٹی وی اور ریڈیو چینلز میں میزبان کے طور پر خدمات انجام دے رہی تھیں۔ گریگوری اور جسٹن ٹروڈو 28مئی 2005ء کو رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے اور اس وقت ان کے تین بچّے، زیویئر، ایلا گریس اور ہیڈرین ہیں۔

جسٹن ٹروڈو، وینکوور میں سماجی کارکن کے طور پر فعال ہوئے اور کئی عوامی مسائل پر آواز بلند کی۔ اپنے بھائی کی موت کے بعد ’’کینیڈین ایولانچ فائونڈیشن‘‘ کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے برفانی تودوں سے متعلق آگہی پیدا کرنے کے لیے کام کیا اور ساتھ ہی ’’کینیڈین ایوالانچ سینٹر‘‘ کے قیام میں معاونت بھی فراہم کی۔ اس کے علاوہ نوجوانوں کے رضاکارانہ پروگرام ’’کیٹی میوِک‘‘ سے ڈائریکٹر کے طور پر منسلک رہے اور بعدازاں بورڈ کے سربراہ بھی بنے۔ انہوں نے ’’نوہانی فار ایور کیمپین‘‘ کی سربراہی کرتے ہوئے ماحولیاتی مسائل پر بھی آواز اُٹھائی۔

2006ء میں جسٹن ٹروڈو نے دارفر، افریقا میں نسل کُشی روکنے کی غرض سے اقوامِ متّحدہ پر مزید اقدامات کے لیے زور دیا اور 2008ء میں ٹورنٹو میں منعقدہ ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے نوجوانوں کو سیاست میں حصّہ لینے کی دعوت دی۔ اس پورے عرصے میں انہوں نے مُلکی ذرایع ابلاغ میں اپنی موجودگی برقرار رکھی اور مختلف موضوعات و مسائل پر تقریبات اور ریلیاں منعقد کرتے رہے۔

گرچہ جسٹن ٹروڈو دَورِ جوانی میں جماعتی سیاست میں سرگرم نہیں رہے تھے۔ تاہم، 2006ء کے مرکزی انتخابات میں لبرل پارٹی کی شکست کے بعد انہوں نے اپنے والد، پیرے ٹروڈو کے سابق پرنسپل سیکریٹری اور پارٹی کے تجدیدی کمیشن کے سربراہ، ٹام آکسورتھی کو اپنی مدد کی پیش کش کی اور آکسورتھی نے انہیں نوجوانوں کے مسائل پر بننے والے کمیشن کی ٹاسک فورس کا سربراہ تعیّنات کر دیا۔

2006ء میں لبرل پارٹی کی قیادت کی دوڑ میں جسٹن ٹروڈو نے سابق وزیر، گیرارڈ کینیڈی کے حق میں مُہم چلائی ، لیکن امیدواروں کی فہرست سے کینیڈی کے نکلنے کے بعد، اسٹیفن ڈیون کے حامی بن گئے، جنہوں نے فتح حاصل کی۔ اس مرحلے پر انہیں احساس ہوا کہ وہ کام یاب مُہم چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اپنے اسی اعتماد کی بہ دولت2007ء میں اسٹیبلشمنٹ کے حمایت یافتہ امیدوار کو شکست دے کر مونٹریال کے ضلعے، پاپی نیو سے لبرل پارٹی کے امیدوار نام زَد ہوئے ۔

خیال رہے کہ پاپی نیو کی تقریباً نصف آبادی فرانسیسی بولنے والوں پر مشتمل ہے اور ان میں سے بیش تر کیوبک قوم پرست ہیں، جنہوں نے 2006ء کے انتخابات میں ایک علیحدگی پسند رہنما کو سیاسی جماعت، ’’بلاک کیوبکوئس‘‘ کا رُکنِ پارلیمنٹ منتخب ہونے میں مدد فراہم کی تھی اور وہ جسٹن ٹروڈ کو بھی اُن کے والد کی طرح کیوبک کا مخالف سمجھتے تھے۔ 2008ء میں ہونے والے انتخابات میں جسٹن ٹروڈو اپنی نشست سے تو کام یاب ہوگئے، لیکن اُن کی جماعت کو عام انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور قدامت پسند ہی برسرِ اقتدار رہے۔

