جِلا وطن....’’تصدیق سہیل‘‘

April 29, 2018

مارک ٹوئن نے کہا تھا کہ’’ فکشن کو قابلِ یقین ہوناچاہیے،زندگی کی طرح ناقابلِ یقین نہیں۔‘‘ لیکن زندگی میں بعض کردار ایسے بھی ملتے ہیں جو کسی افسانے یا ناول ہی کے کردار نظر آتے ہیں۔ حال ہی میں ہم سے جداہوجانے والے معروف مصّور، تصدّق سہیل یقینا ایک افسانوی کردار تھے۔اُن کے دوست اوراُردوزبان کے صف ِ اوّل کے ناول نگار، عبداللہ حسین کے افسانوی مجموعے ’’نشیب‘‘ کے افسانے ’’جلاوطن‘‘ کے مرکزی کردار کے مزاج سے تصدّق سہیل کا انداز ِ زیست خوب مماثل تھا۔

وہ مرکزی کردار اکیلا رہتا ہے، گھر میں پرندے پال رکھے ہوتے ہیں اور اپنے جداگانہ طرز ِزندگی کے باعث عام روزمرّہ زندگی بسر کرنے والوں کے طنز و مذاق کا نشانہ بنتا رہتا ہے۔ تصدّق سہیل بھی تنہا رہتے تھے ، گھرمیں پرندے پالے ہوئے تھے اور اپنے مخصوص انداز ِ حیات، اپنی زندگی کو اپنی مرضی کے مطابق، نہ کہ معاشرے کی خواہش کے مطابق بسر کرنے کے باعث عامیوں کے مذاق کا نشانہ بن جاتے تھے۔

میری اُن سے قریباً پندرہ برس سے ہرہفتے، اتوار کے روز ملاقات ہوتی تھی۔عجب آدمی تھے ، بے لوث اور سراپا فن کار۔ وہ پچھلے پچاس برس سے سرِشام سوجاتے تھے، صبح تین بجے اُٹھتے، فریج سے گوشت نکال کر اسے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بہت احتیاط اور توجّہ سے کاٹتے، تاکہ اس میں کوئی ہڈی یا کوئی ٹکڑا بڑا نہ رہ جائے۔ پھر ایک بڑے تھال میں گوشت رکھ کر پڑوس میں نکل جاتے۔ اطراف کی سڑکوں پر پرندے اُن کے منتظر ہوتے۔ یہ کووں،چیلوں اور دیگر پرندوں کو بہت محبت سے گوشت کھلاتے اور لوٹ آتے۔انھوں نے انگلینڈ میں ساری جوانی، ادھیڑعمری اورابتدائی بڑھاپا گزارا۔ برطانیہ میں ان کا چار دہائیوں سے بڑھ کر قیام تھا، تو قریبی جنگل میں جنگلی لومڑوں اور دیگر جان وَروں کو کھانا دیتے تھے۔

ایک مرتبہ میں نے اُن سے گوشت کاٹنے پر اتنا وقت صرف کرنے کی وجہ پوچھی، تو بولے’’پرندوں کے حلق چھوٹے ہوتے ہیں۔ ابتدا میں بڑے ٹکڑے ڈالتا تھا، تو چند ایک بار دیکھا کہ گوشت کے دوسرے حصے پرندوں کے حلق میں اٹک جاتے ہیں اور اُن کا دم گھٹ جاتا ہے۔ چناں چہ میں نے جب انھیں زمین پر تڑپتے دیکھا، تو چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرنے لگا۔‘‘

میں پہلی مرتبہ اُن کے فلیٹ پر گیا، تو وہاں ایک موہوم ناگوار بوپھیلی ہوئی تھی۔ دروازے سے اُن کے پینٹنگ کرنے والے کمرے تک جاتے ہوئے ایک بلّی میرے آگے سے گزرکرسامنے والے صوفے پربیٹھ گئی،بالکونی پر لٹکتے پنجروں میں مختلف پرندے ایک اجنبی کو دیکھ کرپرَ پھڑپھڑانے لگے۔ گھر میں وہ بساند پنجرے کے پرندوں کے علاوہ روزانہ مٹی کی کٹوریوں میں باجرہ، دانا، دُنکا چگنے اورپانی پینے کے لیے بالکونی میں اُترآنے والے رنگ برنگے پرندوں کی آمدورفت اوربیٹوں کی وجہ سے تھی۔

