قومی اسمبلی کمیٹی،گرینڈ حیات ہوٹل کے دو ایف آئی اے افسران کا متضاد موقف

April 20, 2018

اسلام آباد (رانا غلام قادر نیوز رپورٹر) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکریٹر یٹ میں جمعرات کو اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہوگئی جب ایف آئی اے کے دو افسران نے گرینڈ حیات ہوٹل کی انکوائری پر بالکل متضاد موقف اپنایا۔ ڈپٹی ڈائریکٹر جمیل احمد خان نے کہا کہ گرینڈ حیات ہوٹل کیس میں سی ڈی اے کی ملی بھگت سےفراڈ کیا گیا ہے جبکہ ڈائریکٹر سائبر کرائم کیپٹن (ر) شعیب نے کہا کہ فائل میں کوئی ایسی بات نہیں ہے یہ محض ناول نگاری ہے کوئی جرم نہیں کیا گیا۔ کمیٹی کے چیئرمین رانا محمد حیات خان نے سر پیٹ لیا اور کہا کہ یہ تو ایف آئی اے آپس میں ہی الجھ گئی ہے۔ ڈی جی نے کسے میٹنگ اٹینڈ کرنے کیلئے بھیجا ہے۔ دو نوں نے ڈی جی آفس کا خط دکھا دیا۔ یہ صورتحال کمیٹی کو دی گئی بریفنگ میں پیش آئی۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ معاملہ اس وقت سپریم کورٹ میں ہے۔ رانا محمد حیات خان نے کہا کہ ہم چیف جسٹس آف پا کستان سے اپیل کرتے ہیں کہ بنچ بنا کرکئی سال سے زیر التواء اس معاملے کا جلد سے جلد فیصلہ کیا جا ئے۔ ڈائریکٹر ایف آئی اے نے بتایا کہ ایف آئی اے کے پاس 2010میں سورس رپورٹ آئی تھی جس پر 2011میں انکوائری کا حکم د یا گیا۔ یہ انکوائری دبی رہی پھر اسے لاہور منتقل کیا گیا اور مئی 2017 میں ایف آئی آر درج کی گئی۔عبوری چالان پیش کیا گیا۔ پلاٹ کی تعمیر کو ری شیڈول کیا گیا ہے مگر سول ایوی ایشن اتھارٹی نے این او سی دینے میں دیر کی۔اپارٹمنٹس بیچنے پر اعتراض ہوا ہے لیکن سب لیز کی اجازت بھی ہے۔ سی ڈی اے افسروں کا بیان لینے کی بجائے سوالنامہ بھیجا گیا۔ یہ پلاٹ زون تھری میں ہے لیکن اسے زون فور ظاہر کیا گیا ۔ ایف آئی آر میں لکھ دیا گیا کہ 25ارب کا فراڈ کیا گیا ہے۔ میری انکوائری کے مطابق ایف آئی اے نے صحیح رپورٹ نہیں کیا۔ کیس کی تحقیقات کرنے والے افسر ڈپٹی دائریکٹر جمیل احمد خان نے کہا کہ تحقیقات ڈی جی کے حکم پر ایس آئی یونے کی تھی۔ لاہور اسلئے کیس شفٹ کیا گیاکہ اسلام آباد والے کام نہیں کر رہے تھے۔ ہم نے صحیح ایف آئی آر درج کرائی ہے۔ میں اس بات پر قائم ہوں کہ ار بوں روپے کا فراڈ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بی این پی گروپ نے ساڑھے تیرہ ایکڑ کا پلاٹ چا ر ارب اسی کروڑ روپے کی آفر دے کر خرید لیا، اس میں چار کمپنیوں کا کنسو رشیم تھا ۔ بعد میں سی ڈی اے جب ایگریمنٹ کیا گیا تو تین کمپنیاں غائب ہوگئیں اور ایک نئی بی این پی کمپنی نے سی ڈی اے سے2004 میں معاہدہ کیا۔ ابتدا ء میں صرف پندرہ فیصد رقم جمع کرائی گئی ۔صرف 71 کروڑ روپے جمع کرائے گئے ۔ 2010تک ایک بھی قسط جمع نہیں کرائی گئی۔بنک گارنٹی دے کر سی ڈی اے کی ملی بھگت سے واپس لے لی گئی۔ پر فا رمنس گارنٹی نہیں لی گئی۔ صرف پندرہ فی صد رقم دے کر بنک آف پنجاب سے اڑھائی ارب کے قرضہ کی سہولت لی گئی ۔ یہ رقم بھی بنک کو واپس نہ دی گئی جس پر نیب نے ایکشن لیا۔ انہوں نے پلاٹ میں سے اراضی بنک کو الاٹ کر دی جو غلط ہے۔ ہوٹل چونکہ انٹر نیشنل معیار کا بنا نا تھا سلئے سروس اپارٹمنٹس بننے تھے جنہیں فروخت کرنے کی اجازت نہیں تھی لیکن اپارٹمنٹس فروخت کرکے چھ ارب چالیس کروڑ روپے حاصل کئے گئے۔