جیت کس کی؟ ایوانِ بالا کا وقار اور احترام قائم رہنا چاہیے۔۔۔!!

March 25, 2018

کہتے ہیں’’ انتخابات‘‘ جمہوریت کا حُسن ہوتے ہیں اور اُن کے انعقاد سے جمہوریت مضبوط اور مستحکم ہوتی ہے، لیکن اس بار عجب ہی ہوا، سینیٹ کے حالیہ انتخابات میں جمہوریت کے نام پر جو کچھ دیکھنے میں آیا، وہ جمہوریت کے لیے نیک شگون نہیں۔ 12 مارچ کو سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کے بعد ایوانِ بالا مکمل ہوگیا، لیکن جس ماحول اور فضا میں اس کی تشکیل ہوئی، اُس کی بازگشت طویل عرصے تک باقی رہے گی۔

جوڑ توڑ، شعبدے بازیاں، مغالطے، رابطہ کاری، سیاست کا لاکھ حصّہ سہی، مگر ہارس ٹریڈنگ کے الزامات نے ایوانِ بالا کے تقدّس کو مجروح کردیا ہے۔ یہ صرف الزامات ہی نہیں ہیں، بلکہ کچھ حقائق سے اس بات کا ثبوت بھی ملتا ہے۔ مثلاً پنجاب اسمبلی میں تحریکِ انصاف کے کُل تیس ووٹ تھے۔ اُس کا کھرب پتی امیدوار، چوالیس ووٹ لے کر جیت گیا۔

بلوچستان اسمبلی میں پیپلزپارٹی کا ایک بھی رُکن نہیں تھا، وہاں اُس کے دو امیدوار، سینیٹر منتخب ہو گئے اور تیسرا جیتتےجیتتے رہ گیا۔ ’’جوتیوں میں دال بٹنے‘‘ والا محاورہ سندھ اسمبلی میں حقیقت بن کر سامنے آیا۔ ایم کیو ایم کے ووٹ تاش کے پتّوں کی طرح بِکھرے، جنہیں سمیٹنے والوں نے سمیٹ لیا۔

ایم کیو ایم کا ایک ہی امیدوار جیت سکا۔ وہ بھی پانچویں گنتی میں۔ پارٹی قیادت، وفاداری بدلنے والے ارکان کا ’’ کُھرا‘‘ تلاش ہی کر رہی تھی کہ اس کی دو خواتین اراکین نے انتخابات کے محض تین روز بعد پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کا اعلان کردیا، جب کہ ایک خاتون رُکن، شازیہ فاروق نے الزامات سے دِل برداشتہ ہو کر زاید مقدار میںخواب آور گولیاں کھا لیں۔

پاکستان مسلم لیگ (نون)، تحریکِ انصاف، ایم کیو ایم اور جماعتِ اسلامی کے رہنما اعتراف کر رہے ہیں کہ سینیٹ انتخابات میں دولت کا کھیل کھیلا گیا، مگر اس بارے میں پیپلزپارٹی کے رہنما، بلاول بھٹّو کا مؤقف بالکل مختلف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے ہارس ٹریڈنگ نہیں کی، ارکانِ اسمبلی کو قائل کر کے ووٹ لیے ہیں۔

تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی سینیٹ کے انتخابات میں چمک دمک کی بات کرتے ہیں، اُن کا کہنا ہے کہ’’ امریکا میں براہِ راست انتخاب کے ذریعے سینیٹر منتخب ہوتا ہے، لیکن ہمارے یہاں سینیٹ الیکشن میں پیسا چلتا ہے، پیسے کے بل بُوتے پر آنے والا سینیٹر کرپشن ہی کرتا ہے، اس نظام کو بدلنا ہے، جو ہارس ٹریڈنگ کی اجازت دیتا ہے۔‘‘

