سینیٹ کے انتخابات اور سیاسی پسماندگی

March 14, 2018

ہمارے ایک دوست ساری زندگی اپنے کام کے سلسلے میں دنیا بھر کے ملکوں کا سفر کرتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر ملک کی ترقی کا اندازہ اس کے ائیر پورٹ کے نظام سے لگایا جا سکتا ہے۔ اس مقولے کو مد نظر رکھتے ہوئے جب چند ہفتے قبل ہم نے لاہور ائیر پورٹ دیکھا تو پتہ چلا کہ ائیر پورٹ کانظام پہلے سے بھی زیادہ خراب ہو چکا ہے۔ سیکورٹی پر کھڑے باوردی اہلکار وں کے رویے سے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے ان کو سیدھا کسی دور دراز گاؤں سے لا کر بغیر کسی تربیت کے بٹھا دیا گیا ہے۔ یہی حال بزنس لاؤنج کا تھا جس میں مسافروں کا کوئی پرسانِ حال نہیں تھا۔ بلکہ درجنوں کی تعداد میں ملازم ادھر سے ادھر گھومتے ہوئے کھانے پینے کی چیزوں کو اٹھا اٹھا کر خود ہی کھاتے جاتے تھے۔ اگر چھ گنا زیادہ کرایہ ادا کرنے والے مسافروں کے ساتھ اس طرح کا سلوک کیا جا رہا ہو تو اکانومی کلاس والوں کے ساتھ کیا ہوتا ہوگا۔ غرضیکہ ائیر پورٹ کا چوپٹ نظام کسی انتہائی پس ماندہ ملک کا نقشہ پیش کر رہا تھا۔
لاہور میں چند دن کی گہما گہمی ، کاروں اور دوسری چیزوں کو دیکھتے ہوئے یہ صاف نظر آرہا تھا کہ یہ ائیر پورٹ ملک کی ترقی کا مناسب اشاریہ نہیں ہے۔ اس سے صرف یہ پتہ چلتا ہے کہ معاشرہ تو بہت تیزی سے ترقی کر رہا ہے لیکن جس جگہ بھی انتظامات حکومت اور ریاست کے ہاتھوں میں ہیں وہاں پسماندگی ڈیرے ڈالے ہوئے ہے۔ پاکستان کی سیاست بھی اسی کا پرتو ہے : یعنی معاشرہ تو کافی ترقی کر چکا ہے لیکن ریاست کے کچھ عناصرنظام کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نظریاتی میدان میں انتہائی پس ماندہ سوچ کے متعصب دھڑوں کو اوپر لایا جا رہا ہے اور روشن خیال حلقوں کی نمائندہ آوازوں کو سختی سے دبایا جا رہا ہے۔ ملک میں جاری سیاسی یدھ میں بھی یہی کچھ دکھائی دے رہاہے۔
پاکستان کی موجودہ سیاست میں میاں نواز شریف کی مسلم لیگ (ن) جمہوری اقدار کی پاسبانی کا دعویٰ کرتی ہے اور اس کا بنیادی تضاد اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہے۔ بادشاہ گروں کو شاید یقین کامل تھا کہ اگر میاں نواز شریف کو بدعنوانی کے الزام میں نا اہل قرار دے دیا جائے تو وہ عوام میں بدنام ہو جائیں گے اور ان کی پارٹی سیاست کے میدان سے خود بخود ہی باہر ہو جائے گی۔ لیکن ایسا ہوا نہیںاور میاں نواز شریف کی مقبولیت میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا۔ یہ مقبولیت پنجاب کی حد تک تو عیاں ہے، دوسرے صوبوں میں اس کا ابھی امتحان نہیں ہوا۔ نہ صرف عوامی سطح پر مسلم لیگ (ن) کی جڑیں گہری ہوئی ہیں بلکہ پچھلے کئی ضمنی انتخابات میں اس کی جیت بھی بھاری بھر کم ووٹوں سے ہوئی ہے۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے قومی اور صوبائی اسمبلی کے ممبران کی وفاداری میں بھی کوئی فرق نہیں آیا۔ سینیٹ کے حالیہ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے نمائندوں نے انتہائی ڈسپلن کا مظاہرہ کیا اور دوسری پارٹیوں کے برعکس خرید و فروخت کے نظام کا حصہ نہیں بنے۔
