Probability

April 15, 2018

Ask Marilyn ایک ہفتہ وار کالم ہے جو امریکہ کے مشہور زمانہ جریدے Paradeمیں شائع ہوتا ہے، یہ کالم ساڑھے تین سو سے زائد اخبارات تک پہنچتا ہے، اس کے قارئین کی تعداد تقریبا چھتیس ملین ہے، اس کالم میں میریلن امریکیوں کے سوالوں کے جواب دیتی ہے، گنیز ورلڈ ریکارڈ، زہال آف فیم کے مطابق میریلن کا آئی کیو چار برس تک 228ریکارڈ کیا گیا جس کی وجہ سے اسے دنیا کی ذہین ترین خاتون سمجھا جاتا ہے۔ ستمبر 1990میں میریلن سے ایک قاری نے سوال پوچھا کہ اگر کسی گیم شو میں تین دروازے دکھائے جائیں جن میں سے ایک کے پیچھے قیمتی گاڑی ہو اور دو کے پیچھے بکریاں بندھی ہوں اور کھیلنے والے کو کہا جائے کہ وہ کسی ایک دروازے کا انتخاب کرے اور جب وہ انتخاب کرلے تو میزبان (جسے پتہ ہے کہ کس دروازے کے پیچھے کیا ہے)وہ دروازہ کھول کر دکھا دے جس کے پیچھے بکری بندھی ہو اور ایک مرتبہ پھر کھیلنے والے سے پوچھے کہ کیا اب بھی وہ اپنا منتخب شدہ دروازہ بدلنا چاہے گا..... تو ایسی صورت میں کھیلنے والے کے لئے بہترین انتخاب کیا ہونا چاہئے ؟کیا اسے گاڑی جیتنے کے لئے اپنا منتخب شدہ دروازہ بدل لینا چاہئے یا نہیں؟ میریلن نے جواب دیا کہ کھیلنے والے کو چاہئے کہ وہ اپنا منتخب شدہ دروازہ تبدیل کرلے یوں اُس کے جیتنے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ میریلن کے اس جواب نے ایک طوفان کھڑا کر دیا کیونکہ لوگوں کو میریلن سے ایسے ’’حماقت آمیز‘‘ جواب کی توقع نہیں تھی، ایک بچہ بھی جانتا تھا کہ اگر دو دروازے ہوں جن میں سے ایک کے پیچھے بکری اور ایک کے پیچھے گاڑی ہو تو جیتنے کے امکانات برابر ہوں گے، انتخاب تبدیل کرنے کی صورت میں امکانات بڑھ نہیں سکتے۔ میریلن کو دس ہزار سے زائد خطوط وصول ہوئے، 92فیصد امریکیوں کا خیال تھا کہ وہ غلطی پر ہے، امریکی یونیورسٹیوں کے پی ایچ ڈی پروفیسروں کا بھی یہی کہنا تھا، حتی کہ امریکی فوج کے تحقیقی ادارے نے کہا کہ ’’اگر یہ تمام پی ایچ ڈی غلط ہیں تو پھر ہمارا ملک شدید مشکلات میں ہے۔ ‘‘حقیقت یہ ہے کہ میریلن کا جواب درست تھا، ریاضی کے پی ایچ ڈی غلط تھے۔ امریکی ٹی وی شو Let's make a Deal،جس میں لوگوں کو یوں گاڑی جیتنے کے مواقع دیئے جاتے تھے، کے اعداد و شمار کو جب کھنگالا گیا تو معلوم ہوا کہ جن لوگوں نے اپنا انتخاب تبدیل کیا وہ اُن لوگوں کے مقابلے میں دگنی تعداد میں گاڑی جیتے جنہوں نے اپنا منتخب شدہ دروازہ نہیں بدلا تھا۔ اسے probabilityکہتے ہیں۔
ہم ایک بے ترتیب دنیا میں رہتے ہیں، ایک ایسی دنیا جس میں امکانات (probabilities) کا ایک جہان آباد ہے، کہیں بھی کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے، ہماری مثال اُن مالیکیولز جیسی ہے جو خلا میں ایک دوسرے سے مسلسل ٹکراتے پھرتے ہیں، سائنس دان اِن کی حرکت کو شرابی چال سے تشبیہ دیتے ہیں اور مالیکیولز کی اِس بے ہنگم چال میں ترتیب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہماری زندگیاں بھی بظاہر ایسی ہی لڑکھڑاتی چال سے عبارت ہیں مگر اس بے ترتیب زندگی میں کچھ نہ کچھ ترتیب ضرور تلاش کی جا سکتی ہے جیسی اُن مالیکیولز کی چال میں سائنس دان تلاش کرتے ہیں۔ یہ ایک بے حد مشکل کام ہے۔ ہم میں سے زیادہ تر لوگ اپنی زندگیوں کے فیصلے جذباتی انداز میں کرتے ہیں یا پھر ہمارے ذہن میں محفوظ اُن یادداشتوں کی بنیاد پر جو کسی غیرمعمولی واقعے کی بنا پر اپنا اثر چھوڑ جائیں۔ دونوں طریقے درست نہیں۔ ہماری زندگی میں کئی بے ترتیب واقعات رونما ہوتے ہیں یا ایسے اتفاقات ہم دیکھتے ہیں جن کی کوئی توجیہہ بیان نہیں کی جا سکتی یا ایسے موقع ہمیں ملتے ہیں جن کی بظاہر ہم نے کوشش نہیں کی ہوتی، ان گتھیوں کو ممکنہ حد تک کیسے سلجھایا جا سکتا ہے۔ اسی کا نام probability ہے۔ پاسکل ایک فرانسیسی ریاضی دا ن، صرف 39برس کی عمر میں اس کا انتقال ہو گیا، مگر probabilityتھیوری کی مدد سے اُس نے خدا کے وجود کا ایسا استدلال تخلیق کیا جسے آج Pascal's wager کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر آپ کو معلوم نہیں کہ خدا وجود رکھتا ہے یا نہیں تو ہر دوصورتوں کا امکان پچاس فیصد ہے، اب اگر آپ ایک نیک زندگی گزاریں اور خدا کا وجود ہو تو آپ کی آخرت سنور جائے گی اور ہمیشہ کے لئے جنت میں رہیں گے، اس کے برعکس اگر خدا کا وجود نہ ہوا تو آپ کا ممکنہ زیاں اس زندگی کو پارسائی سے گزارنے کے سوا کچھ نہیں ہوگا، اس سود و زیاں کا حساب ریاضی کی مدد سے پاسکل نے لگایا اور یہ ثابت کیا کہ بھلائی اسی میں ہے کہ خدا کے وجود کا انکار نہ کیا جائے۔ بعض لوگ اِس بات کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منسوب کرتے ہیں مگر مجھے اس کا کوئی حوالہ نہیں مل سکا۔
Probability تھیوری کابنیادی اصول یہ ہے کہ کسی بھی واقعے کے رونما ہونے کے امکانات اس بات پر منحصر ہیں کہ وہ واقعہ کتنے مختلف طریقوں سے وقوع پذیر ہو سکتا ہے۔ مثلاً،ا ٓپ پانسہ پھینکیں، اس بات کا امکان 1/6ہے کہ ایک سے چھ تک کوئی بھی عدد آجائے، یعنی تمام اعداد کا امکان برابر ہوگا، لیکن اگر آپ دو پانسے پھینکیں تو پھر کوئی سے دو اعداد کا مجموعہ آنے کا امکان برابر نہیں رہے گا، جیسے دوپانسے پھینکنے کی صورت میں اگر آپ چاہتے ہیں کہ مجموعہ 2 آئے تو یہ امکان 1/36ہے کیونکہ 2حاصل کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ دونوں پانسوں پر 1کا عدد ہی آئے اور یہ 36مختلف طریقوں میں سے ایک طریقے سے ہی ممکن ہے، اسی طرح اگر آپ 3 کا مجموعہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو پھر یہ دو مختلف طریقوں سے پانسے پھینک کر آ سکتا ہے (پہلے 1پھینک کراور پھر 2پھینک کر یا پہلے 2اور پھر 1پھینک کر)، گویا 3کے مجموعے کا امکا ن 2کا مجموعہ حاصل کرنے کے مقابلے میں دگنا ہے، اِن ممکنہ طریقوں کے علاوہ پانسوں کے ذریعے 2یا 3کا مجموعہ حاصل کرنے کا اور کوئی طریقہ نہیں۔ زندگی پہلے ہی کافی پیچیدہ ہے۔ یہ پانسوں کا کھیل نہیں۔ مگر حقیقی زندگی میں یہی اصول کارگر ہے گو کہ ہم اس کا استعمال نہیں کرتے۔ مثلاً ایک ملک میں ایوان بالا کے انتخابات مقررہ تاریخ پر ہونے تھے، حالات مگر ایسے تھے کہ لگتا تھا یہ انتخابات نہیں ہو پائیں گے، وجہ اس کی یہ تھی کہ قوم کی یادداشت میں کچھ ایسے واقعات محفوظ تھے جن کا اثر اب تک باقی تھا سو اپنے ماضی کے تجربات کی بنیاد پر(نفسیات دان اسے availability biasکہتے ہیں ) قوم کو تقریباً یقین دلایا گیا کہ ایوان بالا کے انتخابات سے پہلے ’’کچھ ‘‘ ہو جائے گا۔ کسی نے البتہ یہ جاننے کی کوشش نہیں کی یہ ’’کچھ ‘‘ کیا ہے، کیسے ہو گا، یہ کتنے ممکنہ طریقوں سے ہو سکتا ہے اور اُن ممکنہ طریقوں کا کتنا امکان ہے! نتیجہ یہ نکلا کہ انتخابات ہوگئے اور وہ تجزیہ نگار ماتم کرتے ہی رہ گئے جو availability biasکا شکار تھے۔ مستقبل کے واقعات کا اندازہ بھی اسی طرح لگایاجا سکتا ہے، جن باتوں کی آج پیشین گوئی کی جا رہی ہے کیا اُن باتوں کا وقوع پذیر ہوناممکن ہے، اگر ممکن ہے تو اس کا کتنے فیصد امکان ہے ؟تعصب کی عینک اتار کر اِن باتوں کا جواب تلاش کرلیں، دھندلایا ہوا منظر کسی حد تک صاف نظر آنے لگے گا، یہی probabilityتھیوری بتاتی ہے۔ باقی کارخانہ قدرت سے کیا ظہور میں آتا ہے کوئی نہیں جانتا۔
نوٹ:Probabilityکے موضوع پر بہترین کتاب کا نام Drunkard's Walkہے اور اِس کالم میںدرج واقعات اور تشبیہات وہیں سے مستعار لئے گئے