تجدید عہد وفا کا دن ، قرارداد پاکستان کے اغراض و مقاصد کی تکمیل

March 17, 2018

کرن خالد

جس طرح افراد کی زندگی میں کچھ تاریخوں اوردنوں کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے، اسی طرح اقوام کی تاریخ میں بھی کچھ دن انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ 23 مارچ 1940ءکی قرارداد لاہور اس لحاظ سے تاریخی اہمیت کی حامل ہے کہ تحریک پاکستان کے دوران بر صغیر کے مسلمانوں نے پہلی بار اس قرارداد کے ذریعے ایک علیحدہ وطن حاصل کرنے کا مطالبہ کیا اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ایک ہی وطن میں ہندؤوںکی بالادستی میں رہنا مسلمانوں کے مفاد میں نہیں ہے۔

1940ءکی قرارداد چوں کہ پہلی قرارداد تھی جس میں مسلمانوں کی منزل کی نشاندہی کی گئی تھی اور جسے تاریخی شہر لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے جنرل باڈی کونسل کے اجلاس میں قائداعظم کی صدارت میں پُرجوش انداز میں منظور کیا گیا تھا لہٰذا ہر سال اس تاریخی قرارداد کی یاد منائی جاتی ہے۔۔یہ دن ہماری تاریخ کا وہ سنہری باب ہے، جسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

مگرلمحۂ فکریہ اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ، صرف تقریبات منعقد کرنے، چھٹی منانےسے وطن سے محبت کا حق ادا ہوجاتا ہے؟ ہمارے آباؤاجداد نے ، علیحدہ وطن حاصل کرنے کے لیے ،جو قربانیاں دیں، ہمیں انگریزوں اور ہندوؤں کی غلامی سے بچانے کے لیے اپنا خون بہایا،کیا نسل نواس کا حق ادا کر رہی ہے؟یہ دن صرف جشن منانے کا نہیں بلکہ تجدید عہد وفا کا بھی ہے۔

یوم پاکستان ، نوجوانوںسےتقاضا کرتاہے کہ، وہ اپنا احتساب کریں کہ اس ملک کو ترقی کی راہ پر،خوش حالی کی طرف گامزن کرنے اور بہتر مملکت بنانے کے لیے کیا کام سر انجام دئیے، کہیں وہ اپنی ذمے داریوں سے غافل تو نہیں ؟ ہمارے بزرگوں نے ان گنت قربانیاں پیش کر کے یہ پیارا وطن ہمارے حوالے کیا تھا، وہ اپنی جائیدادیں، زمینیںسب کچھ چھوڑ نے کے لیے تیار ہوگئے ، اس وقت کی تمام باطل قوتوں کو شکست دی اور ہر اس الجھن، مشکل اور راستے کی دیوار کو گرا کر پاکستان حاصل کیا تاکہ ہم اس مقصد اور مشن کی تکمیل کر سکیں جس کی خاطر اتنی جدوجہد کی گئی، تاکہ ان کی نسلیں غلامی کی زنجیروں میں نہ جکڑی رہیں۔

قرارداد پاکستان کے اغراض و مقاصد کی تکمیل، قائد اعظم اور دیگر قومی رہنماؤں کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لیےہمیں پھر سے ایک قوم بننا ہوگا۔ نسل نو کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس ملک کو حاصل کرنے کے لیے ان گنت قربانیاں دی گئی تھیں، قرارداد پاکستان کی منظوری ، تحریک پاکستان سے قیام پاکستان تک کئی پریشانیوں کا سامنا کرنے کے بعد علیحدہ وطن کا حصول ممکن ہو پایا ہے۔لیکن ہوا کیا، نوجوان نسل نے کیا کیا؟

جس مثالی مملکت کا خواب ہمارے بزرگوں نے دیکھا تھا ، ہم اسے پورا کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ہمارے آباؤاجداد کوامید ہی نہیں، یقین تھا کہ نسل نو اس ملک کی آب یاری کرے گی ، اسے کام یابیوں کے افق پر پہنچائے گی،اپنے ملک و قوم کے بارے میں سوچے گی ، مگر صورت حال اس کے بر عکس ہے۔

ہماری حالت یہ ہے کہ ہم حکومت کو برا کہنے، مہنگائی، بے روزگاری کا رونا رونے میں ہی اپنا قیمتی وقت اور صلاحیتیں برباد کررہے ہیں، اصل میںہمارے نوجوانوں کا سب سے بڑا مسئلہ سہل پسندی اور کاہلی ہے، وہ آرام پسند ہوچکےہیں دوسروں کو برا بھلا کہنا ، بجلی،پانی،گیس کی شکایات کرنا، نظام کو برا بھلا کہنا،بس یہی ان کا کام رہ گیا ہے۔ اگر خود تھوڑی محنت کریں اپنی صلاحیتوں کو اُبھاریں کم از کم اپنے حصے کا کام ایمان دااری سے کریں،تو ہم بھی ترقی یافتہ اقوام کی صف میں شامل ہو سکتے ہیں۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ ہمارے نظام میں کوئی برائی نہیں ہے، اس بات میں کوئی دو رائے ہو ہی نہیں سکتی کہ ، ہماری نسل نو کو دیگر ترقی یافتہ ممالک کے نوجوانوں کی طرح سہولتیں میسر نہیں ہیں، لیکن کیا ہر وقت نظام کی خرابی کا رونا، رونے سے مشکلات حل ہو جائیں گی؟ نہیں! بلکہ نسل نو اپنی محنت، لگن اور جذبے سے اس ملک کو بہتر بنا سکتے ہیں۔اس ملک کو سب سے زیادہ نقصان تعصب ، بد عنوانی اور جھوٹ نے پہنچایا ہے۔

قیام پاکستان کے وقت ہمارے آباؤاجداد بلا تعصب قائد اعظم کی قیادت میں متحد ہو کر آگے بڑھے تھے، علیحدہ وطن حاصل کرنے کی جدو جہد کی تھی، تاکہ ان کی آنے والی نسلیں، آزاد فضا میں سانس لے سکیں، وہ کبھی نہیں چاہتے تھے کہ ہم زبان کی بنیاد پرتقسیم ہو جائیں۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم تما م تر مفادات کو پس پشت ڈال کر پھر سے متحد ہو جائیں۔آج ایک بار پھر ہمیں اپنے اندر 23 مارچ 1940 ء کا جذبہ بیدار کرنے کی ضرورت ہے اور تجدید عہد وفا کرتے ہوئے قرار داد پاکستان کے اغراض و مقاصد کی تکمیل ،قائد اعظم اور دیگر قومی رہنمائوں کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لیے نوجوانوں کوقدم بڑھانا ہوگا۔

دنیا کو دکھانا ہوگا کہ ہم وہی قوم ہیں جس نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر پاکستان کے قیام کے خواب کو پورا کیا تھا، ہم وہی قوم ہیں جس نے اپنے قائد کی رہنمائی میں دو قومی نظریے کو سچ ثابت کرکے دکھایا تھا، ہمیں قرار داد پاکستان کی روشنی میں ملک کو ترقی یافتہ بنانے کے لیے انفرادی و اجتماعی طور پر علامہ اقبال کا شاہین بننا ہوگا۔