ایک سوال ہے آپ سے؟

April 03, 2018

زندگی کے تیز رفتار سفر میں بعض اوقات مہ و سال یاد نہیں رہتے لیکن واقعات ذہن پہ گہرے نقوش مرتب کر جاتے ہیں۔ میں طالب علم تھا، سال کون سا تھا یاد نہیں رہا۔ اخبار میں ایک خبر نظر سے گزری کہ کل یوم اقبال کے سلسلے میں ایک تقریب منعقد ہوگی جس کی صدارت علامہ اقبال کے مخلص و وفادار خدمت گار میاں علی بخش کریں گے۔ اقبال سے عقیدت، کلام اقبال سے شغف اور فلسفہ اقبال کو سمجھنے کی آرزو بلکہ کوشش اسکول کےآخری دور میں ہی ذہن پہ چھا گئی تھی اگرچہ سمجھ کی اپنی مجبوریاں تھیں۔ چنانچہ میٹرک کا امتحان دینے کے بعد تین ماہ کی چھٹیاں میں نے علامہ اقبال کی سوانح پر لکھی گئی کتابیں اور ایک آدھ فلسفہ پر لکھی گئی کتاب پڑھنے میں گزاریں۔ علی بخش کا علامہ اقبال کے ساتھ گہرا اور قریبی تعلق تقریباً ساڑھے تین دہائیوں پر محیط تھا اس لئے میرے دل کے ایک گوشے میں علی بخش سے بھی عقیدت کا عکس موجود تھا۔ یہ تو آپ جانتے ہیں کہ علی بخش ناخواندہ تھا، اس نے علامہ کی زندگی کے آخری سانس تک ان کی خدمت کی اور علامہ اقبال کے انتقال کے بعد بھی طویل عرصہ تک انہی کے گھر سے وابستہ رہا۔ 1969ء میں انتقال سے چند برس قبل وہ فیصل آباد اپنے بھائی کے پاس منتقل ہوگیا تھا جہاں حکومت پاکستان نے اسے شاندار خدمات کے عوض زرعی اراضی الاٹ کردی تھی۔ مقصد علی بخش کی ذات پر لکھنا نہیں حالانکہ اب تو علی بخش پر کتاب بھی لکھی جا چکی ہے اور علامہ اقبال پر لکھی گئی کوئی کتاب علی بخش کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ ذکر ہورہا تھا یوم اقبال کا جس میں نامور اسکالرز اور عالم و فاضل مصنفین علامہ اقبال پر مقالے پیش کررہے تھے، اسٹیج پر نامور ہستیاں تشریف فرما تھیں اور صدارت کررہا تھا علامہ اقبال کا ناخواندہ گھریلو ملازم علی بخش۔ میں یہ خبر پڑھ کر غور و فکر کے سمندر میں ڈبکیاں کھانے لگا اور دن بھر سوچتا رہا کہ بعض شخصیات ’’پارس‘‘ کی مانند ہوتی ہیں جنہیں پتھر یا لوہا بھی چھولے تو وہ سونا بن جاتا ہے اور بعض شخصیات ناموری، شہرت اور دنیاوی حوالے سے اعلیٰ ترین مقامات پر متمکن ہونے کے باوجود اس گدلے تالاب کی مانند ہوتی ہیں جن کے کنارے بیٹھنے ہوالے اپنے دامن پر کچھ داغ لگا کر ہی لوٹتے ہیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے کچھ ایسے ’’بڑے‘‘ لوگ بھی دیکھے ہیں جن سے تعلق بدنامی اور اکثر اوقات زندگی بھر کی شرمندگی بن جاتا ہے۔ میں نے زندگی کے سفر میں نہایت ایماندار اور حد درجے کے بے فیض لوگ بھی دیکھے جو اپنی ایمانداری اور ’’بے فیضی‘‘ پر اتراتے اور فخر کرتے تھے اور ایسے ایماندار صاحبان اقتدار بھی دیکھے جن کے فیض کے دروازے کھلے رہتے تھے۔ غلط نوازیاں ہمیشہ بدنامی کا باعث بنتی ہیں اور خدمت کے جذبے سے مدد کرنے والوں کو مخلوق خدا ہمیشہ اچھے لفظوں سے یاد کرتی ہے۔ علی بخش کا تعارف، شہرت، وقار اور احترام صرف اور صرف علامہ اقبال کی خدمت کا فیض اور دین تھا۔ باخبر حضرات بتایا کرتے تھے کہ علامہ اقبال کے عقیدت مند جن میں دنیاوی حوالے سے بڑے بڑے لوگ شامل تھے علی بخش سے ملنا سعادت سمجھتے تھے حالانکہ وہ خود نہ صرف ناخواندہ تھا بلکہ ایک نہایت غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ ذرا اردگردنگاہ ڈالئے۔ آپ کو ایک بھی نیم خواندہ اور غریب شخص نظر نہیں آئے گا جسے کوئی پہچانتا اور قابل توجہ جانتا ہو کیونکہ دنیا میں جاننے، پہچاننے اور اہمیت دینے کے پیمانے دولت، عہدہ، اقتدار و اختیار، شہرت وغیرہ ہوتے ہیں۔