پاکستان میں دو ایوانی مقنّنہ کا قیام 1973ء کے آئین کے تحت عمل میں لایا گیا تھا۔سینیٹ کی تشکیل آئین کے آرٹیکل 59 کے تحت ہوتی ہے۔ ابتدا میں اس کے اراکین کی تعداد 45مقرر کی گئی تھی، 1977 ء میں ارکان کی تعداد بڑھا کر 63کر دی گئی۔ 5 جولائی 77 ء سے1985 ء کے عام انتخابات کے بعد تک سینیٹ معطّل رہی، غیر جماعتی انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کے ذریعے سینیٹ قائم ہوئی تو اس ارکان کی تعداد87 ہو چکی تھی۔ 2002ء میں یہ تعداد 100 ہو گئی۔

2010ء میں اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعے، چار اقلیتی ارکان کا اضافہ کیا گیا۔ اس طرح اب سینیٹ 104 اراکین پر مشتمل ہوتی ہے۔ سینیٹ کے پہلےچیئرمین، حبیب اللہ خان اور ڈپٹی چیئرمین، محمّد طاہر تھے۔ قائدِ ایوان، میاں رفیع رضا اور قائدِ حزبِ اختلاف، محمّد ہاشم غلزئی تھے۔ حفظِ مراتب کے لحاظ سے سینیٹ کے چیئرمین کا رتبہ صدرِ مملکت کے بعد ہے۔ اگر صدرِ مملکت کا عُہدہ بیماری، استعفے یا مُلک سے غیر حاضری کی صُورت میں خالی ہو جائے، تو سینیٹ کا چیئرمین، قائم مقام صدر کا عُہدہ سنبھال لیتا ہے۔

سینیٹ کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ کوئی ایک یا ایک سے زاید صوبہ اپنی عددی اکثریت کی بنیاد پر دیگر صوبوں کی حق تلفی نہ کر سکے اور ایک ایسا ادارہ (ایوان بالا) موجود ہو، جہاں وفاق میں شامل تمام صوبوں کی آواز یک ساں طور پر سُنی جائے۔ آئین سازوں نے دنیا کی دیگر وفاقی ریاستوں کی طرز پر ایوانِ بالا کے قواعد تشکیل دیے تھے۔

جن کا واحد مقصد صوبوں اور وفاق کے درمیان توازن قائم رکھنا تھا۔ ایوانِ زیریں یعنی قومی اسمبلی میں ایسے اراکین کی اکثریت ہوتی ہے، جو گلی کوچوں کی سیاست کی بہ دولت ایوان میں پہنچتے ہیں اور قانون سازی کے ضمن میں اُن کا تجربہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ اس کمی کو دور کرنے کی غرض سے یہ ضروری تھا کہ ایوانِ بالا( سینیٹ) میں تجربہ کار اور تعلیم یافتہ افراد کو لایا جائے، جو سیاسی شعبدہ بازیوں سے بالاتر ہو کر قانون سازی کے اہم کام کو اس کی اصل روح کے مطابق سر انجام دے سکیں، اور ساتھ ہی کسی ایک صوبے کو دوسرے صوبے کے غلبے کی شکایت کا موقع بھی نہ ملے۔

پہلی سینیٹ کی تشکیل اسی نظریے اور تصوّر کی روشنی میں ہوئی۔1977 ء کے مارشل لاء کے نفاذ سے قبل، سینیٹ نے ایک باوقار ادارے کی حیثیت سے بڑا نام کمایا، ضیاء الحق کا مارشل لاء نافذ ہوا، تو سینیٹ بھی تحلیل کر دی گئی۔ 1985ء میں غیر جماعتی بنیاد پر عام انتخابات ہوئے، تو قومی اسمبلی کے بعد، سینیٹ بھی بحال ہو گئی اور وہ اراکین منتخب کیے گئے، جن کے نام ایک ڈکٹیٹر کی ترتیب دی ہوئی فہرست کے مطابق تھے۔

قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان نے صرف اُن ہی امیدواروں کو ووٹ دیا، جس کی اُنہیں تاکید کی گئی تھی۔ اس زمانے کا ایک واقعہ بڑا دِل چسپ ہے، صاحب زادہ یعقوب علی خان، جب سینیٹر منتخب ہوئے تو اُنہیں ووٹ دینے والے اراکین میں سے ایک رُکن نے ازراہِ تفنن کہا ’’ہمیں اس بات پر صاحب زادہ یعقوب علی خان کا شُکر گزار ہوناچاہیے کہ اُنہوں نے ہمارے ووٹ قبول فرما لیے۔ ‘‘

غیر جماعتی بنیاد پر وجود میں آنے والی اسمبلیوں سے سینیٹ کی بے توقیری کا آغاز ہوا، جو کسی نہ کسی شکل میں آج بھی جاری ہے۔ ان اسمبلیوں کے ارکان سیاسی وابستگیاں رکھنے کے باوجود آزاد حیثیت میں منتخب ہوئے تھے، لہٰذا وہ کسی بھی پارٹی ڈسپلن اور اخلاقی ضابطے کے پابند نہ تھے، اُنہیں جدھر ہنکایا جاتا، اُدھر چل نکلتے۔ بادشاہ گر کی حیثیت رکھنے والے ایک سیاسی رہنما، جن کے مریدِ خاص پر وزارتِ عظمیٰ کا ’’ہما‘‘ بٹھا دیا گیا، اس سارے کھیل کےنگراں تھے اور ریس کے گھوڑوں کی طرح بازیاں لگ رہی تھیں۔ یہاں تک کہ اُن کی پارٹی کے ایک بے لوث کارکن، بوستان علی ہوتی، جن کا تعلق کراچی کے ایک متوسّط گھرانے سے تھا، سینیٹ کا ٹکٹ ملنے کے باوجود شکست کھا گئے اور اُن کی جگہ ’’نذرانہ‘‘ پیش کرنے والے ایک چنیوٹی سیٹھ سینیٹر بن گئے۔

اس زمانے میں ایک ووٹ کی قیمت پانچ لاکھ تھی، جو اب پانچ کروڑ یا اس سے زیادہ کا ہوچکا ہے۔ بدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ آمریت کے خاتمے کے بعد جمہوری ادوار میں سینیٹ کا وقار اس طرح بحال نہ ہو سکا، جیسا برطانیہ میں دارالامرا کو حاصل ہے، بلکہ برسرِ اقتدار سیاسی جماعتوں نے اسے’’ ڈمپنگ گرائونڈ‘‘ بنا دیا ہے، جو سیاسی کارکن کسی دوسری جگہ سے ووٹ لینے کے قابل نہیں نکلتا، اُسے سینیٹ میں بھیج دیا جاتا ہے۔

سیاسی جماعتوں کی جانب سے متعلقہ صوبے کے بجائے، دوسرے صوبوں سے امیدوار کا انتخاب بھی ایک غلط روایت ہے، جس سے سینیٹ کا اصل کردار متاثر ہوتا ہے اور ماضی میں پیپلز پارٹی کے پنجاب سے تعلق رکھنے والے عبدالرحمٰن ملک سندھ سے، سندھ سےتعلق رکھنے والےمسلم لیگ نون کے نہال ہاشمی، مشاہد اللہ خان، سلیم ضیا پنجاب سے منتخب کروائے گئے۔ اسی طرح ایم کیو ایم نے پنجاب کے میاں عتیق کو سندھ سے اپنا رُکن منتخب کروایا۔ اس طرح کی صُورتِ حال حالیہ انتخابات میں بھی دیکھی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک ایسا امیدوار، جس کا تعلق پنجاب سے ہو، وہ کس طرح سندھ کے حقوق کی بات کرسکےگا اورپنجاب سےمنتخب ہونے والا سندھی، اپنے حلقۂ انتخاب کے خلاف کیسے آواز اٹھائے گا۔ اگر کسی مسئلے پر دونوں صوبوں کےدرمیان اختلاف پیدا ہو جائے، جیسا کہ سندھ اور پنجاب میں عموماً پانی کے مسئلے پر اختلافات پیدا ہوتے رہتے ہیں، اب یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے دو سینٹرز الگ الگ دو ایسے صوبوں کے مفادات کی بات کریں، جن سے اُن کا کوئی آبائی تعلق بھی نہ ہو۔