2009ء میں مائیکل اگناٹیف لبرل پارٹی کے قائد بنے ،تو جسٹن ٹروڈو کو پہلے اُمورِ نوجوانان اور مختلف نسلوں، قومیّتوں اور مذاہب کے افراد کو یک جا کرنے اور پھر نوجوانوں، شہریت اور تارکینِ وطن سے متعلق اُمور کی نگرانی کی ذمّے داری سونپی گئی۔

گرچہ 2011ء کے انتخابات میں جسٹن، پاپی نیو سے دوبارہ رُکنِ پارلیمنٹ منتخب ہوئے، لیکن یہ انتخابات ان کی جماعت کے لیے تباہ کُن ثابت ہوئے اور لبرل پارٹی ایوانِ زیریں میں تیسرے نمبرپر آنے کی وجہ سے حزبِ اختلاف کی جماعت بن گئی۔ مذکورہ نتائج لبرل پارٹی کی تاریخ کے بد ترین نتائج تھے اور اس موقعے پر بعض تجزیہ کاروں نے اس کے ’’قریب المرگ‘‘ ہونے کی پیش گوئی بھی کر دی۔

انتخابات میں بدترین شکست پر اگناٹیف نے لبرل پارٹی کی سربراہی سے استعفیٰ دے دیا اور نئی قیادت کے لیے جسٹن ٹروڈو پر دبائو بڑھ گیا۔ تاہم، زیادہ تر ناقدین نے انہیں سنجیدہ لینے سے انکار کر دیا اور ان کے تجربے اور ذہنی صلاحیت پر سوالات اُٹھائے۔

اس موقعے پر جسٹن ٹروڈو نے مایوس ہونے کی بہ جائے عوام کے سامنے خود کو ثابت کرنے کی کوشش کی اور کینسر پر تحقیق کی خاطر فنڈز جمع کرنے کے لیے کنزرویٹیو پارٹی کے سینیٹر، پیٹرک بریزیو کو باکسنگ مقابلے کا چیلنج دے دیا۔ (باقی صفحہ 19پر)

اُن کا کہنا تھا کہ ’’ لوگ اکثر مُجھے حقیر گردانتے ہیں۔ یہ مُجھے لائٹ ویٹ یا اوسط درجے کا باکسر سمجھتے ہیں، لیکن اگر مَیں یہ لڑائی جیت جاتا ہوں، توشاید یہ مُجھے زیادہ سنجیدہ لینے لگیں۔‘‘ جسٹن کے ساتھیوں نے انہیں خود سے کم عُمر اور بھاری بھرکم بریزیو سے، جو سابق سپاہی ہونے کے علاوہ کراٹے میں بلیک بیلٹ بھی حاصل کر چُکا تھا، لڑائی نہ کرنے کی نصیحت کی اور تجزیہ کار بھی لڑائی سے قبل ہی اُنہیں شکست خوردہ تصوّر کر چُکے تھے اور ہر کوئی صرف اسی نکتے پر بات کر رہا تھا کہ رِنگ میں جسٹن کتنی چوٹیں کھائیں گے۔

تاہم، اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے وہ ایک شوقیہ باکسر کے طور پر جسٹن کے تجربے اور لڑائی سے قبل ان کی سخت ٹریننگ کو نظر انداز کر رہے تھے۔ جسٹن نے یہ تخمینہ لگایا تھا کہ سگریٹ نوش ہونے کی وجہ سے بریزیو رِنگ میں زیادہ تر کھڑا نہیں رہ پائے گا اور پھر ایسا ہی ہوا۔ مارچ 2012ء کو ہونے والے مقابلے میں جسٹن نے تیسرے ہی رائونڈ میں اپنے حریف پر فتح حاصل کر لی اور کینیڈین عوام کی توجّہ کا مرکز بن گئے۔