جب مجھے اُن سے ملتے دس برس گزر گئے، تو ایک روز میں نے تصدّق صاحب سے پوچھا’’میں پچھلے دس برس سے آپ کے ہاں آرہا ہوں۔ ہماری دنیا جہاں کے ہر موضوع پر گفت گو ہوتی رہی ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں میں کون ہوں، کہاں رہتا ہوں اور کیا کرتا ہوں؟‘‘یہ سن کر وہ درویش صفت مصّور گہری سوچ میں گم ہوگئے۔ تھوڑی دیر بعد میری طرف دیکھا اور بولے ’’واقعی، میں نے تو آپ سے آج تک پوچھا ہی نہیں کہ آپ کہاں رہتے ہیں اور کیا کرتے ہیں۔بتایئے، آپ کہاں رہتے ہیں اور کیا کرتے ہیں؟‘‘میں یہ سن کر ہنس دیا۔ اُن سے متعلق بعض واقعات غیرحقیقی لگتے ہیں۔ ایک واقعے کے گواہ اُن کے قریبی عزیز اور ایک آرٹ ڈیلر بھی ہیں۔ ایک مرتبہ اُنھیں چند پینٹنگز کمیشن کی گئیں اور ایڈوانس میں بتیس لاکھ روپے دیے گئے۔

وہ بینکاری نظام پر زیادہ یقین نہیں رکھتے تھے۔ یہ رقم کیش میں دی گئی۔ اگلے روز اُن سے اُس خطیررقم کا پوچھا گیا، توبولے کہ ایک ملازمت پیشہ ضرورت مند خاتون اُن کے پاس آئی تھی۔ اُس نے اپنے شوہر کی بے روزگاری اور بچّوں کی بیماری کی داستان انھیں سنائی، تو اُن سے رہا نہیں گیا۔ سارے کے سارے روپے خاتون کو تھما دیے۔اگلی صبح وہ خالی ہاتھ بیٹھے تھے۔ وہ تنہائی پسند تھے، اُن کے تحریرکردہ افسانوں کے مجموعے کا نام بھی ’’تنہائی کا سفر‘‘ ہے۔اپنے عزیزوں ، رشتے داروں سے تو بالکل بھی نہ ملتے تھے۔کہتے تھے ’’خاندانی معاملات اور الجھنیں میری یک سوئی کو متاثر کرتی ہیں۔‘‘ اُن کی تین بہنیں تھیں۔

دوبہنیں معاشی طور پر خاصی خوش حال تھیں۔ ایک بہن اُن کے آبائی شہر شیخوپورہ میں بیوگی اور غربت میں زندگی بسر کررہی تھی۔ یہ بات تو بہت بعد میں جاکر کھلی کہ وہ اُس بیوہ بہن کو خاموشی سے ہر ماہ ایک مناسب رقم بھجوادیا کرتے تھے اور کسی سے تذکرہ نہ کرتے تھے۔وہ کراچی میں قیام پزیر تھے، جب کہ بہنیں اسلام آباد،لاہور اور شیخوپورہ میں سکونت رکھتی تھیں۔ اُن میں تنہا رہنے کے ساتھ ساتھ خودمختار زندگی کی خواہش غایت درجے کی تھی۔ اس خواہش نے اُنھیں بہت نقصان بھی پہنچایا ۔چند مرتبہ نامعلوم واقفانِ حال اُن کے فلیٹ میں داخل ہوگئے، بزرگ فن کار کو مارا پیٹا اور رقم لے اُڑے۔

ایک مرتبہ معلوم ہوا کہ زخمی حالت میں ہیں۔ عیادت کے دوران معلوم ہوا کہ ایک آرٹ ڈیلر نے اُنھیں بے ہوش کردینے والا نشہ آور مشروب پلایا تھا اورتصویریں لے اُڑا تھا۔وہ نیم بے ہوشی کے عالم میں کمرے میں ٹکراتے پھرے تھے اور کسی نوک دار شے سے زخمی ہوکر بے ہوش ہوگئے تھے۔ اگلے روزملازمہ نے اُنھیں اس حالت میں دیکھ کر شور مچادیا تھا۔ تہذیبی طور پرپس ماندہ ہوتے سماج میں،اکیلے رہنے والے بوڑھے لوگوں کے ساتھ ایسا بہیمانہ سلوک، معاشرے کے حیوانی بدن سے منافقت کی قبائے ململ اُتارپھینکتا ہے۔