ان امیدواروں کی ہم دردی فطری طور پر اپنے اپنے آبائی صوبوں کے ساتھ ہو گی، دوم، متعلقہ سیاسی جماعت کے رُکن ہونے کے ناتے وہ اس کی پالیسز کے بھی پابند ہیں، لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے حلقۂ انتخاب سے انصاف کر سکیں۔ اگر سینیٹ کو اس کی اصل روح کے مطابق صوبائی حقوق کے تحفّظ اور مفادات کا نگہبان بنانا ہے، تو ایسی تمام روایات کا خاتمہ کرنا ہوگا۔

دلیل دی جاتی ہے کہ ایسا صوبائی ہم آہنگی اور قومی یک جہتی کو پروان چڑھانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ یہ انتہائی بودی دلیل ہے، اگر قومی یک جہتی اور صوبائی ہم آہنگی پیدا کرنی ہے، تو اس کا اطلاق دوسری جگہوں پر کیا جانا چاہیے۔ جو ادارہ خالصتاً صوبائی مفادات کے تحفّظ کے لیے قائم ہوا ہے، اُسے صوبوں کے مفادات ہی کا نمایندہ ہونا چاہیے۔ البتہ اسلام آباد کی نشستوں کے لیےپورے پاکستان سےنمایندگی میں کوئی حرج نہیں کہ بہرحال وفاقی دارالحکومت، وفاق کی علامت ہے۔

ہارس ٹریڈنگ کے کلچر کو پروان چڑھانے کی سب سے اہم وجہ موجودہ پیچیدہ انتخابی طریق ہے، جسے تبدیل کیےبغیر سینیٹ کےانتخابات کو شفّاف بنانا ممکن نہیں۔ اگر خفیہ رائے شماری کی بجائے شو آف ہینڈز( کُھلی رائے شماری) کا طریقۂ کار اختیار کیا جائے، تو نہ ہارس ٹریڈنگ ہو سکے گی، نہ ہی وفا داریاں بدلنے کاامکان رہے گا۔ دنیا کے بیش تر جمہوری مُلکوں میں رائے شماری کے لیے ڈویژن (تقسیم) کا طربقِ کار اختیار کیا جاتا ہے۔ جس کے تحت ارکان کو علیٰحدہ علیٰحدہ دروازوں سے گزار کر اُن کی گنتی کر لی جاتی ہے۔ 2015ء میں ہونےوالے سینیٹ کے انتخابات میں خفیہ رائے شماری کی جگہ شو آف ہینڈز کا طریقۂ کار اختیار کرنے کی تجویز پر غور کیا گیا تھا، تاہم سیاسی جماعتوں میں اس پر اتفاق رائے نہ ہو سکا۔ دِل چسپ بات یہ رہی کہ مسلم لیگ (نون)اور تحریکِ انصاف اس تجویز کے حق میں اور حکومت کے قریبی اتحادی، مولانا فضل الرحمان اور آصف علی زرداری اس کےخلاف تھے۔

اگر اس وقت یہ تجویز مان کر آئین میں ترمیم کر دی جاتی، تو آج ہمیں اس بدترین صُورتِ حال کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔سینیٹ کے انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ روکنے کا ایک حل یہ بھی ہے کہ سینٹرز کا انتخاب، صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے ارکان کے بجائے براہِ راست عوام کے ووٹوں کے ذریعے ہو، موجودہ طریقِ کار ہر لحاظ سے بدعنوانی کےراستےکھولتاہے۔اوّلاً سیاسی جماعتیں امیدواروں سے بھاری رقم کے عوض درخواستیں وصول کرتی ہیں، پھر امیدواروں کا انتخاب کیا جاتا ہے،اس انتخاب کاپیمانہ بھی مختلف ہوتا ہے۔