علی بخش کا خیال آیا تو ذہن تاریخ کی وادیوں میں گھومنے لگا۔ علامہ اقبال تو حکیم الامت، فلاسفر، شاعر اور راہنما تھے اور 1938ء میں انتقال پاگئے اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ ان کا دامن سیاست اور اقتدار کی جھاڑیوں سے محفوظ رہا لیکن قائداعظم محمد علی جناح تو سرتاپا سیاست دان تھے اور زندگی کے آخری سال میں اقتدا رکی گدی پر بھی متمکن رہے۔ اقتدار آزمائش ہوتی ہے۔ اقتدار صاحب اقتدار کو بے نقاب بھی کر جاتا ہے۔ حکمرانی کے دور میں حکمران کا ایک ایک فیصلہ تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے اور اس کا انداز حکمرانی، انداز زندگی، حکمران کی اصل شخصیت کو بے نقاب کر دیتا ہے۔ ہماری تاریخ میں قائداعظم وہ واحد ’’پارس‘‘ ہیں جن سے چھونے والا پتھر بھی سونا بن گیا، جن سے معمولی سے معمولی تعلق سعادت بن گیا اور جن سے ملاقات یا گفتگو عمر بھر کا اعزاز ٹھہری۔ میں اپنی محدود اور چھوٹی سی لائبریری پر نظر ڈالتا ہوں تو ان کے ساتھ کام کرنے والے ہر اے ڈی سی کی لکھی ہوئی کتاب ملتی ہے، جو کتاب نہ لکھ سکے وہ مضامین چھوڑ گئے لیکن یہ حقیقت ہے کہ قائداعظم کے ساتھ کام کرنے والے اے ڈسی سی، پرائیویٹ سیکرٹری حتیٰ کہ خانسامےاور ڈرائیور تک زندگی کے آخری سانس تک محترم رہے اور اپنی اس شناخت پر فخر کرتے رہے۔ قائداعظم کے بعد یہ مقام قائد ملت لیاقت علی خان کو ملا لیکن ان کا اخلاص، بے لوث خدمات، ایثار اور شفاف شخصیت قائداعظم جیسے برگد کے گھنے درخت کے نیچے نہ ابھر سکی نہ اپنا وہ مقام بنا سکی لیکن یہ بہرحال ایک حقیقت ہے کہ ان کے ساتھ کام کرنے والے ہمیشہ اپنے اس تعلق پر نازاں رہے اور معاشرے میں قابل احترام تصور ہوتے رہے۔ تاریخ کو غور سے پڑھ کر دیکھ لیں کہ قائداعظم اور وزیراعظم لیاقت علی خان کے قریبی حضرات پر نہ کبھی کوئی الزام لگا، نہ کسی احتسابی ادارے نے ان سے سوال جواب کیا اور نہ ہی کبھی معاشرتی سطح پر ان کو مشکوک نگاہوں سے دیکھا گیا۔ علامہ اقبال ہوں یا قائداعظم یا ان کے سچے جانشین یہ گویا پارس تھے جنہیں چھونے والا پتھر یا لوہا بھی سونا بن گیا، سونا نہ بن سکا تو چاندی ضرور بن گیا۔
یہ ہمارے اخلاقی، سیاسی، معاشرتی اور شخصی کردار کے تنزل کی انتہا ہے کہ ہم نے سونے کو اقتدار کی قربت سے لوہا بنتے دیکھا، ہوس کا شکار ہو کر لوگوں کو بدنامیاں سمیٹتے دیکھا اور پھر یہ بھی دیکھا کہ ’’جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا۔‘‘ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ہمیں من حیث القوم کیا ہوا ہے؟ کیا ہماری قوم بانجھ ہوگئی ہے، کیا ہماری سیاسی کشت ویران ہوگئی ہے؟ وہ لوگ کہاں گئے جن سے چھونے والا پتھر بھی سونا بن جاتا تھا، جن سے تعلق عمر بھر کا افتخار اور اثاثہ بن جاتا تھا۔ آج ہم کس عہد میں رہ رہے ہیں؟ کردار کے تنزل کا یہ عمل کبھی رکے گا یا نہیں؟ یاد رکھیں میں خلافت راشدہ کے دور کی بات نہیں کررہا کہ اس عہد کا موازنہ کسی سے ہو ہی نہیں سکتا۔ نہ ہی میں ان مسلم بادشاہتوں کا ذکر کررہا ہوں جن پہ تاریخ اتراتی اور فخر کرتی ہے۔ میں اپنی اس تاریخ کا ذکر کررہا ہوں جو ہماری آنکھوں کے سامنے موجود ہے اور حالیہ تاریخ کہلاتی ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ مجھے تو اپنے سوال کا موزوں جواب نہیں ملا کہ کیا ہماری کشت سیاست ویران ہوگئی ہے یا ’’پارس‘‘ شخصیات کو جنم دینے والی مائیں بانجھ ہوگئی ہیں؟ اگر آپ کو اس سوال کا جواب معلوم ہے تو ببانگ دہل بتائیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)