خیال آتا ہے کہ اُن کی بیوی، بیٹی یا بیٹا ہوتے، تو شاید وہ ایسے افسوس ناک سلوک سے بچ جاتے۔ پھر خیال آتا ہے کہ تب وہ اتنے بڑے قدرتی خود پرداختہ فن کارنہ ہوتے، سبزی کا تھیلا اٹھائے گلی میں جاتے عام بزرگ ہوتے۔ ان کی آزاد روی نے عالمِ فن کو توکئی تحائف دیے، پر ذاتی سطح پر انھیں اس کے لیے بہت کچھ قربان بھی کرنا پڑا۔

بہت سی ملاقاتوں میں شکایت کرتے کہ اُنھیں صحیح سنائی نہیں دیتا،لوگ باگ اپنے مقاصد سے آتے ہیں، کوئی ان کاغم خوار اور خیرخواہ نہیں۔میں انھیں ڈاکٹر کے پاس لے گیا، اُس نے معائنہ کرکے کان صاف کردیے اور کہا کہ یہ چالیس پچاس برس کی صفائی ہے۔ اس کے بعد کئی روز تک صاف آواز سن کر بچے کی طرح خوش خوش اِٹھلاتے پھرے۔ بہت سی خوش گوارمعطریادیں بھی ہیں۔وہ بعض مرتبہ آنکھوں کے ڈاکٹر پی ایس مہر اور دیگر کئی نے انھیںپہچان کر ان کے فنّی مرتبے کے باعث فیس لینے سے انکار کردیا۔ انھوں نے ساری عمر شادی نہ کی تھی اور ایک ہی شخص کے ساتھ ساری زندگی گزار دینے کے خیال سے لرز جانے کا اظہار کیا تھا۔

آخری عمر میں اپنی مداح، ایک چینل کی غیرمعروف اینکر پرسن سے جو ملاقاتوں کے لیے آتی تھی، شادی کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔ جذبات دو طرفہ نظر آتے تھے۔ وہ خاتون چند ماہ اُن کے ہاں نظر آتی رہی، پھر یک دم غائب ہوگئی۔ بعد ازاں اُن سے دریافت کیا گیا، تو وہ گم صم سے ہوگئے۔اُن کے بھانجے نبیل رانا،جواُن کے غم خوار اورخیرخواہ بھی تھے،بتاتے ہیں کہ’’کراچی کی ایلیٹ کلاس کی ایک شادی شدہ فیشن ایبل خاتون ان کے ہاں اکثر نازوادا کے ساتھ جلوہ گر نظر آتی۔ کبھی وہ تصدّق صاحب سے لاڈ بھری فرمائشیں کرتی، تو کبھی مصنوعی خفگی کا اظہار۔ تصدّق صاحب سادہ مزاج آدمی تھے۔ کئی مرتبہ اپنی بیش قیمت، اعلیٰ فنی معیار کی حامل تصاویر اسے تحفتاً بھی دے دیتے۔

کچھ عرصے بعد وہ خاتون ان کے ہاں نظر آنا بند ہوگئی۔ اتفاقاً بھانجے کی ملاقات اس خاتون سے ایک سفارت خانے کی تقریب میں ہوگئی۔اُنھوں نے خاتون سے نظر نہ آنے کی وجہ پوچھی، تو بولی ’’اب مَیں اِس لیے وہاں نہیں جاتی کہ میرا مقصد پورا ہوگیا ہے۔‘‘ ایسے حادثات کسی عام شخص کو کڑوا کردیتے۔ اس کے برعکس تصدّق صاحب ہروقت اپنے فن میں مستغرق کِھلے کِھلے، مسکراتے نظر آتے۔ چاہنے والوں نے ان کے ساتھ تصویر بنوانی ہوتی، تو کبھی ہیٹ پہن کر پوز کرتے، تو کبھی قصداً مضحکہ خیز پوز دے کر خود بھی ہنستے اور مداحین کو ہنسا کر بھی خوش ہوتے۔ وہ کسی بھی زیادتی اور دکھ کو زیادہ دیر اپنے دل میں مہمان نہ رکھتے تھے ،سب بھول کر خودمگن، بُت شکن ہوجاتے۔

