جام کے بعد

April 05, 2018

جی ایم سیّد نے 1930میں سندھ ہاری کمیٹی کی بنیاد رکھی تھی۔ تقسیم ہند اور آزادی کی گہماگہمیوں کے دوران معروف کسان رہنما حیدر بخش جتوئی اِس کمیٹی کے سر براہ مقرر کردیئے گئے۔ کم و بیش اِسی دور میں حیدر بخش جتوئی نے میرپور خاص میں ایک بڑی کسان کانفرنس منعقد کرکے علاقے کے وڈیروں کو بری طرح ناراض کردیا تھا۔ لہٰذا فصل کی کٹائی کے دوران ایک ناراض جاگیردار نے ہاریوں کے حصے کا اَناج بھی ہتھیانے کی کوشش کی تو ایک تن تنہا عورت اِس کے سامنے سراُٹھا کر کھڑی ہوگئی۔ جاگیردار نے بندوق تان کر اسے خوفزدہ و خبردار کرنے کی کوشش کی لیکن و ہ کسانوں کے حق کے لئے گویا چٹان بنی رہی۔ آخرکار اس پر فائر کھول دیا گیا اور یوں اِس غریب اور نہتّی کسان عورت نے ہاریوں کے حقوق کی خاطر اپنی جان دیدی۔ اِس کا نام بخت آور تھا! برسوں بعد جام ساقی نے اپنی بڑی بیٹی کا نام اِسی باہمت عورت کے نام پر رکھ دیا۔ جام کی یہ بیٹی اب ڈاکٹر بخت آور جام کے نام سے جانی جاتی ہے۔
گزشتہ ماہ جام ساقی کے انتقال کے بعد جمعرات کو اِن کی زندگی اور سیاسی جدجہد پر شہر حیدرآباد میں ایک ریفرنس منعقد کیا گیا ۔ خاص بات یہ کہ ریفرنس میں شریک امتیاز عالم، ایاز لطیف پلیجو، حامد میر، نور الہدیٰ شاہ، گل محمد جاکھرانی، تاج حیدر اور قادر مگسی سمیت تمام سیاست دان، صحافی، تجزیہ کار، ادیب اور مفکر نظریاتی طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے باجود، متفق تھے کہ جام ساقی ملک کی اُن چند شخصیات میں سے ایک ہیں جنہوں نے اپنی زندگی اپنے نظریات کے لئے وقف کردی تھی۔ پاکستان میں نظریاتی جدوجہد کی تاریخ انتہائی مایوس کن ہے۔ یہاں عوامی فلاح، جمہوریت اور مساوات کی خاطر اپنی زندگی وقف کرنے یا گنوانے والے کم و بیش ناپید رہے ہیں۔ اِن مٹھی بھر شخصیات میں حسن ناصر اور ذوالفقار علی بھٹو اپنے نظریات اور سیاسی موقف کی خاطر جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں۔ دوسری جانب جام ساقی اور عاصمہ جہانگیر کو حقوق، مساوات اور استحصال زدہ طبقات کے لئے اپنی پوری زندگیاں وقف کردینے کے سبب کبھی بھلایا نہیں جا سکتا ! اِن چند غیرمعمولی شخصیات کے علاوہ نظریاتی سیاست کے تناظر میں ملک کی تاریخ مکمل طور پر تاریک ہے۔
حیدرآباد میں مذکورہ ریفرنس کے انعقاد سے ایک روز قبل ڈاکٹر بخت آور جام نے مجھے فون پر اِس میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ پروگرام میں شریک تو نہیں ہوسکا لیکن روزنامہ جنگ میں حامد میر کے کالم اور سوشل میڈیا کے ذریعے پروگرام سے متعلق تفصیلات کا علم ہوا۔ رابطہ کرنے پر میر صاحب نے جام سے اپنے تعلق کے بارے میں چند اہم باتوں کا ذکر کیا۔ اِس گفتگو کی بدولت جام ساقی کے نظریاتی و صوفیانہ مزاج سے متعلق ذہن میں موجود خیالات کو مزید تقویت ملی۔
جام کے قریبی حلقوں کے مطابق وہ ایک عرصے تک جیو ٹی وی پر پروگرام ’’کیپٹل ٹاک‘‘ دیکھتے رہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ مختلف مواقع پر اِس پروگرام میں شرکت کی دعوت ملنے کے باجود وہ اِس میں شریک ہونے سے گریز کرتے رہے۔ میرصاحب نے اِس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ جام کا کہنا تھا کہ وہ اقتدار کی سیاست اور اس کی پیچیدگیوں سے دور رہنا چاہتے ہیں؛ لہٰذا وہ پروگرام میں بھی شرکت نہیں کرنا چاہتے ۔ انہوں نے دلچسپ واقعہ بیان کیا کہ بہت برسوں پہلے پی پی پی پیٹری ایٹس (PPP-Patriots) کے قیام پر وہ جام ساقی کو اپنے پروگرام میں مدعو کرنا چاہتے تھے۔ رابطہ کرنے پر جام نے قہقہہ لگایا اور کہا کہ، ’’بھلا ایک غدار اِن حب الوطنوں (Patriots)کے بارے میں کیا رائے دے سکتا ہے۔‘‘ انہوں نے وضاحت کی کہ، ’’در اصل جام ساقی میرے شو میں پانی اور تعلیم جیسے موضوعات پر بات کرناچاہتے تھے لیکن چند ہی دنوں بعد وہ بیمار ہوگئے جس کے سبب ان کی قوتِ گویائی پر اثر پڑا اور یہ پروگرام نہ ہوسکا‘‘
حیدرآباد میں ایک سندھی روزنامے کاوش اور نیوز چینل سے تعلق رکھنے والے صحافی ناز سہتو نے کہا کہ یہ سچ ہے کہ جام ملک کے سیاسی معاملات پر انسانی حقوق اور استحصال زدہ طبقات کی فلاح کو ترجیح دیتے تھے۔ ’’اگر وہ کسی شو میں شریک ہوبھی گئے توصرف عوامی معاملات پر بات کرنے کے لئے۔‘‘
جام تعلیم اور بنیادی حقوق پر یقیناً بہت حساس واقع ہوئے تھے ۔ آبائی علاقے میں لڑکیوں کا اسکول نہ ہونے پر انہوں نے اپنی بیٹی بختاور کو لڑکوں کے اسکول بھیجنے سے بھی گریز نہیں کیا! ڈاکٹر بخت آور نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ اساتذہ میں ایک مولوی صاحب بھی تھے۔ ’’وہ کلاس میں آتے تو کرسی پرمیری جانب پیٹھ کرکے بیٹھ جاتے؛ وجہ یہ تھی کہ بہت سے لوگوں کی طرح اُنہیں بھی میرا لڑکوں کے اسکول آنا پسند نہیں تھا؛ دوسری وجہ یہ تھی کہ وہ مجھ سے پردہ کرتے تھے؛ حالاں کہ اُس وقت میری عمر صرف دس سال تھی۔ ‘‘
اپنی مسلسل جدوجہد کی پاداش میں وہ 1978سے 1986تک جیل میں رہے۔ رہائی کے بعد روز گار کے لئے وہ مزاحمتی ادب سے متعلق سندھی زبان میں تحریر کردہ کتابوں کا اردو ترجمہ کیا کرتے تھے۔ ’’ترجمے کے اِس پورے عمل میں، میں ہر لمحہ اُن کا ساتھ دیا کرتی تھی۔ پیسے ملنے پر وہ مجھے میرا حصہ بھی باقاعدگی سے دیا کرتے تھے۔‘‘جام ساقی کو غدار بھی کہا گیا لیکن حقیقت اِس کے بالکل بر عکس تھی۔ اِن کے مخالفین بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ جہاں وہ سندھ دھرتی سے جنون کی حد پیار کرتے تھے وہیں وہ ایک محفوظ پاکستان کو ہمیشہ پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے تھے۔ سردجنگ کے دوران بیرونی رابطوں کے’’ مقبول ترین‘‘ خدشات پر اِن کا کہنا تھا کہ ،’’ میں جس دھرتی (پاکستان) پر انقلاب لانا چاہتا ہوں وہاں کے باسیوں کو کبھی دھوکہ نہیں سے سکتا۔‘‘
اہم بات یہ کہ گزشتہ اتوار بلا ول بھٹو تعزیت اور اظہار یکجہتی کے لئے حیدر آباد میں جام ساقی کے گھرتشریف لے گئے ۔ جام کے اہل خانہ سے گفتگو کے دوران بلاول بھٹو نے کہا کہ جام ساقی سے اِن کی والدہ بے نظیر بھٹو اور ان کے خاندان کا گہرا نظریاتی تعلق تھا ۔ جام کے گھر بیٹھ کرنظریات کی بات چھیڑی بھی تو بلاول نے! لہٰذا اُن سے یہ پوچھ لیا گیا کہ وہ اپنی پارٹی میں نظریاتی لوگوں کو آگے کیوں نہیں لاتے؟ قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ بلاول سے یہ سوال جام کی بیٹی ڈاکٹر بخت آور نے ہی کیا تھا: وہی بخت آور جس کا نام ہاریوں کے حقوق کی خاطر جان دینے والی نہتّی عورت کے نام پر رکھا گیا تھا! بلاول نے اگرچہ کوئی نہ کوئی جواب ضرور دیا ہو گا لیکن سچائی یہ ہے کہ فی الحال ا ِس سوال کا جواب کم از کم پیپلز پارٹی کی قیادت کے پاس دستیاب نہیں۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)