بالعموم چھوٹی سیاسی جماعتیں، ایسے افراد کو ٹکٹ دیتی ہیں، جو ووٹوں کی خرید وفروخت کے ذریعے ایوان تک پہنچ سکیں۔ اکثر صُورتوں میں یہ افراد متعلقہ سیاسی جماعتوں کے رُکن بھی نہیں ہوتے۔ حالیہ انتخابات میں کام یاب ہونے والے چہروں پر نظر ڈال لیجیے، بہت سےچہرے نظر آجائیں گے۔

جہاں تک مُلکی سطح کی سیاسی جماعتوں کا تعلق ہے، اُمیدواروں کا تعیّن کرتےہوئے اُن کی ترجیحات قدرے مختلف ہوتی ہیں۔ بااثر، بارسوخ اور دولت مندوں کے ساتھ ساتھ غریب اور مخلص کارکنوں کو بھی امیدوار بنایا جاتا ہے،تاکہ عوامی جماعت کےتاثرکےساتھ ساتھ کارکنوں کا حوصلہ بھی بڑھ سکے۔

یہاں ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ سینیٹ کی رُکنیت میں آخر ایسی کیا چیز ہے کہ سیاست دان کروڑوں روپے خرچ کر ڈالتے ہیں۔ موجودہ انتخابات میں اگر صرف بیس نشستوں پرسودے بازی کا اندازہ لگایا جائے (اگرچہ تجزیے اور تبصروں کے مطابق یہ تعداد زیادہ ہے) اور فی ووٹ قیمت پانچ کروڑ روپے فرض کر لی جائے، تو کُل رقم ایک ارب روپے بنتی ہے۔

اب جو، چودہ ووٹ خرید کر ایوانِ بالا کا رُکن منتخب ہو اور وہ ان چھے برسوں میں اپنی خرچ کی ہوئی رقم مع سود وصول کرنے کی کوشش کرے، تو آپ اندازہ لگایئے کہ اُسے کیا کیا نہ کرنا پڑےگا۔ اخلاق، ضمیر، مذہب ،حب الوطنی، وفاداری غرض یہ کہ ہر چیز پر سودے بازی ہو گی۔

صوبوں کا مفاد کیا، عوام کے حقوق کیا ؟ کیا یہ ادارہ اس لیے قائم ہوا تھا کہ ہر تین سال بعد منڈی لگے، بھائو تائو ہو ،قومی اور صوبائی اسمبلیوں کےارکان کو مال بنانے کا موقع ملے اور سیاسی جماعتوں کےقائدین اپنے اراکین کی چوکیداری یا حصّے داری میں لگے رہیں۔

کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ تمام سیاسی جماعتیں، فیصلہ کریں کہ اب تک جو ہوا سو ہوا، آیندہ ایسا نہیں ہو گا۔ سینیٹ الیکشن کے نام پر’’کھوتا منڈی‘‘ نہیں لگے گی۔ سینیٹ کا وقار اور احترام قائم کیا جائے گا۔ سینیٹ خوشامدیوں، وفاداروں اور ارب پتیوں کا ٹھکانہ نہیں بنے گی اور یہاں ایسے ذی وقار، باشعور، تعلیم یافتہ افراد بہ طورِ رُکن بھیجے جائیں گے، جن کی دیانت، ذہانت ہر شک و شبے سے بالاتر ہو اور وہ صرف مُلک و قوم کا مفاد مدّنظر رکھیں۔ اُن کا دامن سیاسی آلائشوں سے پاک ہو۔ یہ سب کچھ بہت آسانی سے ہو سکتا ہے، اگر ہمارے سیاست دان ایسا کرنا چاہیں، بس شرط خلوصِ نیت کی ہے۔؎

خرید کر ہمیں ارزاں بنادیا تم نے…جو ہم بِکے نہیں ہوتے، تو بے بہا ہوتے