2اکتوبر 2012ء کو جسٹن ٹروڈو نے اپنی پارٹی کی قیادت حاصل کرنے کے لیے مُہم کا آغاز کیا اور 14اپریل 2013ء کو تقریباً 80فی صد ووٹ لے کر پارٹی لیڈر شپ حاصل کر لی۔ لبرل پارٹی کا قائد بننے کے بعدانہوں نے اپنی جماعت کو دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا کرنے لیے سخت جدوجہد کی اور ایک بھرپور و توانا شخصیت کے طور پر سامنے آئے۔ تاہم، اُن کے مخالفین نے انہیں ایک ’’شوقیہ فن کار‘‘ قرار دیا۔ 2015ء میں کنزرویٹیوپارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیرِ اعظم، اسٹیفن ہارپر نے پولنگ کے دِن سے دو ماہ سے بھی پہلے نئے انتخابات کا اعلان کر دیا اور 1870ء کی دہائی کے بعد پہلی مرتبہ ایک طویل ترین انتخابی مُہم کا آغاز کیا۔

نئے انتخابات کا اعلان ہوتے ہی سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کے درمیان ٹی وی چینلز پر مباحثے شروع ہو گئے اور کنزرویٹیوز اور نیو ڈیموکریٹس نے مل کر جسٹن ٹروڈو کو دبائو میں لینے کی کوشش کی، لیکن لبرل پارٹی کی انتخابی مُہم بھی متاثر کُن رہی اور جسٹن نے مذاکروں میں اچھی کارکردگی دِکھائی۔

اپنی انتخابی مُہم میں لبرل پارٹی نے گزشتہ 9برس سے قائم کنزرویٹیو حکومت کو بدلنے، میری جوانا کو قانونی قراردینے، دسیوں ہزار شامی مہاجرین کو مُلک میں داخلے کی اجازت دینے اور انفرااسٹرکچر کی بہتری کے لیے فنڈزفراہم کرنے جیسے وعدے کیے اور پھر 19اکتوبر 2015ء کو ہونے والے عام انتخابات میں لبرل پارٹی دارالعوام کی 338میںسے 184(2011ء کے مقابلے میں150سے زاید )نشستیں حاصل کرنے کے بعد ایوانِ زیریں میں سب سے بڑی جماعت بننے اور حکومت بنانے میں کام یاب ہو گئی، جس کی سربراہی وزیرِ اعظم، جسٹن ٹروڈو کے پاس تھی۔

وزیرِ اعظم بننے کے فوراً بعد جسٹن ٹروڈو نے کینیڈا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسی کابینہ تشکیل دی، جس میں مَردوں اور خواتین کی نمایندگی مساوی تھی اور اقلیّتوں کا بھی خاصا حصّہ تھا۔

اپنی وزارتِ عظمیٰ کے پہلے دو برسوں میں انہوں نے 40ہزار شامی مہاجرین کو مُلک میں داخلے کی اجازت دی۔ انہوں نے بعض صوبوں میں اپوزیشن جماعتوں کی حکومت کے باوجود 2018ء میں کاربن ٹیکس متعارف کروانے کا منصوبہ بنایااور متوسّط آمدنی والے افراد پر سے اِنکم ٹیکس کا بوجھ کم کر کے اسے دولت مندوں پر منتقل کیا۔

جسٹن ٹروڈو کی حکومت نے مقامی خواتین اور لڑکیوں کے قتل اور انہیں لاپتا کرنے کے حوالے سے انکوائری کمیشن بنایا اور کم اور متوسّط آمدنی والے خاندانوں کے لیے ’’کینیڈا چائلڈ بینیفٹ‘‘ اور’’ نیشنل ہائوسنگ اسٹریٹجی‘‘ سمیت دیگر منصوبوں کا اعلان کیا۔ نیز، انہوں نے تین تاریخی غلط اقدامات پر معافی بھی مانگی، جن میں 1914ء میں اوٹاوا کی جانب سے بحری جہاز پر سوار مشرقی ایشیائی مسافروں کو کینیڈا میں داخلے کی اجازت دینے سے انکار، نیو فائونڈ لینڈ میں اسکول کے رہائشی طلبہ سے بد سلوکی اوروفاقی حکومت کی جانب سے جنسی رُحجانات کی بنیاد پر سرکاری ملازمین سے امتیازی سلوک روا رکھنا شامل ہیں۔