اس پورے سیاسی منظر نامے میں مایوس بادشاہ گروں نے بلوچستان کارڈ کھیلا اور راتوں رات مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا خاتمہ کردیا گیا۔ مسلم لیگ (ن) کے بلوچستان کے ممبران صوبائی اسمبلی کو اس سے منحرف کروادیا گیا اور صرف 544 ووٹ لے کر جیتنے والے عبدالقدوس بزنجو کو وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا۔ اس سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کا مقصد مسلم لیگ (ن) کو سینیٹ کا کنٹرول حاصل کرنے سے روکنا تھا۔ جب پھر بھی مسلم لیگ (ن)عددی اعتبار سے سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھر کر سامنے آگئی تو ایک مرتبہ پھر بلوچستان کارڈ کھیلنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اب کی مرتبہ یہ کہا گیا کہ بلوچستان کی محرومی کو دور کرنے کے لئے سینیٹ کا سربراہ اس صوبے سے لایا جانا چاہئے۔ یہ بھی کہا گیا کہ ڈپٹی چیئر مین فاٹا سے لایا جائے۔ غرضیکہ سینیٹ کی سربراہی ایسے ممبران کے ہاتھوں میں دے دی جائے جن کو بوقت ضرورت توڑا مروڑا جا سکتا ہو۔ اس کا یہ بھی مقصد ہے کہ پسماندہ قبائلی نظام کے نمائندوں کو ایک جدید ریاست کے کلیدی ادارے کی باگ ڈور تھمادی جائے تاکہ پس پردہ سینیٹ کی ڈوریں باہر سے ہلائی جا سکیں۔ ہمارا مقصد قبائلی عوام کی دل آزاری نہیں ہے لیکن یہ امر اپنی جگہ حقیقت ہے کہ عام طور پر رہنمائی ترقی یافتہ جمہوریت نواز علاقوں سے ہی آتی ہے لیکن ریاست کےکچھ عناصر فکری اعتبار سے پس ماندہ دھڑوں کو اوپر لا کر نظام حکومت چلانا چاہتے ہیں جو کہ تاریخی اعتبار سے ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
بلوچستان کی محرومی کی دلیل بھی انتہائی بودی ہے کیونکہ ماضی میں اس صوبے سے وزیر اعظم بھی بنا ہے لیکن اس سے بلوچستان کے پسے ہوئے عوام کی حالت نہیں بدلی۔ سینیٹ کے سابق قابل قدر چیئرمین جناب رضا ربانی کا تعلق کراچی سندھ سے تھا اور باوجود ربانی صاحب کی ذاتی خوبیوں کے سندھ یا کراچی کے عوام کی حالت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اس لئے ’محرومی‘ کو جواز بنا کر غیر جمہوری رجحان رکھنے والوں کو سینیٹ کی رہنمائی سونپنا کسی طرح سے درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس کے برعکس جمہوری نظام کو جدید خطوط پر چلانے کے لئے رہنمائی انہی طاقتوں کے پاس ہونی چاہئے جو عوام کی نمائندگی کرتی ہوں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ملکی نظام آگے بڑھنے کی بجائے اور پیچھے چلا جائے گا۔
پچھلے چالیس سالوں میں پاکستان کا بنیادی مسئلہ یہی رہا ہے کہ ریاست کے طاقتور حلقےپسماندہ نظریاتی فکر کو بیانیہ بنا کر حکومت کا کاروبار چلانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اسی حکمت عملی کے نتیجے میں ملک میں فرقہ وارانہ ماحول پیدا ہوا ، جہادی کلچر پروان چڑھا اور ہر طرف دہشت گردی پھیل گئی۔ اب بھی سیاسی سطح پر یہی کچھ کیا جا رہا ہے اس کے نتائج مثبت نہیں ہوں گے۔ جب تک یہ کالم قارئین تک پہنچے گا سینیٹ کے انتخابات کے نتائج سامنے آچکے ہوں گے لیکن جو بھی ہوگا اس سے ملک کے مستقبل کی سمت کا تعین کیا جا سکے گا۔
کالم پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998