سوچی پر آسٹریلیا میں مقدمہ

March 21, 2018

چھٹی قبل مسیح میں گوتم بودھ نے اپنے پیر و کاروں کو زندہ رہنے اور اپنے اطراف کے ہم نفسوں کے ساتھ ز ند گی گزارنے کے لیے اخلاق، خیرات، دانائی، تیاگ، کوشش، صبر،سچائی ،عزم مصمم ،آفاقی محبت اور سکون قلب جیسے سنہری اصول دیے تھے۔ان تعلیما ت میں کہیں جبر، قتل، غارت گری، اور دوسروں کو غلام بنانے کا شائبہ تک نہیں ہے، مگرچند برسوں میں گوتم بودھ کے پیرو کاروں نے میانمار میں مسلمانوں کے ساتھ جو ہول ناک کھیل کھیلا ہے اس پر دنیا حیران اور انسانیت لرزاں ہے۔

مسلمانوں پر میانمار میں ہونے والے مظالم پر وہاں کی رہنما آنگ ساںسوچی کے خلاف آسٹریلیا کے شہرمیلبرن میں انسانی حقوق کے علم بردار و کلا کی تنظیم نے مقدمہ دائر کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ سوچی ان دنوں مشرق بعیدکے ممالک کی تنظیم آسیان اور آسٹریلیا کی مشتر کہ کانفرنس میں آسٹریلیا کی دعوت پر شرکت کر رہی ہیں ۔

مذکورہ مقدمہ دائر کرنے والا وکلا اور انسانی حقوق کی تنظیم کے رہنمائوں نے درخواست میں کہا ہے کہ سوچی پرمیانمار میں مسلمان آبادیوں کو بہ زور قوت بے دخل کرنے،ہجرت پر مجبور کرنے، ان کی املاک کو آگ لگا نے،نہتے عوام کا قتل عام کرنے سمیت، دیگر جر ا ئم کے ا ر تکاب پرخاموش تماشائی بنے رہنے اوراپنا عو ا می ، سیا سی اور انسانی کردار ادانہ کرنے کے جرم میں مقدمہ چلایا جائے۔ ان وکلا نے عدالت کو بتایا کہ میانمار میں ہو نے والے خونچکاں واقعات کے ایک،دو نہیں بلکہ ہزاروں چشم دید گواہ موجود ہیں۔

آسٹریلیا کی حقوق انسانی کی تنظیم نے مذکورہ کانفرنس ہال کے باہر سوچی تم قاتل ہو، کے نعروں کے ساتھ مظاہرہ بھی کیا۔ عدالت نے آسٹریلیا کے اٹارنی جنرل سے اس مقدمے پر رائےدینےکی در خو ا ست کی ہے۔

آنگ ساں سوچی میانمار کی بڑی سیاسی جماعت کی سربراہ،ملک کی ڈی فیکٹو صدر اورباقاعدہ وزیر خارجہ بھی ہیں۔ اس لیے وکلا نے مقدمے کی درخواست میںیہ بھی لکھا ہے کہ سوچی کا پہلا جرم یہ ہے کہ انہوں نے یہ قتل عام رکوانے کے لیے اپنی سیاسی اور انتظامی حیثیت کا استعمال نہیں کیا۔

ان کا دوسرا جرم یہ ہے کہ انہوں نے سکیورٹی فورسز کو قتل عام کرنے، املاک کو آگ لگانے ،خواتین سے زیادتی کرنے اور مسلمانوں کو ملک بدر کرنے کی کھلی چھو ٹ دے دی جس پر پوری دنیا میں احتجاج کیا گیا، مگر جمہوریت امن اور انصاف کی دعوے دار، نوبل انعام یافتہ سوچی خاموش رہیں۔یادرہے کہ انہیں 1991میں امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا، اس لیے بھی سوچی کے بارے میں ایک اچھا تصور قائم تھا اور ان کی شخصیت اور سیاست سے عوام خیر کی امیدیں رکھتے تھے۔

مگر میا نما رکے ہول ناک واقعات کے بعد سوچی کا انسانی رہنما کا تصور دھندلاگیا ہے۔ ان انسانیت سوز واقعات پر، جو ان کے دور اقتدار میں رونما ہوئے، ان کی پر اسرار خاموشی، اورحقائق کو نظر انداز کرنے کی پالیسی کی وجہ سے ان کی انسان دوستی کا بھرم کھل چکا ہے۔

