پاکستانی محنت کشوں کو اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے متحد ہونا ہوگا

May 01, 2018

حبیب الدین جنیدی

پاکستان سمیت دنیا بھر میں مزدور طبقہ اور اس کو درپیش مسائل اور اسکی جدوجہد سے دلچسپی رکھنے اور اُس کی حمایت کرنے والی سیاسی پارٹیاں اور سماجی تنظیمیں، یکم مئی 1886میں امریکہ کے شہر شکا گو میں مزدوروں کے بنیادی حقوق کے حصول کے لئے قربانیاں دینے والے محنت کش اور ان کے رہنماؤں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لئے تقریبات منعقد کرتے، جلوس نکالتے، سیمینار منعقد کرتے اور شمعیں روشن کرتے ہیں۔مختصر الفاظ میں اس یادگار دن کی تاریخ یہ ہے کہ اُس وقت یورپ اور امریکہ میں بھی صنعتی کارکنان سے 16سے 18گھنٹوں تک مشقت لی جاتی تھی اور اوور ٹائم کا کوئی تصور موجود نہ تھا۔ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ماحول ایک نیم غلامی کا دور تھا، اس غیر انسانی صورتحال کی تبدیلی کے لئے مزدور تنظیمیں کئی دہائیوں سے جدوجہد میں مصروف تھیں۔

اُس وقت کی ایک معروف ٹریڈیونین تنظیم ’’امریکن لیبر فیڈریشن ‘‘نے ایک قرارداد کے ذریعہ حکومت اور صنعتکاروں سے مطالبہ کیا کہ مزدوروں کے کام کے اوقات زیادہ سے زیادہ 8گھنٹہ یومیہ مقرر کئے جائیں۔یہ قرارداد محنت کش طبقہ میں انتہائی مقبول ہوئی اور اس مطالبہ کو تسلیم کروانے کے لئے امریکہ اورکینیڈا کے مختلف شہروں میں تحریکیں شروع ہوئیں۔ شکاگو کے مزدوروں نے سب سے بڑھ چڑھ کر اس جدوجہد کو آگے بڑھایا۔4 مئی 1886کے دن شکاگو شہر میں احتجاجی مزدوروں کا بہت بڑا جلوس نکالا گیا جس کے شرکاء کی تعداد 4لاکھ سے بھی زائد بتائی جاتی ہے۔جلوس نعرہ زن اور رواں دواں تھا کہ تاریخ کے اوراق کے مطابق ایک مقام پر خفیہ پولیس کے اہلکاروں نے جلوس کے اندر سے ایک بم پولیس کے دستہ کی جانب پھینکا تاکہ پُرامن اور نہتے مزدوروں پر ریاستی تشدد کا جواز پیدا کیا جاسکے۔

بم دھماکہ سے پولیس کا ایک اہلکار مارا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے مسلح پولیس نے نہتے معصوم اور بے گناہ مزدوروں پر فائرنگ شروع کردی اورسینکڑوں محنت کش زخمی ہوئے۔ دس مزدوروں نے جامِ شہادت نوش کیا۔ ریاست نے 8مزدور رہنماؤں اسپائس، فیلڈین، پارسنز، ایڈولف فشر،جارج اینجل، مائیکل شواب، لوئس لنگ اور آسکر نیبیکو گرفتار کرکے اُن پر قتل کے مقدمات قائم کئے۔مزدور رہنما اسپائس،اینجل،پارسلز اور فشر کو 11نومبر1987کو تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔ بظاہر تو سرمایہ دار طبقہ نے اُن کے اجسام سے تو نجات حاصل کرلی مگر اُن کے نام تاریخ انسانی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امر ہوگئے۔

پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے ادوارِ حکومت چھوڑ کر کبھی بھی مزدور طبقہ اور اُن کی تنظیموں کیلئے حالات سازگار نہیں رہے ہمارے یہاں صنعتکاروں اور حکومتوں نے مزدور طبقہ اور اُن کی تنظیموں کو ہمیشہ اپنا رقیب سمجھا۔ آزادی کے بعد وطنِ عزیز میں مزدور حقوق کے لئے کام کرنا اور مزدور تنظیمیں قائم کرنا گویا ایک جرم تھا۔بالخصوص دورِ آمریت میں محنت کشوں کے حقوق اور ان کی تحریکوں کو بُری طرح کچلا گیا۔

