تحریک پاکستان کے غیرمسلم اکابرین

March 26, 2018

تحریک پاکستان انسانی تاریخ کی سب سے پرامن جدوجہد ہے جسکی بدولت ہمارے پیارے وطن کا قیام عمل میں آیا، عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ تحریک پاکستان کی قیادت کرنے والے تمام مسلمان اکابرین تھے اور تحریک پاکستان کا مقصد صرف مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے الگ وطن کا قیام تھا، میں اس غلط فہمی کودور کرنے کی جسارت کرتے ہوئے آگاہ کرنا چاہوں گاکہ قائداعظم کے دو قومی نظریے کی بنیاد پر مطالبہ پاکستان کی حمایت کرنے والوں میں غیرمسلموں کی خاصی بڑی تعداد بھی شامل تھی، 23مارچ 1940کے تاریخی دن جب مسلمانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر اپنے محبوب قائد اعظم کی پکار پر لبیک کہنے لاہور میں جمع تھا تو وہیں قائداعظم کے شانہ بشانہ تحریک پاکستان کے غیرمسلم کارکن بھی شامل تھے، اس سلسلے میں کچھ نام جو میرے ذہن میں آرہے ہیں وہ دیوان بہادر ستیہ پرکاش سنگھا، چندو لال،راج کماری امریت، سی ای گبون، ایف ای چوہدری، الفریڈ پرشاد اور ایس ایس البرٹ وغیرہ وغیرہ کے ہیں۔ میرے آج کے کالم کا مقصد اپنی تاریخ کے ان عظیم غیرمسلم ہیروز کو خراجِ تحسین پیش کرنا ہے جنہیں ہم اپنے تعصب کی بھینٹ چڑھاتے ہوئے بھول بیٹھے ہیں۔ میں اپنے گزشتہ کالموں میں تفصیل سے روشنی ڈال چکا ہوں کہ قائداعظم ہندومسلم اتحاد کے سفیر کے نام سے جانے جاتے تھے، انڈین کانگرس کے غیرضروری مسلمان مخالف اقدامات کی بدولت مسلمانوں میں یہ تاثر تقویت پا گیا تھا کہ انگریزوں کے ہندوستان چھوڑ دینے کے بعد وہ کانگریس کے رحم و کرم پر ہونگے، یہی وہ خدشات تھے جنہوں نے آگے چل کر تقسیمِ ہند کی راہ ہموار کی۔قائداعظم محمد علی جناح کی زیرقیادت آل انڈیا مسلم لیگ کی جانب سے لاہور کے منٹو پارک میں منعقدہ تین روزہ سالانہ اجلاس کے موقع پر تاریخی قرار دادِ لاہور منظورکی گئی تو اسکی پرزور حمایت کرنے والوں میںتحریک پاکستان کے عظیم ہندو لیڈر جوگندرناتھ منڈل کا نام سرفہرست ہے، منڈل مسلم لیگ کا سبز ہلالی پرچم اٹھائے اپنی کمیونٹی کو پاکستان کیلئے قائل کرنے کیلئے جُت گئے، قائداعظم کی آخری سانسوں تک پاکستان کی ترقی و سربلندی کیلئے سرگرم رہنے والے جوگندرناتھ منڈل کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے متحدہ ہندوستان میں وزیر بھی نامزد ہوئے، قیام پاکستان کے بعد قائداعظم نے انہیں اپنی کابینہ میں شامل کرتے ہوئے ملک کا پہلا وزیرقانون مقرر کیا، جوگندرناتھ منڈل پرُامید تھے کہ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والے ملک میں تمام شہریوں کو برابری کی سطح پر یکساں شہری حقوق حاصل ہونگے، اس حوالے سے انکے سامنے انسانی تاریخ کا سب سے شاندار میثاق ِ مدینہ تھا جس میں اسلامی ریاست اور غیرمسلم شہریوں کے مابین پراعتماد تعلقات کو یقینی بنایا گیا تھا۔ خود قائداعظم نے گیارہ اگست 1947ء کی تقریر میں یہ واضح کردیا کہ نوزائیدہ مملکت میں تمام شہریوںکو اپنے مذہبی فرائض کی ادائیگی کیلئے مندر، مسجد یا کوئی اور عبادتگاہ جانے کی آزادی میسر ہوگی۔ قائداعظم کی اپیل پر پاکستان میں صدیوں سے بسنے والے ہزاروں ہندو خاندانوں نے ہجرت کا ارادہ ترک کرکے پاکستان کو اپنی دھرتی ماتا بنا لیا۔برصغیر میں بسنے والے عیسائیوں کی ایک کثیر تعداد بھی قائداعظم کے مطالبہ پاکستان کی حامی تھی۔قیام پاکستان کے وقت پنجاب اسمبلی کے کرسچن اسپیکر ایس پی سنگھا نے اپنے فیصلہ کُن ووٹ کے ذریعے پنجاب کو پاکستان کا حصہ بنوایا۔ سروکٹر ٹرنر انگریز پس منظر کے حامل ہونے کے باوجود تحریک پاکستان سے وابستہ تھے، وہ اپنے زمانے کے ایک قابل ماہر اقتصادیات اور شماریات تھے، انہیں پاکستان کے پہلے سیکرٹری خزانہ اور چیئرمین سینٹرل بورڈ آف ریونیو کے طور پر ملکی خدمات کی بدولت پاکستان کی سول سروس کا بانی بھی کہاجاسکتا ہے،پاکستان کی آزادی کے فوراٰٰ بعدقائداعظم کی جانب سے سر وکٹر ٹرنرکو نوزائیدہ مملکت کو اقتصادی طور پر مضبوط بنانے کیلئے ٹھوس پالیسیاں وضع کرنے کی ذمہ داریاں سونپی گئیں، انہوں نے نہایت کامیابی سے حکومتِ پاکستان کو مختلف معاشی معاملات پر گائیڈلائن فراہم کی۔ اسی طرح کرسچن کمیونٹی کی ایک اور نامور شخصیت الون رابرٹ کورنیلئس نے اپنے آپ کو تحریک پاکستان کی کامیابی کیلئے وقف کردیا، قائداعظم کے قریبی ساتھی کورنیلئس نے قیام پاکستان کے ابتدائی ایام میں وزیرقانون جوگندرناتھ منڈل کے ساتھ بطور لاء سیکرٹری بھی کام کیا، کورنیلئس کو خود قائداعظم نے اپنے ہاتھوں سے چیف جسٹس آف لاہور ہائی کورٹ بینچ کے عہدے پر ترقی دی، مذہبی آزادی اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے سرگرم کورنیلئس نے مختلف عدالتی امور پر اپنی قانونی رائے کا برملا اظہار کیا، انہیں مسلمان اکثریتی ملک پاکستان کے پہلے کرسچن چیف جسٹس ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے، کورنیلئس کی قانونی جدوجہد کا محور پاکستان میںانصاف کو یقینی بنانا اور مذہبی شدت پسندانہ نظریات کو رد کرنا تھا۔بہت کم پاکستانی اس حقیقت سے واقف ہونگے کہ قرارداد پاکستان کا متن تیار کرنے والے جماعت احمدیہ کے سرظفراللہ خان تھے ،قائداعظم نے انہیں پاکستان کا پہلا وزیرخارجہ بھی نامزد کیا ، پاکستان کے آئین کے مطابق احمدیوں کو غیرمسلم قرار دیا گیا ہے لیکن تاریخ کا مطالعہ بتلاتا ہے کہ سرظفراللہ خان پہلے ایشیائی اور واحد پاکستانی ہیں جنہیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور عالمی عدالت انصاف کی صدارت کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہ بھی ایک حیران کن انکشاف ہے کہ قائداعظم کی فرمائش پر پاکستان کا پہلاقومی ترانہ ایک ہندو پاکستانی نے تحریر کیا تھا، میانوالی سے تعلق رکھنے والے ہندو شاعر جگن ناتھ آزاد کا تحریرکردہ ترانہ 14اگست 1947 کو ریڈیوپاکستان سے نشر ہوا اورسرکاری سطح پر بطورقومی ترانہ پہلے ڈیڑھ سال تک نشر ہوتا رہا لیکن قائداعظم کی وفات کے بعد ترک کردیا گیا۔قرارداد پاکستان کی منظوری کے بعد جب قائداعظم نے لائل پور (موجودہ فیصل آباد)کا دورہ کیا تو سردار دل باغ سنگھ کی جانب سے خیرمقدمی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔پنجاب کی تقسیم کے وقت کرسچن مقامی قیادت نے باؤنڈری کمیشن کے روبرو پیش ہوکر پاکستان میں شامل ہونے کے عزم کا اظہار کیا،اسی طرح سکھ لیڈرپران سنگھ رام داسیہ نے بھی باؤنڈری کمیشن کو پاکستان کے ساتھ الحاق پر زور دیا، پاکستان کی حمایت کے حصول کیلئے قائداعظم نے ایک اور سکھ لیڈر گیانی کرتارسنگھ سے بھی ملاقات کی۔قیام پاکستان کے بعد جب مہاجرین کی بڑی تعداد نے دارالحکومت کراچی کا رخ کیا تو کراچی کے پہلے میئر کے طور پر انکا استقبال ایک غیرمسلم پارسی جمشید نصر وانگی نے کیا اور فضاپاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھی ۔میں سمجھتا ہوں کہ تحریک پاکستان کو فقط مسلمانوں تک محدود کرنا اور قائداعظم کے غیرمسلم ساتھیوںکی خدمات کو نظرانداز کرنا کوئی قابلِ تحسین اقدام نہیں،اگر ہم پاکستان کو دنیا کے نقشے پر ایک جدید، ترقی یافتہ اور امن پسند ملک کے طور پر منوانا چاہتے ہیں تو ہمیں قائداعظم کے پرامن وژن کے مطابق تمام پاکستانی شہریوں کو ترقی و خوشحالی کے یکساں مواقع فراہم کرنا ہونگے، ہمیں دنیا کو یہ بتلانا ہوگا کہ پاکستان کے سبز ہلالی پرچم کے سائے تلے ہم سب ایک ہیں۔ اس حوالے سے سب سے پہلا اقدام میری نظر میں یہی ہے کہ ہم اپنی تاریخ کے تمام عظیم کرداروں کی خدمات کا اعتراف نہایت ایمانداری سے کریں، ہمارے تعلیمی نصاب میں غیرمسلم پاکستانیوں کے اعلیٰ کارناموں کا بھی ذکر ہونا چاہیے، اسی طرح ہمیں حکومتی سطح پر تحریک پاکستان کے غیرمسلم ہیروز سے منسوب مختلف ایوارڈز کابھی اجراکرنا چاہئے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)