بی این پی کے مالک حفیظ پا شانے کہا کہ ہمیں قبضہ ہی 2007میں دیا گیا۔ پھر زلزلہ کے بعد بلڈنگ کوڈ تبدیل ہو گیا۔ لیز پر چاروں کمپنیوں کے دستخط ہیں۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی نے اعتراض کیا جس کی وجہ سے تاخیر ہوئی۔ سی ڈی اے کے ممبر اسٹیٹ مینجمنٹ خوشحال خان نے کہا کہ یہ معاملہ ہائیکورٹ میں گیا تھا۔ مسٹر جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلہ دیدیا کہ سی ڈی اے پلاٹ کا قبضہ لے۔ اپارٹمنٹس لینے والوں کو ادائیگی کی جائے۔ سی ڈی اے لیز منسوخ کر چکا ہے۔ جمیل احمد خان نے بتایا کہ 13مارچ 2018 کو چیف جسٹس سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ وزیراعظم کی بنائی گئی کمیٹی کی انکوائری یا سی ڈی اے کی انکوائری رپورٹ پر عمل نہ کیا جائے۔ نیب نے اس ایشو کی تحقیقات کی منظوری دیدی ہے۔کمیٹی نے تین بلوں کی منظوری دی جن میں شائستہ پرویز ملک کا معذوروں کے حقوق کے تحفظ کا بل 2017،آسیہ ناز تنولی کا طلبہ کا منشیات کالازمی ٹیسٹ کرانے کا بل اور شاہدہ رحمانی کا تعلیمی اداروں میں منشیات کا لازمی ٹیسٹ بل 2018 شامل ہیں۔ شاہدہ رحمانی نے کہا کہ آج کل تعلیمی اداروں میں منشیات کا استعمال عام ہے۔ اسے رو کا جا ئے ۔ سال میں ایک مرتبہ ہر طالب علم کا لازمی ٹیسٹ کر ایا جائے۔کمیٹی نے سی ڈی اے (ترمیمی ) بل 2018 میں مزید ترمیم کی ہدایت کر دی۔ کمیٹی نے رائے دی کہ سی ڈی اے افسروں پر پابندی نہ لگائی جائے کہ چیئرمین نہیں بن سکتے۔کمیٹی نے سی ڈی اے کو ہدایت دی کہ اسلام آباد میں کچی آبادیوں اور غیر قانونی ہائوسنگ سوسائیٹوں کی مشروم گروتھ رو کا جائے۔ کمیٹی نے ہدایت دی کہ جو قانونی کچی آبادیاں ہیں وہاں دو منزلہ مکان بنا نے کی اجازت دی جائے البتہ بلڈنگ بائی لاز کے مطابق تعمیر ہونی چا ہئے۔ کمیٹی نے سب کمیٹی کی رپورٹ منظور کرتے ہوئے سی ڈی اے کو ہدایت دی کہ نرسریوں کے متاثرین کو متبادل جگہ دی جائے اور اس پلان کو پندرہ دن کے اندر حتمی شکل دی جا ئے۔ سیکٹر ای 12 کے متاثرین سے پیکج ڈیل کیلئے صدارتی آرڈی نینس جاری کیا جائے اور بل سینٹ میں پیش کیا جائے۔ کمیٹی نے نیپرا کو ہدایت دی کہ کراچی میں بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ ختم کرائی جائے۔ کے الیکٹرک کا بند پلانٹ فوری طور پر چالو کیا جائے۔ کے الیکٹرک کو گیس فراہم کی جائے۔آر ایل این جی کا کنٹریکٹ کیا جائے۔ ایم کیو ایم کے ایم این اے علی رضا عابدی نے کہا کہ کراچی میں بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کی جارہی ہے۔ 500 میگا واٹ کا شارٹ فال ہے۔ نیپرا بھی ریگولیٹر کا کردار ادا کرنے میں نا کام ر ہا ہے۔ نیپرا کے وائس چیئرمین سیف اللہ چٹھہ نے بتایا کہ اس وقت کے الیکٹر ک 2200 میگاواٹ بجلی فراہم کر رہا ہے۔کراچی کی ڈیمانڈ 2800 میگاواٹ ہے۔چار سے بارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کی جارہی ہے۔سوئی گیس کمپنی جو190ایم ایم سی ایف گیس دیتی رہی ہےاب صرف 100 ایم ایم سی ایف دے رہی ہے۔90ایم ایم سی ایف گیس مل جا ئے تو 450 میگا واٹ بجلی مل سکتی ہے۔اجلاس میں ممبران قومی اسمبلی سید علی رضا عابدی ، سردار عرفان ڈوگر ، ملک ابرار احمد ، اسد عمر ، شہناز سلیم ، مو لوی آ غا محمد ، سیما محی الدین جمیلی ، نفیسہ عنایت اللہ خٹک نے شرکت کی۔سی ڈی اے کے ممبر پلاننگ اسد کیانی ۔ ایڈیشنل سیکرٹری کیڈ ڈاکٹر جمال یوسف نے بھی بریفنگ دی۔