لیکن اس مایوس کن اور تاریکی کی صورتحال میں حال ہی میں کچھ روشنی کی کرنیں بھی پھوٹی ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی کے گذشتہ دورِ حکومت میں جو کہ 2008سے 2013تک محیط تھا اس میں ایک بڑی آئینی ترمیم پارلیمان میں اتفاقِ رائے سے لائی گئی جس کو 18ویں ترمیم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اس ترمیم نے صوبوں کو کافی حد تک اُن کے حقوق دیئے اور یوں شعبہ محنت دستوری طور پر وفاق سے صوبوں کو منتقل کردیا گیا۔

اب یہ صوبوں کا حق ہے کہ وہ محنت کشوں اور صنعتی تعلقات کے حوالہ سے قانون سازی اور دیگر پالیسیاں مرتب کریں جو کہ اس سے قبل وفاق کا تقریباً کلی اختیار تھا۔صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی کے موجودہ دورِحکومت میں محکمہ محنت نے خاصی پیش رفت کی ہے۔ قانون سازی کے حوالہ سے سندھ انڈسٹریل ریلیشن ایکٹ 2013، سندھ ای او بی آئی ایکٹ 2014،سندھ ایمپلائز سوشل سیکیورٹی ایکٹ 2015 سمیت 12مزدور قوانین نافد کردیئے گئے جبکہ سندھ ورکرز روڈ ٹرانسپورٹ ایکٹ اور سندھ ہوم بیسڈ ورکرز ایکٹ محکمہ قانون میں منظور کے لئے آخری مراحل میں ہیں۔پہلی صوبائی سہ فریقی لیبر کانفرنس منعقد کی گئی جس کے مہمانِ خصوصی وزیر اعلیٰ سندھ سیّد مراد علی شاہ تھے جبکہ اس کی صدارت وزیر محنت سیّد ناصر حسین شاہ نے کی، اس کانفرنس میںبین الاقوامی ادارہ محنت (ILO)کی کنٹری ہیڈ برائے پاکستان سمیت دیگر صوبوں کے محکمہ محنت کے اعلیٰ حکام، صنعتکاروں کے نمائندگان اور مزدور فیڈریشنز کے رہنماؤں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

اس کانفرنس میں متعدد قراردادیں منظور کیںجن پر عملدرآمد کے لئے ایک صوبائی سہ فریقی لیبر کمیٹی بھی قائم کردی گئی۔سہ فریقی مشاورت کے بعد متعدد قوانین میںترمیم کے لئے حکومت کو سفارشات بھیجی جاچکی ہیں اور توقع ہے کہ آئندہ انتخابات سے قبل یہ سفارشات ترمیم کی شکل میں قانون کا حصہ بن جائیں گی۔اس طرح یہ کہاجاسکتا ہے کہ صوبہ سندھ نے مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لئے دیگر صوبوں کی نسبت تیزی سے پیش قدمی کی ہے۔

مزدور تحریک کی موجودہ صورتحال یہ ہے کہ گلوبلائزیشن، فری مارکیٹ اکانومی اور پرائیوٹائریشن نے دنیا بھر میں مزدوروں اور اُن کی تنظیموں کی طاقت کو محدود اور صنعتکاروں اورسرمایہ دارانہ نظام کو مضبوط کیا ہے ۔پاکستان میں پرائیوٹائزیشن مزدور طبقہ کے لئے ایک خوف کا درجہ رکھتا ہے، یہاں کا تجربہ یہ ہے کہ اس کے نتیجہ میں لاکھوں افراد بے روزگار ہوئے، کئی ادارے بند ہوگئے جبکہ ٹریڈ یونین تحریک کو پرائیوٹائزڈ ہونے والے اداروں میں دیوار سے لگا دیا گیا، اس طرح ہمارے ملک کی مزدور تنظیموں نے ہمیشہ ہی نجکاری کی مخالفت کی۔

اُن کا کہنا ہے کہ بہتر منصوبہ بندی اور اصلاحات کے ذریعہ تمام سرکاری صنعتوں اور اداروں کو اُن کے پاؤں پر کھڑا کیا جاسکتا ہے جبکہ نجکاری کے نتیجہ میں چند خاندانوں کی ملکی صنعت اور اقتصادیات پر اجارہ داری قائم ہوجاتی ہے جس کی ایک مثال پاکستان کے پرائیوٹائزڈ کمرشل بنکس ہیں۔ان بنکس میں نجکاری کے بعد ٹریڈ یونینز کا تقریباً خاتمہ ہوچکا ہے، صرف چند ایک بنکس میں ٹریڈ یونین موت اور زندگی کی کش مکش میں مبتلا ہے۔ پرائیوٹائزیشن سے قبل ان کمرشل بنکس میں ٹریڈ یونین کیڈر سے تعلق رکھنے والے ملازمین کی تعداد کل تعداد کا 70فیصد سے زائد ہوتی تھی جو کہ اب گھٹ کر 10فیصد سے بھی کم رہ گئی ہے۔چھانٹیوں اور گولڈن ہینڈ شیک کی نام نہاد اسکیموں کے ذریعہ ہزاروں ملازمین ملازمتوں سے فارغ کئے جا چکے ہیں۔

