انڈس یونیورسٹی کے چانسلر خالد امین شیخ سے خصوصی گفتگو

April 29, 2018

پینل انٹرویو: نجم الحسن عطاء، لیاقت علی جتوئی

خالد امین شیخ انڈس یونیورسٹی کے بانی اور اس کےچانسلر ہیں۔ گلشن اقبال، بلاک 17کراچی میں، جہاں اس وقت انڈس یونیورسٹی اپنی تمام شان اور بہترین انفرااسٹرکچر کے ساتھ موجود ہے، بہت کم لوگوںکو معلوم ہے کہ اس کی ابتداء ایک مدرسہ کے طور پر ہوئی تھی۔ یہ خالد امین شیخ کی انتھک محنت اور ویژن کا نتیجہ ہے کہ یہ مدرسہ بتدریج پرائمری اسکول، ہائی اسکول، کالج، چارٹرڈ انسٹی ٹیوٹ اور پھر یونیورسٹی کی منزلیں طے کرتا چلا گیا۔ اس سفر اور شاندار کامیابی کو وہ ’’اللہ رب العزت کی مہربانی‘‘ قرار دیتے ہیں۔

خالد امین شیخ چانسلر انڈس یونیورسٹی کے علاوہ ایسوسی ایشن آف نیشنل اینڈ انٹرنیشنل یونیورسٹیز، ریسرچ اینڈ ایجوکیشنل سینٹرز (ANIUREC) کے چیئرمین بورڈ آف گورنرزاور ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ یونیورسٹیز اینڈ انسٹی ٹیوٹس(APUI) کے نائب صدر بھی ہیں۔ قوم اور ملک کی خدمت کے لیے تعلیم کے میدان میں قدم رکھنے سے پہلے خالد امین شیخ صنعت و تجارت اور بینکاری کے شعبے سے وابستہ رہے ہیں۔

جنگ: انڈس کا اُس وقت سے جو سفر شروع ہوا ، اس سفر میں ابتدا ءسے اب تک آپ نے کیسے کیسے مراحل طے کیے اور کس طرح اس پوزیشن پرپہنچے، جہاںآپ کا ایک بڑا نام ہے؟

خالد امین شیخ: انڈس یونیورسٹی جس پوزیشن پرہے،یہ اللہ رب العزت کی مہربانی ہے۔انسان کی اپنی کسی قسم کی کوئی محنت نہیںہوتی۔میرے ساتھ کام کرنے والے کئی لوگ مجھ سے زیادہ کام کرتے ہیں، وہ صبح میں مجھ سے پہلے اُٹھتے ہیں، دن بھر محنت کرتے ہیں، رات کومجھ سے زیادہ دیر تک کام کرتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ رب العزت کو اپنے جن بندوں سے جو کام لینا ہوتا ہے، ان کو وہ خود منتخب کرتا ہے، تو میں آج جہاں پہنچا ہوں، اس میں میری محنت کا کوئی عمل دخل نہیںہے۔انڈس کا سفر یہاںسے شروع ہوا کہ اس وقت جس جگہ آپ میرے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں(ہم خالد امین شیخ کے ساتھ ان کے چانسلر آفس میں تشریف فرما تھے)، یہ میرا بیڈ روم تھا۔ہم نے یہاں رہائش اختیار نہیںکی تھی، تاہم عمارت تعمیر ہوچکی تھی۔میری بیوی، جوکہ مجھ سے زیادہ مذہبی رجحان رکھتی ہیں، ان کی یہ سوچ تھی کہ ہم جہاںرہائش اختیار کریںوہ مدرسہ بھی ہو، جہاں بچے قرآن پاک کی تعلیم حاصل کرسکیں۔ اسی سوچ کے تحت ہم نے یہ زمین خریدی تھی۔ اللہ رب العزت کی مرضی سے یہاںمدرسہ بھی بنا، پھر پرائمری اسکول بنا، اس کے بعد ہائی اسکول بنا، پھر کالج اوراس کے بعد چارٹرڈ انسٹی ٹیوٹبنا اور 2012میں اسے یونیورسٹی کا درجہ ملا۔اس سارے سفر میں بہت سارے لوگوں کا ساتھ رہا۔ سلیم احمد صدیقی کی سپورٹ کو میں کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ایس ایم منیر،محمد میاں سومرو، رؤف صدیقی، ایس ایم فاروق، اس وقت کے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد، کراچی یونیورسٹی کے متعدد حکام اور دیگر کئی دوست اور ساتھی، میں ان سب کا شکرگزار ہوں، جو اس سفر میں مجھے سپورٹ کرتے رہے۔

