ظفر اکبر آبادی کی غزل

March 14, 2018

دھڑکنوں میں وہ چھپا ہو جیسے

ہر صدا اُس کی صدا ہوجیسے

ایک مانوس مہک یوں ہے مُحیط

تیری خوشبوئے قبا ہو جیسے

اب تو لُو بھی سُکون بخشتی ہے

تیرے دامن کی ہوا ہو جیسے

اَب تو غم بھی ہے کچھ اِس طرح عزیز

حاصلِ اَرض و سما ہو جیسے

بے وفائی پہ ہیں مائل یوں لوگ

بے وفائی بھی وفا ہو جیسے

دل ہُوا اِس طرح کرچی کرچی

آئینہ ٹوٹ گیا ہو جیسے

یہی محسوس ظفر ہوتا ہے

وہ مجھے بھول گیا ہو جیسے