غریبوں کو اپنی راہیں خود تراشناہوں گی

May 10, 2018

زرعی اور صنعتی پیداوار میں اضافوں، تجارتی سرگرمیوں میں تیزی، اسٹاک ایکسچینج میں مسلسل نئی سرمایہ کاری کے باوجود پاکستان میں غریب اور امیر کے درمیان فرق بڑھ رہا ہے۔ صرف پانچ چھ سو روپے روز یا پندرہ سولہ ہزار ماہانہ کمانے والے ہی نہیں بلکہ تیس پینتیس ہزار ماہانہ آمدنی والوں کو بھی بنیادی ضروریات کی تکمیل میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ناقص حکومتی پالیسیوں کے منفی اثرات بھی سب سے پہلے اور سب سے زیادہ کم آمدنی والوں کو جھیلنے پڑتے ہیں۔ کسی پرائیویٹ ادارے کو مالی مشکلات کا سامنا ہو تو عموماً اس کا پہلا حل ملازمین کی چھانٹی یا تنخواہوں اور مراعات میں کمی کی صورت میں نکالا جاتا ہے۔ تعلیم کے شعبے میں حکومتوں کی لاپروائی یا متعلقہ افراد کی کرپشن کی سزا بھی غریب اور متوسط طبقہ پرائیویٹ اسکولوں کی بھاری فیسوں کی شکل میں بھگت رہا ہے۔ صحت کا حال اس سے بھی برا ہے۔ ملک میں کئی سرکاری اداروں کی غفلت کی وجہ سے ہیپاٹائٹس بی اور سی، ملیریا اور دیگر کئی متعدی امراض پھیل رہے ہیں۔ کسی بھی قسم کے امراض ہوں اکثر سرکاری اسپتالوں میں مناسب سہولتیں نہیں اور نجی اسپتالوں میں علاج یا آپریشن وغیرہ کے اخراجات اسّی نوّے ہزار ماہانہ کمانے والوں کی استطاعت سے بھی باہر ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے عوام کی کئی مشکلات کا ایک بڑا سبب کرپٹ حکمراں اور بدعنوان افسران ہیں۔ یہ بات جزوی طور پر درست ہوسکتی ہے۔ لیکن ان مسائل کا اصل ذمہ دار ملک کا دولت مند استحصالی طبقہ ہے۔ جاگیردارانہ یا استحصالی معاشروں میں عوام کے درمیان مالی فرق کو آبادی کے محض چند فی صد پر مشتمل امیر طبقہ اپنے مفاد میں استعمال کرتا ہے۔ پاکستان میں دولت کی پیدائش کے معروف ذرائع میں صنعت، زراعت، تجارت، خدمات اور سیاحت وغیرہ شامل ہیں لیکن پاکستانی معیشت کی اصل تصویر دیکھنے کیلئے ہمیں غیرمعروف ذرائع یعنی رشوت، ملاوٹ، بلیک مارکیٹنگ، اسمگلنگ وغیرہ کو بھی نظر میں رکھنا ہوگا۔ ایسی آمدنی کے ذریعے متوازی معیشت پھلتی پھولتی ہے۔ چوری ڈکیتی یا دھوکہ دہی کے علاوہ یہ ناجائز آمدنی کہیں دو افراد اور کہیں زیادہ افراد کے باہمی لین دین کے ذریعے جنم لیتی ہے۔ اس باہمی لین دین میں کسی کا حصہ خواہ کتنا ہی کیوں نہ ہو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ہر ناجائز آمدنی کی بنیاد حق تلفی پر ہے۔ حق تلفی کرنے والا ہر آدمی حقوق العباد کی ادائی میں کم یا زیادہ کوتاہی کا مرتکب ہوتا ہے۔ حق تلفی محدود سطح پر ہو یا وسیع پیمانے پر ہورہی ہو اس سے احساس محرومی، عدم اطمینان اور انتشار پیدا ہوتا ہے۔ ایسے عدم اطمینان اور انتشار کو اطمینان اور اتحاد میں تبدیل کرنے کے بجائے غیر مستحکم معاشروں میں دولت مند بارسوخ طبقے کے ذہین و فطین مشیر مذہبی شدت پسندی، نسلی عصبیت، لسانی امتیاز کے نعروں میں تبدیل کردیتے ہیں۔ منفی سوچ پر مبنی ایسے نعروں کی مقبولیت کیلئے عوام کو تعلیم سے دور رکھنا اور جذباتیت میں الجھائے رکھنا ضروری ہے۔ برصغیر کے تینوں ممالک پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں بارسوخ امیر طبقات کی اس حکمت عملی کے مشاہدے بار بار ہوئے ہیں۔ رشوت، اقرباپروری، بلیک مارکیٹنگ جیسی خرابیاں آزادی سے پہلے بھی ہندوستان بھر میں موجود تھیں۔ پاکستان کے قیام سے چند دن پہلے 11 اگست 1947کو بانیٔ پاکستان نے مجلسِ دستور ساز سے خطاب کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا تھا کہ ’’ہندوستان میں رشوت ستانی اور بدعنوانی ایک زہر کی طرح پھیلے ہوئے ہیں۔ ہمیں (پاکستان کی اسمبلی اور حکومت کو) آہنی ہاتھوں سے اس زہر کا قلع قمع کردینا چاہئے۔ دوسری لعنت چور بازاری ہے۔ آپکو اس لعنت کا بھی خاتمہ کرنا ہوگا۔ چور بازاری معاشرے کیخلاف ایک بہت بڑا جرم ہے۔‘‘