جنگ: یہ تو ہوگئی اردو والے سفر کی بات۔یقیناً اس سفر میں آپ کو انگریزی والی Sufferingsبھی سہنا پڑی ہوںگی؟

خالد امین شیخ: انسان تکالیف کے باعث ہی زندہ رہتا ہے اور ایک انسان جن تکالیف سے گزرتاہے، اگر میں وہ بتانا شروع کروں کہ کن کن لوگوں نے مجھے زخم دیے کہ ایک چھوٹا سا آدمی، ایک مزدور آدمی، جس کا تعلیم میں کوئی کردار نہیں ہے ،وہ کہاںسے اس شعبے میں آگیا۔

تاہم میں ان تمام افراد اور ان تمام نادان دوستوں کا شکرگزار ہوںکہ انھوں نے مجھے اذیت پہنچائی، کیوں کہ اگر وہ میری راہ میں رکاوٹیں کھڑی نہ کرتے، مجھے اذیت نہ پہنچاتے تو شاید اتنی محنت نہ کرتا کہ جس کی وجہ سے میں آج اس مقام پر ہوں۔میں ان سب نادان دوستوں کو آج بھی دعائیں دیتا ہوں، کیوں کہ ان کی مخالفت نے مجھے مزید محنت پر اُکسایا، جس کے نتیجے میں بالآخر پہلے انسٹی ٹیوٹ کے لیے چارٹر حاصل کرنے میں کامیابی نصیب ہوئی اور پھر یونی ورسٹی کا درجہ بھی مل گیا۔ یہ سفر آسان نہیںتھا۔

جنگ:اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس سفر میں آپ دُکھوں سے بھی لطف اندوز ہوتے رہے؟

خالد امین شیخ: میں آپ سے عرض کروں کہ چند ماہ قبل میرا بیٹا فوت ہواہے۔ میں پہلے بھی اللہ رب العزت کے سامنے سربسجود ہوتا تھا، دُعائیں مانگتا تھا لیکن اس بڑے غم کے بعد اب میں یہ سوچتا ہوں کہ کیا میں پہلے اپنے رب کے سامنے اس طرح جھکتا تھا جیسےاب جھکتا ہوں، کیا میں اس طرح دل سے دُعا مانگتا تھا، جس طرح اب مانگتا ہوں۔

جنگ:انڈس یونیورسٹی کی Faculties کے بارے میں بتائیں کہ آپ کیا کیا پروگرامز آفر کرتے ہیں؟

خالد امین شیخ:ہماری چار فیکلٹیز ہیں۔1) مینجمنٹ سائنسز، (2انجنیئرنگ، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، (3آرٹاینڈڈیزائن اور 4)سوشل سائنسز۔انجنیئرنگ کے تحت ہم کمپیوٹرز، پاور، الیکٹریکل، سول اور مکینیکل انجنیئرنگ کی تعلیم دیتے ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے ہمیں بزنس مینجمنٹ، کمپیوٹر سائنسز اور دیگر تمام ڈسپلنز میں پی ایچ ڈی تک ڈگری ایوارڈ کرنے کی منظوری دی ہوئی ہے اور ہمارے تمام پروگرامز Accredited ہیں۔