تصدّق سہیل کسی خاص پلاننگ کے تحت پینٹنگ نہیں کرتے تھے بلکہ کینوس پر رنگ لگا کر چھوڑ دیتے تھے۔ اس کے بعد دیکھتے، توبعض اوقات انھی رنگوں سے کوئی تصویر نمایاں ہوتی نظر آتی تھی۔ اُسے وہ بہت توجّہ سے پینٹ کردیتے تھے۔ گویا یہ شعوری کوشش نہیں ہوتی تھی بلکہ اس میں ان کا لاشعور اور تحت الشعور کارفرما تھے۔ وہ کہتے تھے کہ میں آج بھی اُسی دَور میں زندہ ہوں، جب انسان نے اس خوب صورت دنیا کو پامال نہ کیا تھا، یہاں کنکریٹ کی عمارتیں، تارکول کی سڑکیں، گندگی اور قدرتی عناصر پر تجاوزات موجود نہ تھیں۔ وہ گھنے جنگلوں، کنوارے چشموں، پرندوں، جان وَروں اور جنگلوں کے بیچ ذہنی طور پر زندگی بسر کرتے تھے۔

دیکھا جائے، تواُنھوں نے صحیح معنوں میں ایک فن کار کی آزاد زندگی بسر کی۔ وہ کسی ضرورت کے تحت اپنے اندر سے اُبھرنے والی اور فن کارانہ جبلّت کے بطن سے جنم لینے والی خواہش کے تحت مصّوری کرتے تھے۔ دنیادارتو وہ قطعی طور پر نہ تھے۔ سو معاشی، سیاسی، معاشرتی یا کوئی اور مفاد ان کے پیشِ نظر نہ ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ میں نے اُن سے درخواست کی کہ ایک ایسی پینٹنگ تخلیق کردیں، جس میں عورت کے مانند ایک درخت ہو، جس میں سے مردانہ شبیہوں والی شاخیں نکل رہی ہوں۔ یہ ابتدائی مادرسری معاشرے کی علامت ہو جس میں عورت کی کوکھ سے جنم لینے والے مردوں کا اُس پر انحصار ظاہر ہو۔ تصدّق صاحب نے اس خیال پر غور کیا۔

گمان تھا کہ چوں کہ وہ درخت،شاخیں اورپرندے خواب ناک تجریدیت میں بہ طورعلامات کے برتتے رہے ہیں سو، ایسی تخلیق میں آسانی محسوس کریں گے۔ چند ماہ بعد انھیں مودبانہ یاد دہانی کروائی، تو سوچتے رہے اور مسکراتے ہوئے کہنے لگے کہ وہ اپنے اندر کی آواز ،ذہنی رَو اور ناقابلِ بیان تشبیہ کے زیرِ اثر ہی، جو کبھی اُن کے ذہن میں جھلک دکھلا جاتی ہے، کوئی تخلیق مصّور کرتے ہیں۔ سو، باہر سے آنے والے خیال کو مصوّر کرنے سے معذرت کرلی۔ایک چھٹی کے دن دوپہر کے بعد، جب میں اُن سے ملنے گیا، تو بہت خوش تھے۔ میں نے وجہ پوچھی، تو اپنے پینٹنگ والے کمرے میں لے گئے۔ اُس کمرے میں ایک جانب میوزک سسٹم رکھاہوتا تھا، بے پردہ کھڑکی سے خوب روشنی اندر آتی تھی اور کئی مکمل، نامکمل تصاویر اوربے رنگ کینوس دھرے ہوتے تھے۔

وہاں ایک شبیہ کی تصویر آئزل پر لگی تھی۔ بچّوں کی طرح خوش ہوکر مچلتے ہوئے بتانے لگے کہ یہ شبیہ بہت عرصے سے اُنھیں خواب میں آرہی تھی، پر وہ اسے کینوس پر منتقل نہ کرپارہے تھے۔ بالآخر صبح سویرے پرندوں کودانا دُنکا اورچیلوں کو گوشت ڈالنے کے بعد ایک تخلیقی رَو میں اُنھوں نے یہ تصویر بنانی شروع کی اور یہ ایسی تیار ہوگئی، جیسی اُنھیں نظر آتی تھی۔

