نہیں، دیکھا نہیں جاتا …

March 18, 2018

نہیں، دیکھا نہیں جاتا

یہ سب دیکھا نہیں جاتا

کہ اب دیکھا نہیں جاتا

یہ کُشت و خون کا عالم

یہ جبر و ظلم کا موسم

بہت سفّاکیاں پیہم

بڑی بربادیاں ہر دَم

قیامت سے نہیں ہے کم

کسی کے درد کا عالم

یہ سارا غم ہے، اپنا غم

کہ پھیلی آنکھ میں شبنم

کہ اب دیکھا نہیں جاتا

یہ سب دیکھا نہیں جاتا

بلادِ شام میں بچّے

شرارت سے نہیں ہنستے

کسی دیوار کے نیچے

کہیں اینٹوں تلے دب کے

گلابوں سے حسیں بچّے

بنے ہیں سخت جاں لاشے

پڑے ہیں ہر طرف ملبے

کوئی ڈھونڈے، تو کیا ڈھونڈ ے

کہ اب دیکھا نہیں جاتا

یہ سب دیکھا نہیں جاتا

حلب، غوطہ کی ویرانی

بنی دنیا ہے بےگانی

لہو کی اتنی ارزانی

بہے ایسے کہ ہو پانی

وہ جو کرتے ہیں سلطانی

نہیں ان کو پشیمانی

مِرے دِل کی پریشانی

بنائے مجھ کو دیوانی

کہ اب دیکھا نہیں جاتا

یہ سب دیکھا نہیں جاتا

شگوفے جل گئے سارے

چمن اب خواب ہے پیارے

کسی کی آنکھ کے تارے

بنے ہیں آج بے چارے

کہ ہر سُو آتشیں پارے

جو برساتے ہیں انگارے

فلک کے سارے سیّارے

کیا کرتے ہیں نظّارے

یہ سب دیکھا نہیں جاتا

کہ اب دیکھا نہیں جاتا

کوئی نوحہ، کوئی ماتم

کوئی پنبہ، کوئی مرہم

کوئی نغمہ، کوئی پرچم

کسی لہجے کا زیرو بم

کبھی اُمّت بھی ہو باہم

عدو کے واسطے برہم

کہ یہ سفّاکیاں ہوں کم

کسی کا درد ہو مدھم

کہ اب دیکھا نہیں جاتا

یہ سب دیکھا نہیں جاتا

نہیں، دیکھا نہیں جاتا

(ڈاکٹر عزیزہ انجم)