جنگ:ہمارے قارئین کی آسانی کے لیے اس بات کی وضاحت کریں کہ جب آپ کہتے ہیں کہ فلاں پروگرام Accreditedہے تو اس سے کیا مراد ہوتی ہے؟

خالد امین شیخ: جی ضرور۔ مثلاً، جب ہم کہتے ہیںکہ ہمارے پاور اور الیکٹریکل کے پروگرامز Accreditedہیں تو اس کا مطلب ہے کہ یہ پروگرامز پاکستان انجنیئرنگ کونسل سے منظورشدہ ہیں، اسی طرح بزنس پروگرامز کی Accreditation پاکستان بزنس کونسل سے حاصل کرنے کے مراحل میں ہیں۔

جنگ:آرٹ اینڈڈیزائن میں کیا پڑھاتے ہیں؟

خالد امین شیخ: ہم فیشن کے تمام پروگرامز پڑھاتے ہیں۔دیگر تمام پروگرامز کی طرح، فیشن کے تمام پروگرامز کی گائیڈ لائن بھی ہائر ایجوکیشن کمیشن کی فراہم کردہ ہیں۔اگر فیشن پروگرامز کی گائیڈ لائنز کی بات کریں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سارے پاکستان سے فیشن کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے یہ نصاب مرتب کیا ہے، جسے گائیڈ لائن بک کہا جاتاہے۔ پاکستان کے تمام انسٹی ٹیوٹ اور یونیورسٹیز، فیشن پروگرامز اس گائیڈ لائن بک کے مطابق پڑھانے کے پابند ہیں، وہ اس میں کوئی کمی نہیں کرسکتے، کریڈٹ آورز نہیں گھٹا سکتے۔ ہاں، وقت کے ساتھ کوئی چیز پرانی ہوجائے اور اس کی جگہ کوئی نئی چیز آجائے تو یونیورسٹی کا بورڈ آف گورنرز وہ چیز اپ گریڈ کرنے کا مجاز ہوتا ہے۔

جنگ: انڈس یونیورسٹی کا بورڈ آف گورنرز کن شخصیات پر مشتمل ہے؟

خالد امین شیخ: ہمارے بورڈ آف گورنرز میں ڈاکٹر عطاء الرحمان صاحب شامل ہیں، جو ہمارے لیے ایک اثاثہ ہیں۔ ہمارے بورڈ پر سابق گورنر سندھ معین الدین حیدر صاحب ہیں۔ ڈاکٹر اقبال چوہدری، کراچی چیمبر کے موجودہ صدر، ہائی کورٹکے چیف جسٹس یا ان کا نمایندہ ہمارے بورڈ پر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، چاروں ڈسپلنز میں نجی شعبے سے ایک ایک ماہراور ایک غیرملکی پی ایچ ڈی کوالیفائیڈ پروفیشنل ہمارے بورڈ آف گورنرز میں شامل ہوتا ہے۔

جنگ: بڑی اچھی بات ہے کہ آپ نے اپنے بورڈآف گورنرز پر مایہ ناز شخصیات کو موقع فراہم کیا ہے کہ وہ قوم کی خدمت کرسکیں۔لیکن کیا آپ تعلیم کے معیار سے مطمئن ہیں؟

خالد امین شیخ: حقیقت تو یہ ہے کہ میں معیار تعلیم سے بالکل بھی مطمئن نہیں ہوں اور یہ بات شروع ہوگی پہلی جماعت سے۔پھر پانچویں جماعت کی بات ہوگی، پھر میٹرک تک آئیںگے، اس کے بعد انٹرمیڈیٹ اور آگےتک بات جائے گی۔ مسئلہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں ہر قوم اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرتی ہے۔ ہم نے ستر سال بعد اب آکریہ طے کیا ہے کہ لکھت پڑھت اردو میں ہوگی، تاہم اس پر ابھی تک عمل درآمد ہوتا نظر نہیں آرہا۔ یہ آسان نہیں ہے۔