ایسے ہی ایک دن کا واقعہ ہے کہ میںاُن کے پاس بیٹھا قدیم قبائل کے تصورِ خدا پر پرُمغز گفت گو سن رہا تھا کہ اطلاعی گھنٹی بجی۔ میں نے دروازہ کھولا، تو ایک آرٹ ڈیلر اندر چلا آیا۔ اُسے دیکھ کر تصدّق صاحب گہری سوچ میں گم ہوگئے۔ چند لمحے بعد سامنے ایک تصویر کی جانب اشارہ کرکے بولے ’’یہ ابھی نامکمل ہے ،اگلے اتوار کو آیئے۔‘‘ڈیلر چلا گیا، تو میں نے پوچھا کہ بہ ظاہر توتصویر مکمل ہے، اس میں کیا کمی ہے۔تصدّق صاحب نے سرسری انداز میں بتایا کہ وہ اس تصویر سے غیرمطمئن ہیں، یہ تصویر ہنوز غیرمتوازن ہے۔اگلی ملاقات میں تصویر ویسی ہی رکھی تھی۔

میں نے ضمناً اس بارے میں پوچھا، تو بولے کہ انھوں نے اسے مکمل کردیا ہے۔ میں نے بہ غور دیکھتے ہوئے خودکلامی کی کہ مجھے تو اس میں کوئی فرق نظر نہیں آتا، تو انھوں نے اس کے ایک کونے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس پر ہلکا سا برش لگایا گیا ہے۔ یوں یہ مکمل اور متوازن ہوگئی ہے۔وہ آخری لمحے تک اپنی کسی بھی تصویر سے خال خال ہی مکمل مطمئن ہوتے تھے۔ انھوں نے ساری زندگی شادی نہ کرکے اچھاکیا تھا۔ بہت سے فن کار اپنے فن یا صلاحیت کا خراج اپنے بیوی بچّوں کو نظر انداز کرکے اُن سے لیتے ہیں۔ اُنھوں نے اپنے تخلیقی جنون کی خاطر کسی عورت کی زندگی متاثر نہ کی تھی۔

محبتیں کئی کی تھیں ، لیکن عشق ایک برطانوی لڑکی، انگرڈ ہی سے کیا۔ایک مرتبہ میں نے اُن پر ایک طویل مضمون انگریزی رسالے کے لیے لکھا۔اس میں انگرڈ کا تذکرہ بھی تھا، بلکہ اُن کے اُردو خاکے میں بھی ہے۔ مضمون کی اشاعت کے چند ہفتے بعد مجھے ایک ای میل آئی۔برطانیہ کے کسی صاحب نے میرا مضمون پڑھا تھا۔ انھوں نے انگرڈ کا تذکرہ کرتے ہوئے اطلاع دی تھی کہ بڑھاپے میںآکر اُس نے خودکشی کرلی تھی۔ میں تذبذب میں مبتلا ہوگیا کہ آیا یہ اطلاع تصدّق صاحب کو دوں یا نہ دوں۔ پھر اخلاقیات کومدِّنظر رکھتے ہوئے یہ اطلاع سنائی، تو وہ بے ساختہ بولے ’’انگرڈکوڈیپریشن کے دورے پڑتے تھے ۔اُسے پہلے ہی خود کشی کرلینی چاہیے تھی۔‘‘

یہ سب وہ یوں یک دَم بولے، جیسے ابھی انگرڈ سے مل کر آرہے ہوں۔ اس کے بعد وہ خاموش ہوگئے اور نمی سی اُن کی آنکھوں میں تَیرگئی۔بعد میں اُنھوں نے بتایا کہ وہ کئی روز تک اُداس رہے تھے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ انگرڈ سے اُن کی آخری ملاقات قریباً چالیس برس پہلے ہوئی تھی۔ پروہ ان کے اندر یوں زندہ تھی، جیسے چند روز پہلے ہی اُس سے ملاقات ہوئی ہو۔

تصدّق صاحب کی پور پور میں زندگی اور خوش مزاجی نظر آتی تھی۔ اکثر وہ مذاق میں کہا کرتے تھے کہ انسان کی طبعی عمر ایک سو برس ہے۔ جو اس سے پہلے فوت ہوجاتے ہیں، بے وقوف ہوتے ہیں۔کئی مرتبہ مسکراتے ہوئے کہتے کہ بہت سے آرٹ کلیکٹر ان کی پینٹنگز اس لیے خرید رہے ہیں کہ انھیں توقع ہے کہ چوں کہ وہ پچاسی چھیاسی کی عمر کے ہوچکے، سوجلدفوت ہوجائیں گے۔ یوں ان تصویروں کی قیمت بڑھ جائے گی۔

پھر ہنستے ہوئے کہتے ’’ان بے وقوفوں کو معلوم نہیں کہ ابھی میرا مرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔‘‘جب وہ بعید ازگمان حالات کی وجہ سے بیمار ہوکر بے ہوش ہوئے (اسے دمِ آخریں کہیے یا دمِ واپسیں کہیے) اور انہیں اسپتال داخل کروایا گیا، تو ان کے تحت الشعور میں زندہ رہنے کی تڑپ موجود تھی۔ پھندے سے لٹک کر خودکشی کرنے والے بہت سے لوگوں کی گردنوں پر اُن کے اپنے ناخنوں کے نشان ہوتے ہیں۔یہ لوگ خودکشی کی شعوری خواہش رکھتے ہیں،جب کہ انسان کا لاشعور زندہ رہنے کا خواہش مند ہوتا ہے۔یوں جب خود کشی کرنے والے شعوری طور پرپھندے سے لٹکتے ہیں، تو ان کا لاشعورمتحرک ہوجاتا ہے۔

یہ لاشعور انسان کو زندہ رہنے پر بے اختیار آمادہ کرتا ہے۔ یوں وہ لٹک جانے کے بعد تڑپتے ہوئے اپنے آپ کو پھندے سے نکالنے کی کوشش کرتے ہوئے ناخنوں سے اپنی گردن زخمی کربیٹھتے ہیں اور اکثر اِس میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ یہ یوں ہی ہے کہ اگر کسی شخص کی جانب اس کی لاعلمی میں کوئی شے پھینکی جائے، تو بعض اوقات وہ یک دم اپنے آپ کو غیر شعوری طور پر اس سے بچانے کی کوشش کرتا ہے۔فطرت نے انسان کی سرشت اور نس نس میں زندہ رہنے کاجذبہ شامل کردیا ہے۔ تصدّق سہیل اسپتال میں بے ہوش لیٹے تھے، لیکن جب انھیں چھوا جاتا، تو باقاعدہ طور پر ردعمل ظاہر کرتے۔ چہرے پر ہاتھ دھرا جاتا، تو کسمساجاتے۔

گویا خواہش مند ہوں کہ ہاتھ ہٹالیا جائے۔ غالباً بقا کی یہی آرزو تھی کہ وہ ایک سوبرس سے پہلے فوت ہونے والوں کو بے وقوف کہتے تھے، مگرتصدّق سہیل کو پیسے جمع کرنے سے نفرت تھی۔ آرٹ گیلری والوں، اُن کے مداحوں اور گنتی کے چند دیگر لوگوں نے اُس ستاسی سالہ بوڑھے مصّور کو، جواکیلا رہتا تھا، اس معاملے میں کم سِتم نہ ڈھائے۔

کبھی کسی نے تصویریں ہڑپ لیں، تو کوئی رقم لے اُڑا۔ہم شدت پسندی کے حوالے سے دکھ میں مبتلا رہتے ہیں پر مجھے اُن کے چند روشن خیال مداح دوستوں پر بھی دکھ ہوتا ہے، جنھیں تصدّق صاحب نے اپنی بے شمار تصویریں تحفتاً دیں۔ بیماری کی حالت میں وہ اُن لوگوں کو یاد کرتے رہے۔ میں نے قریباًاُن سبھی سے رابطہ کیا۔ چوں کہ اُن سب کا مقصد پورا ہوچکا تھا، سو کوئی نہ آیا۔ یعنی ہم ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ شدت پسند کیا اور روشن خیال کیا۔