ارم زہرا
مری آنکھوںمیںتیری دید کا موسم نہیںبدلا
مری زلفوںکا بل کھاتا وہ پیچ و خم نہیںبدلا
سبھی انداز جینے کے بدل ڈالے ہیں انساں نے
مری یہ خوش نصیبی ہے، مرا ہمدم نہیںبدلا
میں جس نغمے کو سن کر آج بھی مدہوش ہوجائوں
مرے گلشن میں بلبل نے وہی سرگم نہیںبدلا
ترے قدموں کی آہٹپر میںفوراً چونک جاتی ہوں
ابھی تک بے قراری کا وہی عالم نہیںبدلا
زمانے بھر کو میںکیسے سنادوں، اپنا افسانہ
مرے دل میں چھپے رازوں کا وہ محرم نہیںبدلا
نہ اُس نے بے وفائی کی، نہ بدلا راستہ اُس نے
انا پر میں نے بھی اپنا یقیںمحکم نہیںبدلا
مرے اجداد نے جس کےلیےخوں تک بہایا تھا
ارم کو ناز ہے وہ دل کشا پرچم نہیںبدلا