غزل: ڈاکٹراقبال پیرزادہ

April 04, 2018

کمرے کی سجاوٹ کو، دلٓاویر کرے، کون

گُل دستوں سے آراستہ، اب میز کرے، کون

چہرہ نظرآتا ہے ترا، ماہ کی صورت

اب اس سے سوا، شمعِ نظر، تیز کرے کون

مس ہوتی نہیں ہے، ترے گل ناز بدن سے

آنگن میں بچھی دھوپ کو، نوخیز کرے کون

بھرتا ہی نہیں ہے، مرا کشکولِ گدائی

تُو بھی ہے خفا تو اسے لبریز کرے، کون

صحرا ہے، نہ جنگل ہے، نہ کہسار، نہ بستی

یہ ابرِ جنوں، صائقہ آمیز، کرے کون

تُو بال سکھاتی ہی نہیں، بال جھٹک کر

خاکِ رہے بے آب کو، زرخیز کرے کون

جلتی ہے تو چنگاریاں، بن جاتی ہیں سورج

سینے میں چھپی آگ سے، پرہیز کرے کون