اس کے علاوہ جسٹن ٹروڈو ہی کے دَور میں صِنفی امتیاز کے خاتمے کے لیے کینیڈا کے قومی ترانے کے الفاظ in all thy sons commandکو in all of us command سے تبدیل کیا گیا۔ جسٹن ٹروڈو نے سینیٹ میں بھی اصلاحات کیں اور ایوانِ بالا کو غیر جانب دار بنانے کے لیے پہلے قدم کے طور پر 2014ء میں لبرل پارٹی کے سینیٹرز کو پارٹی کی پارلیمانی نمایندگی سے نکال دیا۔ وزیرِ اعظم کے طور پر انہوں نے قابلیت اور اہلیت کی بنیاد پر سینیٹ کے امیدوار نام زَد کرنے کے لیے ایک مشاورتی بورڈ بنایا، تاکہ نئے سینیٹرز کسی پارٹی کے نمایندے کی بہ جائے آزاد امیدوار کے طور پر سینیٹ میں بیٹھ سکیں۔

وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہونے کے بعد جسٹن ٹروڈو ایک مدبّر کے طور پر بھی سامنے آئے اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب 2016ء میں امریکا کے صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ صدر منتخب ہوئے، تو کینیڈین حکومت کی توجّہ کینیڈا، امریکا تعلقات پر مرکوز ہو گئی، کیوں کہ اسے ٹرمپ کی ’’نارتھ امریکن فری ٹریڈ ایگزیمنٹ‘‘ (نافٹا) منسوخ کرنے کی دھمکی اور امریکی صدر کے غیر متوقّع اقدامات کی صورت میں مشکلات کا سامنا تھا۔ اس موقعے پر ٹروڈو نے عوام کی مخالفت نظر انداز کرتے ہوئے ٹرمپ کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کیے اور اس سلسلے میں نہ صرف سابق کینیڈین وزیرِ اعظم، برین ملرونی اور کنزرویٹیو رہنما، رونا ایمبروز سے مشاورت کی، بلکہ امریکا سے مضبوط روابط رکھنے والی کینیڈین شخصیات سے بھی مدد طلب کی۔

تاہم، 2018ء کے آغاز میں جب امریکا کی معاہدہ ختم کرنے کی دھمکی، مذاکراتی مُہم سے کچھ بڑھ کر دِکھائی دی، تو ٹروڈو حکومت نے سخت مٔوقف اپناتے ہوئے ’’ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن‘‘ میں شکایت کی شکل میں امریکا کی تجارتی حکمتِ عملی کو چیلنج کر دیا۔

دیگر عالمی رہنمائوں کی طرح جسٹن ٹروڈو بھی مختلف اسکینڈلز اور مشکلات کی زَد میں رہے۔ 2017ء میں وہ اُس وقت مفادات کے تصام کا وفاقی قانون توڑنے کے مرتکب قرار پائے کہ جب انہوں نے ایک ایسے ارب پتی روحانی پیشوا، آغا خان کی زیرِ ملکیت بہاماس جزیرے پر اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ تعطیلات گزاریں کہ جن کی ’’کینیڈین فائونڈیشن‘‘ نہ صرف پرائم منسٹر آفس کے لیے لابنگ کرتی ہے، بلکہ وفاق سے فنڈز بھی وصول کرتی ہے۔

