نظریاتی پنجرے

May 09, 2018

پنجابی کے نامور سوجھوان اور شاعر نجم حسین سید کی ایک پرانی نظم ہے جس میں بچہ ماں سے کہتا ہے کہ طوطے کو پنجرے سے رہا کردو جس پر ماں جواب دیتی ہے کہ اب یہ طوطا آزاد فضاؤں میں اڑان بھرنا بھول چکا ہے اس لئے اگر اسے رہا بھی کردیا تو یہ تباہ و برباد ہو جائے گا۔ شاید یہی فکر دنیا کے قدامت پرستوں کوپریشان کر رہی ہے کہ اگر نظریاتی پنجرے کا منہ کھول دیا گیا تو ان کا طوطا آزاد فضاؤں میں نیست و نابود ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ وقفے وقفے سے قدامت پرست سوچ کے فرقوں سے دھرنے دلوائے جاتے ہیں اور اداروں کے نام تبدیل کرنے کے مطالبات کئے جاتے ہیں۔ اسی طرح کی سوچ کے حامل بنیاد پرست ہندوستان کی علی گڑھ یونیورسٹی سے قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویر ہٹانا چاہتے ہیں اور پاکستان میں اسلام آباد یونیورسٹی کے فزکس کے شعبے کا نام تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ ہندوستان کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے جیالوں کا محمد علی جناح کے خلاف جہاد تو قابل فہم ہے لیکن پاکستان میں مسلم لیگ (ن) کا اپنے آپ کو پرانے نظریاتی پنجرے میں خود سے مقید کرنے کا عمل سمجھ سے بالا تر ہے۔
صحافتی آزادی کی نئی تعریف کا تقاضا بھی یہی ہے کہ بات مسلم لیگ (ن) اور میاں نواز شریف پر تنقید سے شروع کی جائے: بالکل ویسے ہی جیسے پرانے زمانے میں تحریر شروع کرنے سے پہلے 786 کا ہندسہ لکھا جاتا تھا۔ ہمیں بھی اس نئی آزادی سے لطف اندوز ہونے کے لئے یہ کہنا پڑے گا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) ایسے تضادات کا شکار ہے کہ اسے ’منافقت‘ کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ یعنی ایک طرف تو وہ نظام کی تبدیلی کا نعرہ لگاتے ہوئے معاشرے میں تمام جمہوری تقاضوں کی خواہاں ہے اور دوسری طرف پارلیمنٹ سے ایسی قراردادیں منظور کروا رہی ہے جو جمہوری اقدار کی نفی کرتی ہیں۔ لیکن معاملہ یہی ہے کہ میاں نواز شریف نظریاتی پنجرے سے باہر قدم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کے بعض اپنے ان کو دھکا دے کر پھر سے پنجرے میں دھکیل دیتے ہیں۔یعنی میاں نواز شریف نے اپنے دور سیاست میں جو نظریاتی محافظ پیدا کئے تھے وہ ان کے پاؤں کی زنجیر بن گئے ہیںاور اب ان کا سفر ان کی توقع سے زیادہ طویل تر ہے۔
ویسے تو دنیا کے بہت سے ملکوں میں کامیاب سیاست کا نیا انداز بھی یہی ہے کہ معاشرے کی کمزور ترین اقلیتوں کے خلاف اکثریت کے تعصبات بھڑکا کر ووٹ حاصل کئے جائیں۔اگر امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کالے اور ہسپانوی تارکین وطن کے خلاف نیم خواندہ سفید فام نسل کے لوگوں کو اشتعال دلا رہے ہیں تو ہندوستان میں یہی کچھ نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی مسلمانوں کے خلاف کر رہی ہے۔ اسرائیل کے بنجمن نیتن یاہوبھی یہی نظریہ اپناتے ہوئے فلسطینیوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی سیاسی اور نظریاتی برتری کے لئے ایسا ہی کیا جارہا ہے۔در پردہ مقصدسیاسی برتری کے لئے نظریاتی جہتوں کو کنٹرول کرنا ہے۔
لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سرمایہ داری کا مروجہ نظام قدامت پرست اور رجعت پسند نظریاتی ڈھانچے کے ساتھ ہم آہنگ ہو سکتا ہے؟ کم از کم یورپ کی حد تک تو یہ ثابت ہے کہ سرمایہ داری نظام نے مذہب اور سیاست کو علیحدہ کر کے ایک نئے جمہوری نظام کی بنیاد رکھی جس میں ہر شخص اپنے آزادانہ عقیدے قائم کر سکتا ہے۔ امریکہ کے بانیوں نے دلیل دی کہ مذہب کی پاکیزگی کو قائم رکھنے کے لئے اسے سیاست سے علیحدہ کرنا ضروری ہے۔ کارل مارکس کی 200ویں سالگرہ پر یہ تو یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ان کا یہ مقولہ درست تھا کہ مادی حالات تبدیل ہونے سے نظریات بھی تبدیل ہوتے ہیں۔ لیکن شاید یہ معاملہ اتنا سیدھا بھی نہیں تھا کیونکہ یورپ میں سرمایہ داری نظام کے متعارف ہونے کے بعد طویل عرصے تک مذہبی اور قومی جنگیں لڑی گئیں اور یورپی معاشروں میں نئے اور پرانے نظریات کی جنگ صدیوں تک جاری رہی۔ پاکستان (اور ہندوستان بھی) روشن خیالی اور تاریک فکری کی جدوجہد میں ان ابتدائی مراحل سے گزر رہا ہے جن سے یورپ نے اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں نپٹا۔
عصر حاضر کے پاکستان کی بنیادی معاشی حقیقتیں بدل چکی ہیں اور ایک روشن خیال جمہوری نظریے کی منتظر ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی 1970کی تحریک اسی تمنا کی جھلک تھی۔ اس کے رد عمل میں پاکستان کے حکمران طبقات نے جو نظریاتی پنجرہ تیار کیا وہ بنیادی حقیقتوں سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یا تو بنیادی حقیقتیں پلٹ کر ویسی ہو جائیں جیسی 1970سے پہلے تھیں اور یا معاشرے کا نظریاتی ڈھانچہ بدل کر آج کی حقیقتوں سے ہم آہنگ ہو جائے۔
یہ کشمکش جاری ہے اور زیادہ امکان یہی ہے کہ پچھلی تین چار دہائیوں سے تیار کردہ پنجرہ ٹوٹ جائے گا۔ لیکن اس تبدیلی کا جو بھی نمائندہ ہوگا اسے ذوالفقار علی بھٹو سے بھی دو قدم آگے ہونا پڑے گا۔
اس پہلو سے دیکھیں تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ پیپلز پارٹی سمیت پاکستان کی سب بڑی سیاسی پارٹیاں 1970کے رد عمل میں تیار کئے ہوئے نظریاتی پنجرے میں گھسنے کے لئے ایک دوسرے سے مقابلہ کر رہی ہیں۔ اگر ایک پارٹی مذہبی پارٹی کو کروڑوں روپیہ دیتی ہے تو دوسری ایک اور مذہبی فرقے کو زمین کے عطیات سے نوازتی ہے۔ اس صورت حال میںنئے نظام کا وعدہ کرنے والی مسلم لیگ (ن) بھی کسی سے پیچھے نہیں رہنا چاہتی۔ اس لئے میاں نواز شریف کو اس امر کی آگاہی ہونا چاہئے کہ ’خلائی مخلوق‘ ان کی اپنی صفوں میں بھی قائم دائم ہے۔ اور اگر وہ نظریاتی پنجرے کو توڑنے کا واضح عندیہ نہیں دیتے تو شاید ان کے خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوں گے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)