فیس بک کیخلاف صارفین کا ڈیٹا لیک کرنے پر امریکا میں تحقیقات

March 22, 2018

کراچی (نیوز ڈیسک) تقریباً 5؍ کروڑ سے زائد صارفین کا ڈیٹا لیک کرنے کی خبریں سامنے آنے کے بعد سماجی رابطوں کی مقبول ویب سائٹ فیس بک کیخلاف امریکا میں بڑی تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے اور صارفین کے حقوق کا تحفظ کرنے والے ادارے فیڈرل ٹریڈ کمیشن (ایف ٹی سی) نے فیس بک کیخلاف ڈیٹا لیک کرنے کی اطلاعات سامنے آنے کے بعد فوراً کارروائی شروع کر دی۔ تحقیقات کے آغاز کے ساتھ ہی اسٹاک مارکیٹ پر فیس بک کے شیئرز کو 60؍ ارب ڈالرز (66؍ کھرب 37؍ ارب روپے سے زائد) کے زبردست نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ برطانوی اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2016ء میں اپنی انتخابی مہم کے دوران ایک سیاسی کنسلٹنسی کمپنی کیمبرج اینالیٹکا (سی اے) کی خدمات حاصل کی تھیں اور اسی کمپنی نے فیس بک کے صارفین کا ڈیٹا استعمال کیا تھا جس کی وجہ سے صدر ٹرمپ جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ امریکی فیڈرل ٹریڈ کمیشن اس بات کی تحقیقات کر رہا ہے کہ آیا فیس بک نے 2011ء کے معاہدے کی خلاف ورزی تو نہیں کی۔ کمپنی پر یہ الزامات عائد کیے گئے ہیں کہ اس نے سی اے کو صارفین کا ڈیٹا ان کی مرضی کیخلاف فراہم کیا۔ 2011ء کے معاہدے کے تحت، فیس بک نے اپنی پرائیوسی سیٹنگز میں تبدیلی کو صارفین سے رضامندی سے مشروط کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ یہ معاہدہ بھی اسی لیے کیا گیا تھا کیونکہ فیس بک پر اُس وقت بھی یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ اس نے صارفین کو ان کی مرضی کیخلاف اپنی زیادہ نجی معلومات شیئر کرنے پر مجبور کیا تھا۔ ایف ٹی سی کی جانب سے اُس وقت جاری کردہ بیان میں کہا تھا کہ یہ شکایت اس وقت سامنے آئی تھی جب کمپنی نے اپنے صارفین کو مطلع کیے بغیر اپنی پرائیوسی سیٹنگز میں تبدیلیاں کی تھیں۔ بدھ کو ایف ٹی سی اور فیس بک کے ترجمان سے رابطے کی کوشش کی گئی تاہم دونوں دستیاب نہ تھے۔ ایف ٹی سی کی رائے ہے کہ فیس بک نے شرائط و ضوابط کی خلاف ورزی کی ہے۔ امریکی سرکاری تحقیقاتی ادارے کو یہ اختیار ہے کہ وہ فیس بک پر ہر خلاف ورزی پر ہزاروں ڈالرز کا الگ الگ جرمانہ عائد کرے۔ اس صورتحال کے بعد اسٹاک مارکیٹ میں فیس بک کے شیئرز کی قیمتوں میں 6.2؍ فیصد کمی دیکھنے کو ملی۔ فیس بک پر ایسے الزامات کے بعد دنیا کے مختلف حصوں سے ماہرین، مبصرین اور سماجی کارکنوں و سیاسی شخصیات نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ امریکی سینیٹ کی کامرس کمیٹی نے اعلان کیا ہے کہ وہ فیس بک کے صارفین کے ڈیٹا کے اجراء کے حوالے سے بریفنگ حاصل کرنا چاہے گی۔ برطانوی پارلیمانی کمیٹی کا کہنا ہے کہ فیس بک کے سربراہ مارک زکربرگ سے کہا جائے گا کہ وہ پینل کے روبرو پیش ہو کر جواب دیں۔ امریکا میں ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ارکان کانگریس، جو عموماً نجی کاروبار کے حوالے سے قانون سازی کی مخالفت کرتے ہیں، نے فیس بک کی مخالفت شروع کر دی ہے۔ ایریزونا کے سینیٹر جیف فلیک کا کہنا ہے کہ نجی معلومات افشا کرنا ایک سنگین معاملہ ہے، فلوریڈا کے سینیٹر مارکو روبیو کا کہنا ہے کہ وہ اس طرح کے انکشافات کے بعد پریشان ہیں۔ دوسری جانب معروف میسجنگ ایپ ’’واٹس ایپ‘‘ کے شریک خالق برائن ایکٹون نے تمام صارفین سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنی اپنی پروفائل ڈیلیٹ کر دیں۔ اس ضمن میں انہوں نے ٹوئٹر پر ’’ڈیلیٹ فیس بک‘‘ کے نام سے ایک ہیش ٹیگ بھی شروع کر رکھا ہے۔ یاد رہے کہ فیس بک نے 2014ء میں 19؍ ارب ڈالرز کے عوض ’’واٹس ایپ‘‘ خریدی تھی۔ برطانوی اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ طے شدہ معاہدے کے تحت جن صارفین کا ڈیٹا شیئر کیا گیا تھا ان کی تفصیلات ڈیلیٹ نہ کرنے پر فیس بک نے کیمبرج اینالیٹکا (سی اے) کی پروفائل گزشتہ ہفتے اپنی سائٹ سے ہٹا دی تھی۔ ایک اور رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ڈیلیٹ فیس بک کا ہیش ٹیگ سامنے آنے کے بعد سے اب تک فیس بک کے شیئرز میں 10؍ فیصد کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ یہ اطلاعات بھی سامنے آئی تھیں کہ سی اے کے چیف ایگزیکٹو افسر ایلگزینڈر نکس نے متنازع دعوے کیے تھے کہ سی اے کی وجہ سے ہی ڈونلڈ ٹرمپ صدر منتخب ہوئے تھے۔ ایسے بیانات کے بعد گزشتہ ہفتے سی اے کے بورڈ نے انہیں معطل کر دیا ہے۔ بورڈ کی جانب سے جاری کر دہ بیان میں کہا گیا ہے کہ مسٹر نکس کو فوری طور پر معطل کیا گیا ہے اور ان کیخلاف آزاد اور جامع تحقیقات ہوں گی۔ مسٹر نکس کی جانب سے ٹرمپ کے حوالے سے کیے جانے والے دعووں کی خفیہ ویڈیو چینل نمبر فور پر نشر کی گئی تھی۔