سر رہ گزر

April 23, 2018

ووٹ کا تقدس
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے:ووٹ کی عزت، لوگوں کو ان کا حق دینا ہے۔ کوئی بھی شخص ووٹ اس لئے دیتا ہے کہ جسے ووٹ دے رہا ہے وہ اسے اس کا حق دلائے گا، یہی ووٹ کی عزت، ووٹ کا تقدس ہے، حق نہ دیا ووٹ لے لیا تو یہ سیاسی نوسربازی ہے، ووٹر اعتماد کر کے اپنی قیمتی رائے دیتا ہے، جس کو بیچ کر ووٹ لینے والا اپنی تجوری بھرتا ہے اور اس کے بعد تو کون اور میں کون، ایک انسان، ایک انسان کو قتل کر دیتا پکڑا جاتا ہے سزا ملتی ہے تو کہتا ہے میرے ساتھ انصاف نہیں ہوا یہ انسانیت کی توہین ہے، کیا ایسے شخص کی ایسی بات میں کوئی وزن ہو سکتا ہے؟ خدا کا شکر ہے کہ آج ووٹ کی عزت بحال کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں، اور یہ باتیں اگر عمل نہ بنیں تو باتیں ہیں باتوں کا کیا، یہ نہایت اہم بات چیف جسٹس نے کہی کہ زندگی اپنے حقوق کی آواز بلند کرنے کیلئے ہے گویا اپنے حق کے چھن جانے پر خاموش رہنا موت ہے، اور اگر کوئی قوم، معاشرہ یا فرد اپنے حق کیلئے آواز بلند نہ کرے تو وہ مردہ ہے، اور آواز بلند کرنے پر حق دبانے والا حق نہ دے تو وہ قاتل ہے۔ جمہوریت سیاست عطا کرتی ہے سیاست حکومت دیتی ہے اور حکومت لینے والا ہی ذمہ دار ہوتا ہے کہ وہ اپنے زیر انتظام لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق بہر صورت دے ورنہ وہ حق حکمرانی کھو بیٹھتا ہے، اس کے باوجود بھی کوئی حکمرانی مسلط کرے تو وہ آمر بھی ہے جابر بھی، چاہے وہ لاکھ کہے کہ وہ ووٹ کے ذریعے برسراقتدار آیا ہے، حق حکمرانی لوگ ہی دیتے ہیں تو پھر انہیں ان کا حق کیوں نہیں دیا جاتا، اگر ایک بستی میں چند پسندیدہ افراد کو حکمران سارے حقوق دیدے اور باقی ساری بستی کو محروم رکھے تو یہ ہے ووٹ کی اجتماعی بے عزتی، یہ امر باعث تسکین ہے کہ ملک بھر میں آج ووٹ کو عزت دو کا نعرہ بلند ہو رہا ہے، مگر دھیان رہے کہ یہ نعرئہ بے معنی نہ ہو اور اگر صرف لفظی ثابت ہو اور وطن عزیز میں حق رسی نہ ہو حق تلفی جاری رہے تو پھر عوام جن کو طاقت کا سرچشمہ کہہ کر اس کی طاقت سے عوام کے نمائندے خود طاقتور بنیںپھر عوام بھی انہیں ٹشو پیپر کی طرح استعمال کریں۔
٭٭٭٭
نہ چھیڑ ملنگاں نوں
اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا ہے:ادارے آپس میں لڑ رہے ہیں، کوئی جمہوری عمل میں مداخلت کر رہا ہے، نظام جیسا بھی ہے چلنا چاہئے، شاہ جی سرکار کے بیان کا بیانیہ یہ ہے کہ تالاب سے اتنا پانی نہ نکالو کہ ہم اس میں تیر بھی نہ سکیں، انہوں نے یہ نہیں فرمایا کہ سارا جل خراب ہو جائے تو کنویں سے سو ’’بوکے‘‘ نکالنا ہی پڑتے ہیں، تاکہ اس پانی سے وضو کیا جا سکے، نظام تو نظام سقہ بن چکا ہے اور وہ کہتے ہیں اسے جوں کا توں رہنے دیا جائے، اگر چلتے رہنے سے بہتری نے آنا ہوتا تو 70سال میں آ چکی ہوتی، یہ کیوں نہیں کہتے کہ زنگ آلود، کرم خوردہ، غلیظ اور کرپٹ نظام کو بدلنا ہو گا، ادارے اگر آپس میں لڑ رہے ہیں تو جب معلوم ہے تو کیوں قوم کو نہیں بتاتے کہ کیوں لڑ رہے ہیں؟ اپوزیشن لیڈر کے لیڈر اور انکی پارٹی کا نظام چونکہ دودھوں دھلا ہوا ہے اسلئے وہ کہتے ہیں کہ اسے چلنے دیں یہ رکا تو جمہوریت کو خطرہ ہے، خدا کے لئے ہر غلاظت کو پاک صاف ثابت کرنے کیلئے مظلوم جمہوریت کو مزید استعمال نہ کریں، بہتر ہے کہ جو سلسلہ چل نکلا ہے ’’چھیر خوباں سے چلی جائے اسدؔ‘‘ کا اسے ہی چلنے دیا جائے اور شاید وہ اب روکے رکے گا بھی نہیں۔ وہ اپنی پارٹی کی سندھ میں حکومت کے نظام کا بھی جائزہ لیں کہ وہ کس قدر خوش اسلوبی سے چل رہا ہے، کون ہے جو جمہوری عمل میں مداخلت کر رہا ہے؟ یہ تو بتائیں! آج کراچی میں جو حالات ہیں ان کو بگاڑنے میں کس کا ہاتھ ہے پہلے اس کی تو تحقیق کر لیں، جمہوریت سے اتنا ہی پیار ہے تو اپنی جماعت کو موروثی سیاست سے پاک کریں تاکہ پارٹی کے اندر تازہ ہوا چلے اور جمہوریت مہکے، بحیثیت اپوزیشن لیڈر عوام کے کتنے مسائل حکومت سے حل کرائے ہیں کسی ایک کا ذکر ہی فرما دیں، ہمارے ہاں تو یہی جمہوری نظام ہے کہ ایک اقتدار میں رہے دوسرا منتظر اور اسی کو جمہوری نظام کہتے ہیں جس کے چلتے رہنے کا آپ اہتمام کرتے ہیں، اور اسی باری کے منتظر کو اپوزیشن بھی کہا جاتا ہے۔
٭٭٭٭
معاملہ سیریس ہے
گلوکارہ اداکارہ میشا شفیع کہتی ہیں:ہراساں کرنا، صرف ہاتھ ملانے اور گلے ملنے کی حد تک نہیں تھا بلکہ اس سے بڑھ کر تھا، ہر خاتون قابل صد احترام ہے اور خواتین ہر گھر میں ہوتی ہیں ہم بصد خلوص و ادب میشا جی سے یہ گزارش کرتے ہیں کہ وہ یوں انتہائی قسم کے بیانات عوام الناس میں عام کرنے کے بجائے معاملہ عدالت لے جائیں، تاکہ ان کے ساتھ اگر علی ظفر کی جانب سے ہراسگی ہوئی ہے تو وہ ثابت ہو اور ان کے مجرم کو قرار واقعی سزا ملے، اسی طرح اگر وہ خود ہی بیانات دیں گی تو سمجھا جائے گا کہ وہ ذمہ دار کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، اگر ان کی بے عزتی ہوئی ہے تو اس کا فیصلہ عوام نے نہیں کرنا اس کے لئےعدالتیں موجود ہیں، صرف میڈیا پر اظہار تو مزید ان کی اور علی ظفر کی رسوائی، جگ ہنسائی کا باعث بنے گا وہ جو کچھ کہہ رہی ہیں اسے عدالت میں ثابت کریں ورنہ یہ تہمت دھرنے کی کوشش ہو گی اور تہمت لگانا بہت بڑا گنا ہ ہے۔ شوبز کے کرتا دھرتا افراد سے بھی درخواست ہے کہ یہ معاملہ بڑھتا جا رہا ہے وہ اس کا نوٹس لیں، ورنہ ان کے سیٹ ویران ہو جائیں گے اور کوئی خاتون کیمروں کے سامنے نہیں آئے گی، صرف واویلا کرنے سے مزید بدنامی ہو گی اور شوبز میں اس طرح کی دست درازیاں بڑھیں گی، پروڈیوسرز، فلم میکرز اور دیگر ذمہ داران میشا کو اکیلا نہ چھوڑیں ان کی شکایت کو مناسب فورم تک پہنچائیں اور اپنا گھر درست کریں، شوبز ایک پلیٹ فارم ہے جہاں فنون لطیفہ کی آبیاری ہوتی ہے، کوشش کی جائے کہ اس طرح کے واقعات نہ ہوں اور اگر کوئی کسی کی کردار کشی کے لئے یہ سب کچھ کرا رہا ہے تو اس کا بھی پتا چلائیں پاکستانی شوبز پہلے ہی نیچے جا رہا ہے اگر اس نوعیت کے اسیکنڈلز پر بھی شوبز کے اہم لوگ خاموش رہیں گے تو یہ شعبہ مزید مسائل سے دوچار ہو گا۔ شاید میشا اس لئے بھی ہر روز ایک بیان داغ دیتی ہیں کہ از خود نوٹس لیا جائے، بہرحال ہماری مخلصانہ رائے ہے کہ وہ لوگوں میں شور مچانے کے بجائے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں آخر وہ علی ظفر کے خلاف کیس کیوں دائر نہیں کرتیں؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)