جنگ: اردو زبان میں وہ ریسرچ بھی تو نہیں ہورہی، جس کی بنیاد پر ہم اپنے تعلیمی نصاب کی عمارت کھڑی کرسکیں، اس لئے ہمیں انگریزی کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

خالد امین شیخ: میں آپ کو ایک واقعہ سنانا چاہتا ہوں۔ برٹش ہائی کمیشن میں ایک بڑی بیٹھک میں، اس بات پر بحث ہورہی تھی کہ تعلیم میں بہتری کیسے آئے گی؟ ہائی کمشنر نے استفسار کیا کہ کیا کوئی ایسے صاحب تشریف رکھتے ہیںجن کا تعلق شعبہ تعلیم سے ہو؟ کسی نے میرا نام لے لیا۔ انھوں نے مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ہمیں(برطانیہ کو) 850سال ہوگئے ہیں، آپ کو تو ابھی صرف 70سال ہوئے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ برطانیہ کے مقابلے میں پاکستان کو بہتر دور میسر آیا ہے، تاہم آپ کو ابھی وہاں پہنچنے میں وقت چاہیے۔

جنگ: آپ کی بات بالکل درست ہے لیکن کم از کم یہ تو ہو کہ ہماری سمت ٹھیک ہوجائے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ منزل ابھی دور سہی لیکن سفر درست سمت میں کررہے ہیں؟

خالد امین شیخ: ان سارے مراحل سے وہ بھی گزرے ہوںگے۔کیا ہم نے ریسرچ کی ہے کہ وہ ان مراحل سے گزرے تھے یا نہیں۔

جنگ:آپ کے اساتذہ کا معیار کیا ہے، کیا انھیں تربیت فراہم کی جاتی ہے؟

خالد امین شیخ: پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم تعلیم یافتہ اساتذہ کو لاتے ہیں، اس کے بعد ہم بھی ان کو تربیت فراہم کرتے ہیںاور باہر سے بھی ٹریننگ دلواتے ہیں۔ ا س کے بعد ہم اس بات پر نظر رکھتے ہیں کہ اساتذہ اپنے اپنے مضامین پڑھانے کے لیے تیاری کے ساتھ آئیں۔ اساتذہ نے آج کے دن کون سے مضامین پڑھانے ہیں، ان مضامین کے تحت آج کے موضوعات کیا ہیں، ان موضوعات کے کن پہلوؤں پر روشنی ڈالنی ہے، کتنے گھنٹے اور کتنے منٹ بات کرنی ہے وغیرہ وغیرہ۔۔ ہر چیز کی تیاری کی جاتی ہے۔

جنگ:امتحان کے طریقہ کار سے مطمئن ہیں؟

خالد امین شیخ:میں بات یہاں سے شروع کروں گا کہ ہم نے یہاں 300کیمرے نصب کیے ہوئے ہیں، جن میںیونیورسٹی کے ہر ایک حصہ کی لمحہ بہ لمحہ ریکارڈنگ ہورہی ہے۔ طلباء کو بھی یہ بات معلوم ہے کہ اگر امتحان میںانھوں نے ایسی چھوٹی سی بھی کوئی حرکت کی تو بچ کر نہیں نکل پائیںگے۔ اس بات کا خیال Invigilators اور یونیورسٹی کے تمام اسٹاف کو بھی ہے۔یہ ہمارے کام کا حصہ ہے کہ ہم طلباء کو بتائیں کہ امتحان دینے کا کیا طریقہ کار ہے۔ہم اس سے مطمئن ہیں۔جہاں تک نمبرنگ کا تعلق ہے تو دنیا اب بدل چکی ہے، کاپی پیسٹ والا زمانہ گزرچکا ہے۔ اب تو Experientialلرننگ کا زمانہ ہے اور ہم اسی پر Focusکررہے ہیں۔

