حسن ابدال میں سکھوں کی بیساکھی

April 14, 2018

سکھوں کے سالانہ مذہبی تہوار بیساکھی کے موقعے پر ہر سال ہزاروں کی تعداد میں ملکی و غیر ملکی سکھ یاتری حسن ابدال میں پنجہ صاحب کی یاترا کے لیے آتے ہیں۔

حسن ابدال،ضلع اٹک ،پنجاب کی شمالی سرحد کے قریب واقع ایک تاریخی شہر ہے، یہ جی ٹی روڈ پر شاہراہ قراقرم کے شروع پر واقع ہے۔ راولپنڈی سے لگ بھگ 40 کلومیٹر شمال مغرب میں واقع اس قصبے کی موجودہ آبادیپچاس ہزارسے زیادہ ہے۔ حسن ابدال اپنے خوبصورت تاریخی مقامات اور سکھ مذہب کی ایک اہم عبادت گاہ گردوارہ پنجہ صاحب کی وجہ سے مشہور ہے۔

اس گردوارے میں ایک پتھر پر گرونانک جی کا پنجہ لگا ہوا ہے۔ یہ پتھر قصبے کے اندر ایک مکان میں محفوظ ہے، جو بالعموم مقفل رہتا ہے اور سکھ زائرین یا دوسرے زائرین کی آمد پر کھولا جاتا ہے۔

گرونانک سکھ مت کے بانی اور دس سکھ گروؤں میں سے پہلے گرو تھے۔ان کو ’’زمانے کا عظیم ترین مذہبی موجد‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔ رونانک کا کلام سکھوں کی مقدس کتاب، گرنتھ صاحب میں 974 منظوم بھجنوں کی صورت میں موجود ہے۔

روایت کے مطابق گرو نانک نے ایک ہاتھ سے پہاڑ سے گرتی ہوئی چٹان روک لی تھی۔

پنجہ صاحب آنے والے یاتریوں کی بڑی تعداد بھارت سے واہگہ باڈر کے راستے پاکستان پہنچتی ہے۔حسن ابدال میں پنجہ صاحب آنے والے سکھ یاتریوں میں مغربی ملکوں اور امریکہ میں بسنے والے سکھ بھی شامل ہوتے ہیں۔

ماضی میں بیساکھی کا میلہ کسی خاص مذہب سے منسوب نہیں تھا، بڑے بوڑھوں کے مطابق 1947ء سے پہلے پنجاب کے تمام کسان مذہبی تقسیم سے بالا تر ہوکر گندم اور دیگر ربیع کی فصلوں کے کٹائی پر اپنی خوشی کا اظہار کرتے تھے اور میلے منعقد ہوتے تھے۔

برصغیر کی تقسیم میں بننے والی بہت سی فلموں میں بیساکھی سے متعلقہ گیت ایک ضرورت سمجھے جاتے تھے مگر وقت بدلا تو یہ تہوار سکھوں کے مذہبی تہوار کا رتبہ حاصل کر گیا۔

حکومت پاکستان ان کے لئے خصوصی حفاظتی اور آمدورفت کے انتظامات کرتی ہے۔ان سکھوں کی میزبانی کے فرائض متروکہ وقف املاک بورڈ انجام دیتا ہے اور یہی بورڈ میلے کا بھی منتظم ہوتا ہے۔ اس بار بھی پاکستانی حکام نے میلے کے مہمانوں کی خاطر تواضع کے خصوصی انتظامات کئے ہیں۔

بیساکھی میلے کا آغاز گوردوارہ پنجہ صاحب میں "گرنتھ صاحب"کے پارٹ پڑھنے سے ہوتا ہے ۔مذہبی رسومات کے دوران یاتری گوردوارے کے درمیان واقع تالاب میں اشنان کرتے ہیں ۔

سکھ عقیدے کے مطابق اس تالاب میں نہانے سے انکے تمام کردہ گناہ دھل جاتے ہیں اوروہ گناہوں سے پاک ہو جاتے ہیں ۔گوردوارے میں بہنے والے چشمے کے پانی کو سکھ یاتری مقدس سمجھتے ہوئے اپنے ساتھ بوتلوں میں لے جاتے ہیں تاکہ جو زائرین یاترہ پر نہ آسکے وہ بھی اس سے مستفید ہو سکیں۔

تقریباب کے آخری دن بھوگ کی رسم اد ا کی جاتی ہے ۔سکھ یاتری بابا گورو نانک کی بیٹھک میں بڑی عقیدت اور انہماک کے ساتھ گرنتھ صاحب کے پاٹ پڑھتے اور سنتے ہیں ۔گوردوارے کے اندر پرساد پکائے جاتے ہیں ۔

بیساکھی کے موقعے پر مختلف مذہبی رسومات پوری کی جاتی ہیں ،سکھ یاتریوں میں نوبیاہتا جوڑے اپنی من کی مرادیں حاصل کرنے کے بعد پنجہ صاحب منتیں پوری کرنے آتے ہیں۔ تقریبات کے دوران تبرک یا پرشاد بھی تقسیم کیا جاتا ہے جسے عقیدت مند بڑے احترام سے وصول کرتے ہیں۔

گوردوارہ پنجہ صاحب میں تقریبات سے فارغ ہوکر سکھ لاہور اور ننکانہ صاحب کا رخ کرتے ہیں، جہاں گوردواروں میں جانے کے علاوہ شاپنگ بھی کرتے ہیں، بیساکھی میلے پر آنے والے بہت سے سکھ یاتری اپنے ساتھ مختلف اشیاء خصوصاً کپٹرا، سلک اور ساڑھیاں وغیرہ لاتے ہیں جنہیں مقامی دکاندار اور گاہک خریدتے ہیں، اس طرح سکھ یاتری بھی اپنے عزیز و اقارب کیلئے پاکستان سے تحائف خریدتے ہیں، یوں لاہور کے انارکلی بازار اور دیگر تجارتی مراکز کے تاجروں کو ہر سال بیساکھی کا انتظار رہتا ہے۔