کسی بھی ملک کو کرپشن سے پاک کرنے اور اسے معاشی اور سماجی استحکام دینے کیلئے ملک میں دیانت دار باصلاحیت لیڈر شپ ہونانا گزیر ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات( 1948) اور قائد ملت لیاقت علی خان کی شہادت( 1951) کے بعد پاکستان کی برسراقتدار جماعت عوام کی حمایت اور خود پر اعتماد کے جواہر سے خالی ہوچکی تھی۔ ان حالات نے جاگیرداروں اور دولت مندوں کیلئے پاکستان کی پالیسیوں پر اثر انداز ہونا زیادہ آسان بنا دیا۔پاکستان کے کروڑوں عوام1951ء کے بعد حقیقی قیادت کے خلا کے نقصانات آج تک بھگت رہے ہیں۔ 71ء اور اسکے بعد ہونیوالے ہر انتخابات میں غریبوں سے ووٹ لے کر پارلیمنٹ میں جانے والوں کی اکثریت وہاں پہنچ کر غریبوں کے بجائے امیر طبقات کے مفادات کی نگہبان بنتی رہی ہے۔ اور ایسا کیوں ہوتا ہے؟ دراصل کسی موثر اور تیز رفتار نظام احتساب کی عدم موجودگی میں حلقے کے عام ووٹر کی اہمیت ہی ختم ہوجاتی ہے۔ پاکستان میں انتخابات لڑنا کروڑ ہا کروڑ روپے کے اخراجات مانگتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی ترجیح اقتدار تک پہنچنا ہوتا ہے۔ اس مقصد کو پانے کیلئے سیاسی جماعتیں جاگیرداروں، صنعت کاروں اور دیگر شعبوں کے دولت مندوں سے فنڈنگ کی طالب ہوتی ہیں۔ دولت مندوں کی طرف سے سیاسی جماعتوں کو دی جانے والی رقوم عطیات نہیں بلکہ سرمایہ کاری ہوتی ہیں۔ ہرسرمایہ کاری اپنے لئے محفوظ منافع چاہتی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 2018ءکے انتخابات میں قومی اسمبلی کے ایک حلقے میں ووٹر مہم چلانے کے اخراجات ایک ارب روپے کے لگ بھگ ہوں گے۔ چلئے! اخراجات کے اس اندازے کو ایک چوتھائی بھی کرلیں تو غریب ووٹرز اپنے جیسے غریب امیدوار کیلئے اتنی بڑی رقم کا بندوبست کیسے کرسکیں گے۔ غریب اور مڈل کلاس طبقوں سے تعلق رکھنے والے جب قانون سازی پر اثر انداز ہونے کی سکت ہی نہیں رکھتے تو ملک میں مراعات یافتہ طبقے کو تقویت پہنچانے والے نظام کے ذریعے غریبوں کے حالات کیسے بدلیں گے…؟
آٹے میں نمک کے برابر غریب یا مڈل کلاس سے کوئی شخص پارلیمنٹ میں پہنچ بھی جائے تو یا تو اس کی آواز کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی یا پھر چند ہی سال میں اس غریب رکن پارلیمنٹ کا شمار بھی ملک کے امراء میں ہونے لگے گا۔2013ء کے انتخابات کے ذریعے برسر اقتدار آنے والی وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنی آئینی مدت کے آخری مہینے گزاررہی ہیں۔ پاکستان کے عوام کی حالت 2018ء میں مجموعی طور پرویسی ہی ہے جیسی 2013ء میں تھی۔ شرح تعلیم، ماں اور نوزائیدہ بچوں کی حالت، صحت کی سہولتیں تک عام آدمی کی رسائی، پینے کے صاف پانی اور دیگر بنیادی ضروریات کی فراہمی میں عالمی انڈیکس میں پاکستان کہیں 120کہیں 130نمبروں کے بعد نظر آتا ہے۔ عوام کی حالت بہتر بنانے کے پروگرام پیش کرنے کے بجائے سیاسی لیڈر اپنے اپنے مفادات کیلئے آج کل تو سپریم کورٹ کے اختیارات محدود کرنے اور نیب کے قانون کو ختم کرنے کی باتیں کررہے ہیں۔ 1971ء کے بعد سے پاکستان پر سب سے زیادہ حکومت کرنیوالی مسلم لیگ ہو یا پیپلز پارٹی یا آئندہ حکومت کی خواہش رکھنے والی تحریکِ انصاف، ایم کیو ایم، جے یو آئی، جماعتِ اسلامی، اے این پی یا دیگر جماعتیں کسی نے بھی عوام کی فلاح کیلئے کوئی قابلِ عمل پروگرام پیش نہیں کیا۔ غریب ووٹر جس پارٹی کو چاہیں ووٹ دیں لیکن دانشمند حلقے سمجھتے ہیں کہ اپنی حالت کی بہتری کیلئے غریب ووٹرز کو ان پارٹیوں سے کوئی اُمید نہیں رکھنی چاہئے۔ غریبوں اور بے بسوں کی امیدیں ٹوٹتی ہیں تو انہیں بہت دکھ ہوتا ہے۔ مزید دکھ یہ کہ ان کیلئے دلاسا بھی نہیں۔ استحصالی معاشروں میں رہنے والے غریبوں کے پاس غربت اور اس سے متعلقہ اذیتوں سے نجات کا ایک ہی طریقہ ہے۔ سیاستدانوں کے دکھائے سبز باغوں، جھوٹے وعدوں اور کھوکھلے دعوؤں پر اعتبار کرنے کے بجائے اپنی موجودہ حالت بہتر بنانے اور اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کیلئے اپنی راہیں خود تراشی جائیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)