شمالی اور جنوبی کوریا سربراہ ملاقات

April 29, 2018

شمالی اور جنوبی کوریا کے مابین گزشتہ65سال سے جو کشیدگی چلی آرہی تھی، اور وہاں کے عوام کو اس صورتحال سے جن اعصاب شکن مشکلات کا سامنا تھا صدرکم جونگ ان اور صدر مون جے ان کی جمعہ کے روز ہونے والی ملاقات سے یقیناً نہ صرف دونوں ملکوں بلکہ خطے کے لوگ سکھ کا سانس لیں گے عالمی برادری اس پیشرفت کو ا طمینان بخش قرار دے رہی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے پر1945میں دونوں ملکوں کے درمیان خلیج ا س وقت پیدا ہوئی تھی جب کوریائی شمالی حصہ سوویت یونین اور جنوبی حصہ امریکہ کے زیر اثر چلا گیا اور بالآخر 1953میں ان کی خانہ جنگی علیحدگی پر منتج ہوئی اس کے بعد بڑھتی ہوئی کشیدگی نے ان دونوں کو اسلحہ کی دوڑ یہاں تک کہ ایٹمی ہتھیاروں تک پہنچا دیا۔ گزشتہ دنوں شمالی کوریا نے لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ایٹمی پروگرام پر نظر ثانی کی، امریکہ نے اس کا خیر مقدم کیا چین جو پہلے ہی خطے میں قیام امن کے لئے سرگرداں تھا، اس کی کوششیں بار آور ثابت ہوئیں، مذاکرات کی یہ راہ ہموار ہوئی جن میں ایک دوسرے کے خلاف پراپیگنڈہ نشریات بند کرنے، غیر فوجی حصے کی امن علاقے میں تبدیلی، آئندہ مذاکرات میں امریکہ چین کی شمولیت، منقسم خاندانوں کے ملاپ اور ریلوے نیٹ ورک پر اتفاق کیا گیا۔ عالمی برادری اور بین الاقوامی تنظیموں نے اس عمل کو تاریخی قرار دیا ہے تاہم ان کی ذمہ داریاں یہاں پوری نہیں ہو جا تیں ابھی فلسطین اور کشمیر جیسے دیرینہ مسائل عالمی برادری کی توجہ کے طلبگار ہیں جن کی وجہ سے ان خطوں میں کشیدگی انتہا کو پہنچ چکی ہے ا س سے پہلے کہ یہاں بھی صورت حال بے قابو ہو ان مسائل کو بلاتاخیر حل کرایا جانا چاہیئے۔ بھارت جموں و کشمیر میں اور اسرائیل فلسطین میں قیام امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ امریکہ اور بڑی طاقتوں کو جو کوریا میں پائیدار امن کے لئے کوشاں ہیں کشمیر اور فلسطین کے مسائل بھی اسی دلچسپی کے ساتھ حل کرانے چاہئیں۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998