سوچی نے میلبرن میں مختصر سی پریس کانفرنس میں بیان دیتے ہوئے روہنگیا کا نام نہیں لیا،بلکہ رخائن کے شہر کا نام استعمال کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ واقعات کی بڑی وجہ میانمارکی سکیورٹی فورسز کی چوکیوں پر مسلح حملے اور دہشت گردی کے واقعات تھے جنہیں روکنے کی کوشش کی گئی۔

اس مختصر ترین بیان کے بعد انہوں نے کسی سوال کا جواب نہیں دیا اور چلی گئیں۔دوسری جانب آسٹریلیا کی خواتین کی تنظیم نے بھی عدالت سے اپیل کی ہے کہ عد ا لت میں پیش کردہ درخواست پر ضرور غور کیا جائے کیوں کہ یہ انسانیت سوزجرائم ،قتل عام ،نہتے افراد پر ماورائے قانون طاقت کا استعمال کرنے کے زمرے میں آتے ہیں جنہیںکسی طورپر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

یادرہے کہ اس نوعیت کا ایک مقدمہ لندن کی عدالت میں چلی کے سا بق آمر آگستو پنوشے کے خلاف بھی دائر کیا گیا تھاجس پر عدالت نے انہیں لندن میں ان کی رہائش گاہ میں نظر بند رکھنے کا حکم صادر کیا تھا۔مگر مبصرین کا خیال ہے کہ سوچی کے پاس بلا اختیار صدر کا عہدہ ہے، وہ وزیر خارجہ بھی ہیںاور آسٹریلیا کی حکومت کی دعوت پر کانفرنس میں شر کت کرنے آئی ہیں اس لیے عدالت انہیں استثنی دے دےگی۔

اقوام متحدہ کے مبصرنے بھی ایک بیان میں کہا ہےکہ میانمارکی حکومت کے غیر انسانی رویوں اور مسلمانوں کے خلاف سفاکانہ کارروائیوں،علاوہ ازیں میانمارمیں مذہبی تعصب اور لسانی تفریق برتنے کے خلاف اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی تنظیم کارروائی کر رہی ہے۔ادہر آ سٹر یلیاکے ا ٹا رنی جنرل نے کہاہے کہ آنگ سان سوچی پر جو بھی الزامات ہیں ان پر آسٹریلیا میں مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا کیوں کہ انہیں سفارتی استثنی حاصل ہے۔

امریکا کے سابق سفارت کار بل رچرڈ سن نے اپنے حالیہ مضمون میں لکھا ہے کہ وہ آنگ ساں سوچی کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے وہ کسی بلبلے میں محصور ہیں۔ مجھے ان کا زہن بھی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری لگتا ہے۔ جیسے وہ کسی محاصرے میں زندہ ہوں۔ رچرڈ سن نے مزید لکھاہے کہ کچھ بھی سہی، مگر وہ میانمار کا مستقبل ہیں۔

وہی اپنے ملک میں تبدیلی لا سکتی ہیں۔ مغربی رہنمائوں کو ان کی مدد کرنا چاہیے تاکہ وہ قید تنہائی سے نکل سکیں اوراپنا حقیقی کردار ادا کر سکیں۔رچرڈ سن نے گزشتہ برس ستمبر کے مہینے میں رخائن صوبے کا دورہ کیا اور وہاں کے حالات دیکھے تو وہ دنگ رہ گئے تھے۔ انہوں نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ جب وہ میانمارمیں اپنی سفارتی ذمےداری نبھا رہے تھے تو امریکا کے سابق وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن نے ان سے فون پر بات چیت کرتے ہوئے کہا تھاکہ وہاں تم اپنے کام سے کام رکھنا اور وہاں کے حالات پر وائٹ ہائوس کی انتظامیہ کے سامنے تبصرہ کرنے سے گریز کرنا۔

رچرڈ سن کے مطابق گزشتہ اکتوبر میں رائٹر کے دو نمائندوں کو میانمار کے خفیہ اداروں نے گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا تھاجس پر انہوں نے احتجاج کیا اور اس کی شکایت آنگ ساں سوچی سے کی تھی جس پر وہ ان پر پھٹ پڑی تھیں۔ اس صورت حال سے واضح ہوتا ہے کہ میا نما رمیں اصل طاقت اورہر چیز کی کمان ملک کی مسلح افواج کے پاس ہے اورسوچی بے دست وپاہیں جس کی وجہ سے وہ اندرونی اور ذہنی خلفشار کا شکار ہیں۔