جنگ: اسکالرشپس دیتے ہیں اپنے طلباء کو؟

خالد امین شیخ: بم دھماکوں، ٹارگٹ کلنگ، روڈ ایکسیڈنٹ، ٹرین ایکسیڈنٹ، جہاز ایکسیڈنٹ اور کسی بھی حادثے میں متاثر ہونے والے والدین کے بچوں کو ہم مفت تعلیم دیتے ہیں، ان کا تعلق چاہے آرمڈ فورسز سے ہو، پولیس سے ہو یا عام شہری ہوں، ہم نے کوئی تفریق نہیں رکھی ہوئی۔ ایسے بچوں کے لیے ایڈمیشن فیس، ٹیوشن فیس اور دیگر ساری فیس معاف ہیں۔انڈس ابھی تک کی پہلی اور واحد یونیورسٹی ہے، جو اس طرح کی اسکالرشپس فراہم کرتی ہے۔اس کے علاوہ ہم سیمسٹر اسکالرشپ اور Need basedاسکالرشپس بھی دیتے ہیں۔

جنگ:اپنی یونیورسٹی کی Humanitarian سروسزسے متعلق کچھ بتائیں؟

خالد امین شیخ: ملک میں کہیں سیلاب آجائے، تھر میں خشک سالی کی کیفیت پیدا ہوجائے یا اس شہر کے حالات خراب ہوں، ہم ہر جگہ اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔اس کے علاوہ پی ایس ایل کا فائنل ابھی حال ہی میں کراچی میں ہوا، جس میں بین الاقوامی کرکٹرز بھی آئے تھے۔ ہم نے پاکستان کرکٹ بورڈ اور چیئرمین نجم سیٹھی کے ساتھ مل کر اس ایونٹ کو کامیاب بنانے کے لیے اپنے حصے کا کردار بڑی دیانتداری اور محنت سے ادا کیا۔

جنگ: کرکٹ کی بات چل نکلی ہے تو ہمیں یہ سوال پوچھنے دیں کہ آپ کی یونیورسٹی میں فزیکل کلچر کیسا ہے؟

خالد امین شیخ:ہماری یونیورسٹی تمام کھیلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے اور ہمارے بچوں نے کئی یونیورسٹیز کو ہرا کر ٹرافیاں اپنے نام کی ہیں۔

جنگ: اپنی ڈیجیٹل یونیورسٹی اور پبلی کیشنز کے بارے میں کچھ بتائیں؟

خالد امین شیخ: ہماری ڈیجیٹل لائبریری بہت اچھی اور خوبصورت ہے، اس پر ہم نے بڑی سرمایہ کاری کی ہے۔ڈیجیٹل لائبریری کوبین الاقوامی معیار پر رکھنے کے لیے ہم ہائر ایجوکیشن کمیشن کو ہر سہ ماہی ساڑھے پانچ لاکھ روپے ادا کرتے ہیں۔ جہاں تک پبلی کیشنز کا تعلق ہے تو ہمارے Dean، چیئرپرسن، پروفیسرز اس بات کے ذمہ دارہیںکہ وہ اپنے اپنے ڈیپارٹمنٹ کےسالانہ جرنلز نکالیں۔اس کے علاوہ ہماری فیکلٹیز کے بین الاقوامی اے کلاس جرنلز میں بھی پیپرز شائع ہوتےہیں۔

جنگ: اپنی یونیورسٹی کے Academic Linkages کے حوالے سے بتائیں؟

خالد امین شیخ: کم از کم ڈیڑھ سو قومی اور بین الاقوامی یونیورسٹیز کے ساتھ لنکیجز ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے طلباء اسٹوڈنٹ ایکس چینج پروگرام کے تحت دنیا کے مختلف ممالک کے تعلیمی اداروں کے دوروں پر جاتے ہیں، اسی طرح بین الاقوامی طلباء بھی ہماری یونیورسٹی میںآتے ہیں۔