صنعتی شعبے میں گرتی ہوئی مقابلاتی سکت

March 12, 2018

حال ہی میں دنیا کے معروف میگزین ’’دی اکانومسٹ‘‘ نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں بنگلہ دیش کی فی کس آمدنی 1538 ڈالر جبکہ پاکستان کی فی کس آمدنی 1470 ڈالر بتائی گئی ہے جبکہ 3 دہائیوں قبل پاکستان کی فی کس آمدنی بنگلہ دیش کے مقابلے میں 80 فیصد زیادہ تھی اور آج بنگلہ دیش کی فی کس آمدنی ہم سے زیادہ ہے۔ بنگلہ دیش کی جی ڈی پی گروتھ 7 فیصد سالانہ سے زیادہ ہے جبکہ ایکسپورٹ 31.2 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے جس میں 80 فیصد گارمنٹس کی ایکسپورٹ ہے اور بنگلہ دیش دنیا میں چین کے بعد دوسرا بڑا گارمنٹ ایکسپورٹر بن گیا ہے جبکہ ہماری جی ڈی پی گروتھ 5.3 فیصد اور ایکسپورٹ 25 ارب ڈالر سے کم ہوکر 23 ارب ڈالر کی سطح پر آگئی ہے جس میں 55 فیصد ٹیکسٹائل مصنوعات کی ایکسپورٹ شامل ہے جو مینوفیکچرنگ سیکٹر میں 38 فیصد ملازمتیں فراہم کرتا ہے اور ملکی جی ڈی پی میں اس کا حصہ 8 سے 9 فیصد ہے۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق 2006ء سے 2014ء کے عرصے میں پاکستان کی ٹیکسٹائل ایکسپورٹ صرف 18 فیصد بڑھی جبکہ اسی عرصے کے دوران چین، بنگلہ دیش اور بھارت کی ٹیکسٹائل ایکسپورٹس میں 175 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اگر ان ممالک کی طرح پاکستان کی ٹیکسٹائل ایکسپورٹ میں بھی اتنا ہی اضافہ ہوتا تو ملک میں بے شمار نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوتے اور ہماری معیشت میں نمایاں بہتری دیکھنے میں آتی لیکن غلط پالیسیوں کے باعث ٹیکسٹائل صنعت آج بحران کا شکار ہے، ملک میں 100 سے زائد ٹیکسٹائل ملز بند ہوچکی ہیں، بینکوں کے ٹیکسٹائل سیکٹر کو دیئے گئے قرضوں کا 25 فیصد ڈیفالٹ ہوچکا ہے، ملک میں کوئی نئی صنعت نہیں لگ رہی جس کی وجہ سے ملک میں بیروزگاری اور معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔ آیئے ان عوامل کا جائزہ لیں جن کی وجہ سے ہمارا ٹیکسٹائل سیکٹر آج بحران کا شکار ہے۔کاٹن جو ٹیکسٹائل مصنوعات کا خام مال ہے، کی فصل کی پیداوار ہر سال کم ہوتی جارہی ہے جو 14 ملین بیلز سے کم ہوکر 11ملین بیلز سالانہ تک آگئی ہے جس کی وجہ سے ہمیں ہر سال کاٹن بھارت اور دیگر ممالک سے امپورٹ کرنا پڑتی ہے جبکہ بھارت نے جدید بیجوں کے استعمال سے گزشتہ 5 سالوں میں اپنی کاٹن کی پیداوار 18 ملین بیلز سے بڑھاکر 36 ملین بیلز سالانہ کرلی ہےاور آج بھارت دنیا میں کاٹن ایکسپورٹ کرنے والا ایک اہم ملک بن چکا ہے۔ کاٹن کی امپورٹ پر کرائے، ڈیوٹی اور ٹیکسز کی وجہ سے ہمیں خام مال مہنگا پڑتا ہے جس کی وجہ سے ہماری پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان ایک ملین کاٹن بیلز سے ایک ارب ڈالر کماتا ہے جبکہ بنگلہ دیش ایک ملین کاٹن بیلز سے 6 ارب ڈالر اور ویت نام 8 ارب ڈالر کماتا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ٹیکسٹائل مصنوعات میں ہماری ویلیو ایڈیشن مقابلاتی حریفوں کے مقابلے میں نہایت کم ہے۔ بنگلہ دیش اور دیگر ممالک کے مقابلے میں ہمارے بجلی اور گیس کے نرخ زیادہ ہیں اور بدقسمتی سے ٹیکسٹائل مصنوعات کی ایکسپورٹ پر 5 فیصد بلاواسطہ ٹیکسز بھی عائد ہیں جبکہ چین اور بنگلہ دیش میں صرف ایک فیصد اور بھارت میں ٹیکسٹائل ایکسپورٹ ٹیکس فری ہے جس کی وجہ سے ہماری ٹیکسٹائل مصنوعات ہمارے مقابلاتی حریفوں بالخصوص بنگلہ دیش اور بھارت کے مقابلے میں8 سے 10 فیصد مہنگی ہوگئی ہیں۔ ایکسپورٹرز کے سیلز ٹیکس ریفنڈز دو سال سے ادا نہیں کئے گئے جس کی وجہ سے ان کی مینوفیکچرنگ سرگرمیاں سکڑ رہی ہیں۔ پاکستان نے چین کے ساتھ جو فری تجارتی معاہدہ کر رکھا ہے، اس میں پہلے مرحلے میں پاکستان سے چین کو ٹیکسٹائل مصنوعات کی ایکسپورٹ پرڈیوٹی عائدہے جبکہ چین سے پاکستان ایکسپورٹ ڈیوٹی فری ہے جس کی وجہ سے چین کی پاکستان ایکسپورٹ 15 ارب ڈالر پہنچ چکی ہے جبکہ پاکستان کی چین کو ایکسپورٹ صرف 2 ارب ڈالر ہے جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ پاکستان اور چین کا فری تجارتی معاہدہ (FTA) چین کے حق میں ہے۔ میں نے اس ایشو کو وزارت تجارت، TDAP اور اپنے متعدد کالموں میں اٹھایا ہے اور اس پر پیشرفت ہوئی ہے۔ مجھے امید ہے کہ پاک چین FTA کے دوسرے مرحلے میں پاکستان سے ٹیکسٹائل مصنوعات کی چین ایکسپورٹ ڈیوٹی فری ہوگی۔ ترکی کے ساتھ ہمارا FTA تعطل کا شکار ہے۔ ترکی نے اپنی مقامی صنعت کو تحفظ دینے کیلئے پاکستان کی ٹیکسٹائل مصنوعات بالخصوص ڈینم فیبرک پر 18 فیصد اضافی تحفظاتی ڈیوٹی عائد کی ہے ، اس طرح پاکستان سے ترکی ڈینم فیبرک ایکسپورٹ پر مجموعی ڈیوٹی 24 فیصد بن جاتی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی ترکی کو ڈینم فیبرک ایکسپورٹ جو ایک ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ گئی تھی، آدھی سے بھی کم رہ گئی ہے۔وزیراعظم کے مشیر کی حیثیت سے پاک ترکی FTA مذاکرات میں حکومت کی نمائندگی کرتا رہا ہوں اور پاکستان کے وزیراعظم اور ترکی کے صدر طیب اردگان کی ذاتی دلچسپی کے باوجود ترکی حکومت پاکستان کی ٹیکسٹائل مصنوعات کو FTA میں ڈیوٹی فری شامل کرنے کو تیار نہیں جس کی وجہ سے پاک ترکی FTA تعطل کا شکار ہے۔
اقتصادی ماہرین کے مطابق قرضوں میں تیزی سے اضافے کو دیکھتے ہوئے توقع کی جارہی ہے کہ رواں سال 2017-18ء میں ہمارے بیرونی قرضے بڑھ کر 75.54 ارب ڈالر (7.9 کھرب روپے) تک پہنچ سکتےہیں۔پاکستان کو نومبر 2017ءسے 2022-23ء تک 31.3 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کرنی ہے اور 2018-19ء تک حکومت کو 6.42 ارب ڈالر کے قرضوں کی ادائیگی کرنی ہے جبکہ 2019-20ء میں قرضوں کی ادائیگی 7 ارب ڈالر ہے جس سے آنے والے سالوں میں زرمبادلہ کے ذخائر اور روپے کی قدر پر دبائو رہے گا۔ بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کی وجہ سے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوکر 18.4 ارب ڈالر تک آگئے ہیں۔ ملکی ایکسپورٹ بڑھانے کیلئے حکومت پاکستان نے 180 ارب روپے کے تین سالہ مراعاتی پیکیج کا اعلان کیا تھا جس میں ایکسپورٹ پر ریبیٹ اور دیگر مراعات شامل ہیں۔ وزیراعظم نے فیڈریشن کے وفد سے بجلی اور گیس کے نرخوں میں کمی کیلئے وعدہ بھی کیا تھا۔ وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ مفتاح اسماعیل نے مشیر بننے کے بعد ایکسپورٹرز کے 160 ارب روپے کے 15 فروری تک ریفنڈز کی ادائیگی کا اعلان کیا تھا۔ ان اقدامات سے ملکی ایکسپورٹس میں اس سال 16 فیصد تقریباً 1.5 ارب ڈالر کا اضافہ دیکھنے میں آیا جو آئندہ سال ڈھائی ارب ڈالر تک بڑھ سکتا ہے لیکن اس کے باوجود ایکسپورٹس کے مقابلے میں امپورٹس میں تیزی سے بڑھتا ہوا تجارتی اور کرنٹ اکائونٹ خسارہ حکومت کیلئے بڑے چیلنج ہیں۔ پاکستان کے انرجی سیکٹر کے گردشی قرضے 850 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں جس میں نومبر 2017ء تک 472 ارب روپے بجلی پیدا کرنے والوں کے مختصر المیعاد قرضے، 90 ارب روپے پی ایس او اور 288 ارب روپے آئی پی پیز کے قرضے شامل ہیں۔ یاد رہے کہ موجودہ حکومت نے 2013ء میںاقتدار سنبھالنے کے بعد 480 ارب روپے گردشی قرضوں کی ادائیگی کی تھی۔ اس کے علاوہ نقصان میں چلنے والے قومی ادارے پی آئی اے، اسٹیل ملز اور واپڈا کی نجکاری نہ کئے جانے کی وجہ سے قومی خزانے پر سالانہ 500 ارب روپے کا بوجھ ہے۔ آئی ایم ایف نے مالی، کرنٹ اکائونٹ، تجارتی خسارے میں اضافے اور بیرونی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کو ملکی معیشت کیلئے خطرہ قرار دیا ہے۔
ناقدین یہ کہتے ہیںکہ پوری دنیا میں مندی اور کساد بازاری کی وجہ سے ایکسپورٹس میں کمی آئی ہے جبکہ اپنے مقابلاتی حریفوں کا جائزہ لینے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ویت نام نے دنیا میں سب سے زیادہ 107 فیصد ایکسپورٹس گروتھ حاصل کی جبکہ بنگلہ دیش نے 24 فیصد، بھارت نے 31 فیصد اور سری لنکا نے 20فیصد ایکسپورٹس گروتھ حاصل کی لیکن بدقسمتی سے پاکستان کی ایکسپورٹس میں کمی آئی ہے۔ ہم یورپی یونین سے جی ایس پی پلس ڈیوٹی فری مراعات حاصل کرنے کے باوجود یورپی یونین کو اپنی ایکسپورٹس خاطر خواہ نہیں بڑھاسکے جو ہمارے پالیسی میکرز اور حکومت کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ کیا واقعتاًپاکستان کی صنعتی و ایکسپورٹ کے شعبوں میںمقابلاتی سکت کم ہورہی ہے اور ہم بالخصوص ٹیکسٹائل شعبے میں غیر مقابلاتی ہوتے جارہے ہیں؟ حکومت نے اس سلسلے میں اگر فوری اقدامات نہ اٹھائے تو پاکستان صنعتی اور زرعی شعبوں میں خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں پیچھے رہ جائیگا۔