میانماریا برما کی جدید تاریخ پر نظر ڈالیں تو دوسری عالمی جنگ کے بعد سے وہاں آمریت کا راج رہا۔ فوجی حکم رانوں نے ملک کی بہترین زمینیں اپنے نام الاٹ کرا لیں، معدنیات کے ٹھیکےبڑے بڑے کمیشن پر غیر ملکیوں کو دے دیےگئے اوراس میں اپنی حصے داری بھی ر کھی۔

بودھ مت کے ماننے والے تقریباً تمام سیاست دانوں اور دیگر بیش ترجمہوریت پسندوں نےآمروں کے خلاف جدوجہد کی۔ان میں سوچی کے والدین بھی شامل تھے جو بڑے خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور جدید تعلیمی یافتہ تھے۔ انہوں نے سوچی کی تربیت کی، مگر سوچی لندن سے واپس آ کر طویل عرصے تک نظر بند رہیں۔ ان کی زندگی بھی جدوجہد میں بسر ہوئی ۔پھر وہاں تبدیلی آئی ۔مگر موجودہ حالات میں بودھ مت کے ماننے والے بھی ہتھیا ر بند ہو کر دوسروں پر مظالم کرنے لگے تو سوچی کے تمام تصورات ٹوٹنے لگے۔

میانمار کے روہنگیامسلمانوں کی بنگلا دیش میں پناہ لیے ہوئے افراد کی تعداد سات لاکھ سے تجاوز کر رہی ہے۔وہ مسلسل میانمار پر دبائو ڈال رہا ہے کہ وہ ان افراد کو واپس آنے کی اجازت دے۔ ایسے میں طویل مذاکرات کے بعدمیانمار کی حکومت نے آٹھ ہزار رو ہنگیا مسلمانوں کو واپس لوٹنے کا عندیہ دیا ہے ۔

میا نما ر کی حکومت کا موقف ہے کہ کئی برسوں میں ہزاروں بنگالی باشندے غیرقانونی طور پر رخائن میں آباد ہو گئے ہیںاور اس سے ملحق علاقے کا نام مرکب کر کے روہنگیا رکھ لیاہے۔میانمار کی حکومت نے انہیں کبھی اپنا شہری تسلیم نہیں کیا، اس لیے انہیں واپس نہیں لیا جا سکتا۔دوسری جانب میانمار کی فوجی حکومت نے رخائن یا روہنگیا کے علاقے میں ٹوٹے مکانات، جلی ہوئی جھونپڑیوں اور دیگر تعمیرات کو بلڈوز کر کے زمین ہم وار کر دی ہے اور وہاں فوجی چھائونی،چوکیاں اور دیگر تنصیبات کی تعمیر کا کام شر و ع ہونے جا رہا ہے۔ان حالات میں روہنگیاکے مسلما نو ں کے لیے ایک طرف آگ ہے اور دوسری طرف پانی ہے۔ وہ جائیں تو کہاں جائیں۔ یہ سوالیہ نشان ہر بچے اور بڑے کے ماتھے پر لکھا دکھائی دیتا ہے۔

ان ہول ناک واقعات کی میانمارکی حکومت کی طر ف سے خواہ جتنی بھی تردید کی جائے،لیکن دنیا ان تمام وا قعات اور ان کی ہول ناکیوں سے واقف ہے۔ مگر بنگلا دیش کی حکومت کو بڑے مسائل اور خدشات کا سامنا ہے ۔ روہنگیا کے مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد بالو کھالی کیمپ میں جمع ہے اورمزید افراد کی آمدکا سلسلہ تاحال جاری ہے۔یہ لوگ کا کسس بازار کیمپ میں جمع ہو رہے ہیں۔

بنگلا دیش کی حکومت کو اس بات پر بہت تشویش ہے کہ اب موسم تبدیل ہو رہا ہے۔مون سون کی بارشوں اور سمندری طوفانوں میں ان بے گھر افراد کا کیا ہو گا۔حکومت ان خطرات کو محسوس کر رہی ہےجو کسی بڑے انسانی المیے میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