ملاقات اور نوازشریف کا بیانیہ

March 30, 2018

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے احسن فیصلہ کیا کہ وہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سے ملاقات کرکے ایگزیکٹو کو جو مشکلات اور رکاوٹیں بہت سے عدالتی اقدامات کی وجہ سے درپیش ہیں، سے آگاہ کریں۔ انہوں نے بھرپور طریقے سے اپنا کیس چیف جسٹس کے سامنے رکھا۔ اہم ریاستی اداروں کے درمیان اس طرح کا انٹر ایکشن اچھا اور ضروری ہے تاکہ امور مملکت خوش اسلوبی سے چلیں اور ان میں کسی بھی انسٹی ٹیوشن کی وجہ سے کوئی رکاوٹ نہ آئے۔ دسمبر 2017ء سے شروع ہونے والے تیز رفتار ’’جوڈیشل ایکٹوزم‘‘ اور نیب کی کارروائیوں نے بڑی حد تک انتظامیہ کو مفلوج کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے بیورو کریسی اس بات کو زیادہ ترجیح دے رہی ہے ’’ڈنگ ٹپائو‘‘ اور کسی قسم کا کوئی فیصلہ نہ کرو تاکہ کوئی پوچھ گچھ ہی نہ ہو۔ یقیناً اس طرح حکومت نہیں چل سکتی اور ملک کیلئے بھی یہ صورتحال قطعاً اچھی نہیں ہے۔ پرفیکٹ تو کوئی ادارہ بھی نہیں۔ اگر ہر ادارہ بجائے اس کے کہ اپنے کام پر زیادہ توجہ دے دوسرے انسٹی ٹیوشنز کے دائرہ اختیار میں داخل ہونے کی کوشش کرے تو خرابی پیدا ہونی ہی ہے۔ اس وقت 18 لاکھ سے زائد مقدمات مختلف عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔ کوئی ایسی جوڈیشل پالیسی نظر نہیں آرہی جس سے اس بہت بڑے بوجھ کو کسی طرح بھی کم کیا جاسکے۔ چیف جسٹس خود بھی اقرار کر چکے ہیں کہ انہوں نے ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان سے ان کیسز کو جلد نمٹانے کیلئے بار بار کہا ہے مگر وہ مجبور ہیں کہ اس سلسلے میں کچھ زیادہ رفتار نہیں پکڑی جاسکی۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنا ’’دکھڑا‘‘ کھل کر جسٹس ثاقب نثار کے سامنے رکھا۔ انتظامیہ کے سربراہ کے طور پر ان کا یہ فرض بنتا ہے کہ جہاں بھی ان کی ’’ڈومین‘‘ میں مشکلات اور رکاوٹیں کسی دوسرے ادارے کی وجہ سے پیدا ہوں وہ اس انسٹی ٹیوشن کے سربراہ کو ان سے آگاہ کریں تاکہ ان کا ازالہ ہوسکے۔
کچھ حضرات نے بے پر کی اڑائی کہ وزیراعظم چیف جسٹس کے پاس اپنے پولیٹکل باس نوازشریف کیلئے رعایت مانگنے گئے تھے اور یہ ملاقات ایک اور ’’این آر او‘‘ کی تیاری تھی۔ این آر اوز ،اس طرح نہیں ہوتے بلکہ اس طرح کی ڈیلز تو خفیہ اور درپردہ ہوتی ہیں جس کی خبر کانوں کان معدودے چند لوگوں کو ہوتی ہے عوام کو ان کا علم بڑے عرصے بعد ہوتاہے۔ اب تک یہ ثابت ہو چکا ہے کہ وزیراعظم نے نوازشریف سے چیف جسٹس کے ساتھ ملاقات کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔اس میٹنگ کے فوراً بعد کچھ جلد باز حضرات نے فوراً یہ کہہ دیا کہ اس سے نوازشریف کے بیانیے کو نقصان ہوا ہے کیونکہ ایسی ملاقات کے ذریعے سابق وزیراعظم اپنے کورٹ کیسز ختم کرانا چاہتے ہیں اور جو انہوں نے اپنی جارحانہ پالیسی اپنا رکھی ہے اس سے یو ٹرن لینا چاہتے ہیں۔ تاہم ان لوگوں کے ’’تجزیے‘‘ شاہد خاقان عباسی۔ چیف جسٹس ملاقات کے چند گھنٹوں بعد ہی ہوا میں اڑ گئے جب نوازشریف سے اس میٹنگ کے بارے میں پوچھا گیا۔ بجائے اس کے کہ وہ اس پر کوئی بات کرتے انہوں نے وہی اپنا پرانا بیانیہ زیادہ پرزور طریقے سے دہرا دیا جو وہ28جولائی 2017ء کے بعد دے رہے ہیں۔ ایسی ملاقاتیں ہوں یا نہ ہوں نوازشریف کیلئے اپنے بیانیے سے ہٹنا یا اس میں کوئی بڑی واضح لچک دکھانا سیاسی خودکشی کے مترادف ہوگا خصوصاً اس وقت جبکہ نہ صرف ان کا بلکہ ان کے مخالفین کا بھی یہ ماننا ہے کہ ان کی حکمت عملی کی وجہ سے ان کی مقبولیت میں بہت اضافہ ہوا ہے جسے وہ لے کر آئندہ انتخابات میں جانا چاہتے ہیں۔
ان کے بیانیے کو اور ساتھ ساتھ ان لوگوں کی رائے کہ نوازشریف اور ان کی بیٹی مریم کو ہر صورت سیاست سے مائنس کرنا ہے سامنے رکھیں تو نظر نہیں آتا کہ ان میں کوئی لچک آئے گی۔ دونوں میں سے جو بھی اپنی پوزیشن سے پیچھے ہٹے گا اسے نقصان ہی ہوگا۔ جہاں تک نوازشریف کے پاکستان سے جانے کا تعلق ہے تو یہ این آر او تو بڑا پرانا ہے جو کہ28 جولائی کے فیصلے کے بعد ہی ان کو پیش کر دیا گیا تھا کہ وہ ملک سے آئندہ چند سالوں کیلئے چلے جائیں تو ان کے بارے میں سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ جب بھی وہ لندن اپنی بیگم کی تیمار داری کیلئے گئے بھرپور انداز میں پروپیگنڈہ کیا گیا کہ اب وہ واپس نہیں آئیں گے جو بے بنیاد ثابت ہوا۔ نوازشریف پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے 2000ء کی جلاوطنی سے بہت کچھ سیکھا ہے اور وہ اس کو اب نہیں دہرائیں گے۔ ویسے بھی جو سیاستدان اتنا مقبول ہو جتنا کہ سابق وزیراعظم ہیں اس کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ ملک سے چلے جائیں گے احمقانہ بات ہے۔ احتساب عدالت میں چلنے والے ان کے خلاف کیسز کی جو درگت خود جے آئی ٹی کے سربراہ اور نیب کے اسٹار وٹنس واجد ضیاء کی باتوں سے بن رہی ہے کو سامنے رکھتے ہوئے بھی نوازشریف کی رائے یہی ہے کہ انہیں سزا تو ہر صورت ہونی ہی ہے۔ وہ جیل جانے اور اپنے خلاف مقدمات مختلف عدالتوں میں پرزور طریقے سے لڑنے کیلئے تیار ہیں۔ ان کے خلاف مقدمات کی حالت یہ ہے کہ واجد ضیاء نے اپنی گواہی میں کہا ہے کہ سابق وزیراعظم کی آف شور کمپنیوں، لندن فلیٹس اور العزیز یہ اسٹیل ملز ملکیت کی کوئی دستاویزات نہیں ملیں اور کسی نے بھی نوازشریف کے ان کمپنیوں کے بینی فیشل اونر ہونے کی کوئی معلومات نہیں دیں، قطری خط میں بھی ان کا نام نہیں اور گلف اسٹیل مل کی فروخت کی رقم کے لین دین میں وہ شامل نہیں۔ جے آئی ٹی کے ’’ناقابل تردید‘‘ ثبوتوں اور کارناموں کے بنڈلوں کا بھانڈا خود واجد ضیاء ہی پھوڑ رہے ہیں۔ جب جے آئی ٹی نے کئی ماہ تک تحقیقات کیں اور پھر اپنی رپورٹ عدالت عظمیٰ میں پیش کی تو یہ ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ نوازشریف اور ان کی فیملی سے زیادہ کرپٹ دنیا میں کوئی اور نہیں ہے۔ مگر جب عدالت میں ثبوت پیش کرنے کا موقع آیا تو جے آئی ٹی کا تھیلا خالی نکلا۔ ہمارے ہاں بہت سارے مقاصد زہریلا پروپیگنڈہ کر کے ہی حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ نوازشریف کو بھی کرپٹ قرار دینے کا یہ فارمولا اپنایا گیا مگر عوام کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونکی جاسکتی۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)