اس کے علاوہ جسٹن ٹروڈو کو اپنی انتخابی مُہم میں کیے گئے وعدوں کے مطابق انتخابی اصلاحات نہ کرنے پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ دریں اثنا، ان کی حکومت کو 2019ء کے انتخابات سے قبل وفاقی بجٹ کو متوازن رکھنے میں بھی مشکلات کا سامنا ہے اور وہ وفاقی ملازمین کا نیا پے رول سسٹم بھی، جسے’’ فونیکس‘‘ کہا جاتا ہے، نافذ نہیں کر سکی، جو 2016ء میں متعارف کروائے جانے کے بعد سے مشکلات کا شکار ہے۔

گزشتہ حکومتوں کی طرح ٹروڈو انتظامیہ بھی نئے جنگی طیّاروں اور بحری جہازوں کی خریداری میں تاخیر کا شکار ہے اور انہیں اپنی پارٹی کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی برآمد میں اضافے کے لیےدو نئی پائپ لائنز کی تعمیر کے فیصلے کے سبب ماحولیاتی تنظیموں اور برٹش کولمبیئن حکومت کی مخالفت کا سامنا ہے۔

کینیڈا کے وزیرِ اعظم گزشتہ دِنوں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ بھارت کے سات روزہ سرکاری دورے پر گئے تھے۔ ہر چند کہ اس دورے کے دوران مشرقی لباس میں ملبوس جسٹن ٹروڈو اور اُن کے بیوی، بچّوں کی تصاویر خاصی مقبول ہوئیں، لیکن بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بھارتی وزیرِ اعظم، نریندر مودی نے اپنے کینیڈین ہم منصب کے دورے کو اتنی اہمیت نہیں دی، جتنی دی جانی چاہیے تھی۔

یہی وجہ ہے کہ مغربی ذرایع ابلاغ میں جسٹن ٹروڈو کے دورۂ بھارت کو ناکام قرار دیا گیا۔ سیاسی پنڈتوں کا ماننا ہے کہ اعلیٰ بھارتی قیادت کی جانب سے کینیڈین وزیرِ اعظم کو نظر انداز کرنے کا سبب ،ان کی کابینہ میں شامل وہ چار سِکھ وزرا ہو سکتے ہیں، جن پر بعض بھارتی، سِکّھوں کی علیٰحدگی پسند تحریک، خالصتان کا ہم درد ہونے کا الزام عاید کرتے ہیں۔

بھارتی حکومت کی اپنے مہمان سے سرد مہری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب جسٹن ٹروڈو اپنی اہلیہ اور بچّوں کے ساتھ نئی دہلی پہنچے، تو ان کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ پر ایک جونیئر وفاقی وزیر موجود تھے، جب کہ جنوری میں جب اسرائیلی وزیرِ اعظم، بن یامین نیتن یاہو اور اُن سے پہلے متّحدہ عرب امارات کے ولی عہد اور جاپان کے وزیرِ اعظم، شینزو ایبے بھارت آئے تھے، تو نریندر مودی خود ان کے استقبال کے لیےایئر پورٹ پہنچے تھے اور اسرائیلی و جاپانی وزرائے اعظم کو خود گجرات لے کر گئے تھے۔

اسی طرح جب نیتن یاہو تاج محل کی سیر کے لیے آگرہ گئے، تو اُتر پردیش کے وزیرِ اعلیٰ، یوگی آدتیہ ناتھ ان کے ساتھ موجود رہے، جب کہ جسٹن ٹروڈو بھارت گئے، تو انہیں ضلعی مجسٹریٹ سے کام چلانا پڑا۔ واضح رہے کہ اس سے قبل گزشتہ برس کینیڈا کے وزیرِ دفاع، ہرجیت سجن بھارت آئے تھے، تو مشرقی پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ، کیپٹن امرندر سنگھ نے ان سے ملنے سے انکار کر دیا تھا۔ تاہم، کینیڈا میں بھارت کے سابق ہائی کمشنر، وِشنو پرکاش کا ماننا ہے کہ جسٹن ٹروڈو کے استقبال میں پروٹوکول کو ملحوظِ خاطر رکھا گیا اور بھارتی وزیرِاعظم کے لیے ہر غیر مُلکی رہنما کا خود استقبال کرنا ممکن نہیں۔