کیا آرٹیکل 19 مجھے تحفظ دیتا ہے؟

May 03, 2018

آئین کے آرٹیکل۔19 کے تحت پاکستان کے ہر شہری کو آزادی اظہار کا حق ہونا چاہئے۔ پریس کی آزادی بھی قانون کے تحت مناسب اور واجب پابندیوں سے مشروط ہے۔ آج ٹی وی پر میڈیا کی آزادی سیلف سنسر شپ کے تحت عملی طور پر مفلوج ہے۔ ہوسکتا ہےمیڈیا کے لئے ایک خاموشی کا دور آئے جیسا 2008ء کے عام انتخابات کے دوران ہوا تھا۔ 16؍فروری 2008ء کو جو نوٹیفکیشن جاری ہوا، اس کا عنوان تھا ’’الیکشن 2008ء انتخابی مہم۔ میڈیا سائلنس پیریڈ‘‘ جس میں کہا گیا تھا کہ الیکٹرونک میڈیا کسی سیاسی سرگرمی، ایونٹ، شخصیت، امیدوار یا ان کے آف لائن تبصرے اور انٹرویوز پر پابندی ہوگی۔ بعد ازاں پی بی اے اور پی ایف یو جے کے شدید احتجاج پر یہ نوٹیفکیشن واپس لے لیاگیا۔ لہٰذا آئینی ضمانت حاصل ہونے کے باوجود آیا ہم شہری اور ساتھ صحافی کے طورپر آزادی اظہار اورا ٓزاد پریس سے استفادہ کررہے ہیں؟ شاید ایسا نہیں ہے۔ آئین کے دیگر آرٹیکلز کی طرح آرٹیکل۔19 صرف کاغذ پر آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ اسے نامناسب پابندیاں لگا کر دبا دیاگیا ہے۔ اگر قانون کےتحت مناسب پابندیاں ہوتیں تو میں ورلڈ پریس فریڈم ڈے پر یہ سب کچھ نہیں لکھ رہاہوتا۔ اور ایسے وقت جب گزشتہ پیر کوافغان دارالحکومت کابل میں دہشت گردی کے ایک ہی واقعہ میں 10؍ صحافی قتل کردیئے گئے۔آج کے دور میں ہمیں میڈیا پر مختلف انداز میں پابندیوں کا سامنا ہے۔ اسےخود ساختہ سنسر شپ کہتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ آزادی اظہار بھی ذمہ دارانہ رویہ سے مشروط ہے لیکن آج ہم آزاد ہیں اور نہ ہی ذمہ دار۔ چینلز کسی وقت بھی ’’آف ایئر‘‘ کردیئے جاتےہیں۔ اخبارات کی اشاعت اور تقسیم میں رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں۔ کیبل آپریٹرز کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ ’’ناپسندیدہ‘‘ چینل کو پچھلے نمبروں پر ڈال دیں۔ کسی بھی وقت اشتہارات روک لئے جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ کسی قانونی ضابطے اور قاعدے کے بغیر ہوتا ہے۔ تو بنیادی سوال یہی اٹھتا ہے کہ کون میڈیاکو ریگولیٹ کررہاہے؟ لہٰذا آرٹیکل ۔19 پر سنجیدگی سے نظرثانی کی ضرورت ہے ایک ایسا فورم ہو جو مذکورہ تمام ایشوز اور مسائل کو حل کرسکے۔ سپریم کورٹ میں میڈیا کمیشن کا کیس جو حامد میر بنام وفاق پاکستان ہے۔ اس میں عدالت عظمیٰ آرٹیکلز۔19 اور 19-A کے رہنما اصول طے کرسکتی ہے۔ مناسب پابندیوں کی وضاحت ہونی چاہئے تاکہ اس کی غلط تشریح نہ کی جاسکے۔ موجودہ قانون کے تحت پیمرا کسی بھی چینل، پروگرام اور اینکر کے شوکاز جاری ہونے کے بعد اس کے خلاف کونسل آف کمپلینٹس کی ہدایت پر کارروائی کرسکتی ہے۔ لیکن گزشتہ چند برسوں سے کیبل آپریٹرز کسی قانونی مجاز اتھارٹی کی ہدایات یا علم میں لائے بغیر کسی بھی چینل کو آف ایئر کردیتے ہیں۔ بہتر ہوگا پیمرا لائسنس جاری کرنے والی اتھارٹی تک ہی محدود رہے، پراس یکیوٹر یا عدالت نہ بن جائے۔ جس کے لئے ایک علیحدہ آزاد ادارے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان جیسے علاقوںمیں ایک خطرناک منظر جو ابھر کر سامنے آیا ہے وہ آزادی اظہار کو دبانے کی منفرد مثال ہے۔ یہاں الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کے صحافیوں کو دہرے دبائو کا سامنا ہے اگر وہ کالعدم تنظیموں اورا ن کے رہنمائوں کے بیانات دیتے ہیں تو اینٹی ٹیرر ازم ایکٹ کے تحت مقدمات کا سامنا کرنا پڑتاہے نہیں تو پھر وہ نامعلوم قاتلوں کے ہاتھوں مارے جاکر خود خبر بن جاتے ہیں۔ جیو چینل اور اس کی پالیسیوں سے اختلاف ہوسکتا ہے۔ قانونی کارروائی بھی کی جاسکتی ہے لیکن یہ چینل اچانک ہی بند کردیا جاتا یا پچھلے نمبروں پر ڈال دیا جاتا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ پیمرا اور وزارت اطلاعات دونوں کےپاس اس کا کوئی حل نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ میڈیا کو ذمہ دارانہ کردارادا کرنا چاہئے لیکن ذمہ داری کی تشریح کون کرے گا؟ میڈیاکے لئے ایڈیٹر یا ایڈیٹوریل بورڈ کی طرز پر اندرونی طریقہ کار کی ضرورت ہے جو باہر کے بجائے اندر سے فیصلے کرے۔ 2008ء میں پی ایف یو جے نے عدالت عظمیٰ کے ایک ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں میڈیا کمپلینٹس کمیشن کی تجویز دی تھی جس کا مقصد میڈیا کو تحفظ فراہم کرنا تھا اب بھی ایسے قوانین ہیں جن کے تحت میڈیاکی آزادی کو ختم یا محدود کیا جاسکتا ہے۔ لیکن جب آپ پر غیر اعلانیہ پابندی، دبائو یا دھمکیوں کا سامنا ہو تو آرٹیکل۔19 کیونکر تحفظ کی ضمانت دے سکتا ہے؟ صحافیوں سمیت ذرائع ابلاغ کے کارکنوں کو ملازمت اور زندگیوں دونوں کے تحفظ کے حوالےسے مسائل کاسامنا ہے۔ ان پر کرپشن اور کسی ایجنڈے کے تحت کام کرنے کابھی الزام ہے۔ جب کسی خبر کو چیلنج کیا جاتا ہے تو صحافت میں اس سے نمٹنے کے تین طریقے ہیں۔ اول اخبار یا چینل معذرت کرلے، دوسرے وضاحت یا تردید جاری کی جائے اور تیسرے اخبار یا چینل اپنی خبر اور موقف پر قائم رہے۔ دوسرے فریق کے پاس بھی قانون کے تحت اختیارات ہیں۔ غیر جانبداری اور معروضیت آج کے میڈیا میں گمشدہ ہیں۔ ذمہ دار میڈیاکی شناخت ہی معروضیت ہے۔