ان اداروں میں افسران کی ایسو سی ایشنز گو کہ اُن کو قانونی طور پر اجتماعی سودے کاری کے حقوق حاصل نہیں ہوتے پھر بھی وہ اپنے حقوق کے لئے تھوڑی بہت آواز بلند کرتی رہتی تھیں وہ بھی اب مکمل طور پر خاموش ہوچکی ہیں۔بنکوں کی انتظامیہ کے سامنے اب کوئی ایک بھی مؤثر قوت موجود نہیں جو کہ ملازمین کے حقو ق کے لئے ڈٹ کر آواز بلند کرسکے اور اس طرح ان اداروں میں تمام تر لیبر قوانین اور ٹریڈ یونینز کی موجودگی کے باوجود ملازمین کے معاملات تقریباً مکمل طور پر انتظامیہ کے ہاتھ میں ہیں کہ وہ جو چاہے اقدامات اُٹھائے۔نان اسٹاپ بنکنگ شروع کی گئی ہے کہ جس کے نتیجہ میں کارکنان اور افسران کی سماجی زندگی بُری طرح متاثر ہوئی ہے، اب یہ کہا جاسکتا ہے کہ بنک ملازمین کے لئے دفتر میں آنے کا وقت مقرر ہے اور جانے کے وقت کی کوئی حد مقرر نہیں۔

اوور ٹائم ادائیگی قصہ پارینہ بن چکی ہے۔آئوٹ سورسنگ کے ذریعہ پرائیوٹ کمپنیوں کے سینکڑوں ملازمین بنکوں میں فرائض انجام دے رہے ہیں لیکن وہ بنک کی کسی سہولت کے حقدار نہیں۔ تقریباً ہی صورتحال دیگر پرائیوٹ صنعتی اداروں اور کارخانوں میں بھی پائی جاتی ہے، آج کے دور میں کہ جب ملک قانون اور آئین کی پاسداری اور اس کی بالادستی کی جانب بڑھ رہاہے لیکن پرائیوٹ سیکٹر میں ماحول کچھ ایسا ہے کہ جسے ’’ریاست کے اندر ریاست ‘‘سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ٹھیکیداری نظام، تھرڈ پارٹی کنٹریکٹ ایمپلائمنٹ سسٹم، آؤٹ سورسنگ کے نظام اور ٹریڈ یونینز کی دن بدن گھٹتی ہوئی ممبرشپ نے اُن کو انتہائی نحیف اور کمزور کردیا ہے اور وہ کسی مزاحمت کی پوزیشن میں نہیں۔

متعدد ٹریڈ یونینز، لیبر فیڈریشنز،لیبر رائٹس اور ہیومن رائٹس کی تنظیمیں محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے اپنے اپنے طور پر مصروفِ جُہد ہیں، مظاہروں، سیمینارز اور جلسے جلوسوں کی صورت میں کارواں گو کہ بہت سُست رفتاری سے لیکن آگے کی جانب بڑھ رہا ہے۔ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں حالات ہمیشہ یکساں نہیں رہتے۔ مزدور تنظیموں اور محنت کش طبقہ کو علم ہونا چاہئے کہ پاکستان کی بیس کروڑ کی آبادی میں ان کی تعداد لگ بھگ چھ کروڑ لیکن غیر منظم ہے۔

میدان سیاست اور پارلیمان میں ان کی کوئی نمائندگی نہیں۔ پارلیمانی جمہوریت ہمارے ملک میں جڑیں پکڑ رہی ہے۔ مزدور طبقہ کی تنظیموں کو دیگر ترقی پسند سیاسی پارٹیوں کے تعاون سے جمہوری سیاسی جدوجہد اور پارلیمان میں اپنے طبقہ کی مؤثر موجودگی کے لئے سرگرمی کے ساتھ حصہ لینا چاہئے۔ یہ وقت کا تقاضہ اور محنت کش طبقہ کے حقوق کے تحفظ کے لئے موجودہ حالات میں ایک مؤثر قدم ہوگا۔