کراچی کو گاندھی سے تعلق پر فخر ہے، بھارتی اخبار

May 10, 2018

بھارت میں علی گڑھ یونیورسٹی سے قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویر ہٹائےجانے سے متعلق تنازع کے پس منظر میں بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز لکھتا ہے’ کراچی چیمبرآف کامرس پر آج بھی شیشے کے گلاس میں گاندھی کے نام کی تختی آویزاں ہے۔کراچی مہاتما گاندھی کے ساتھ اپنے تعلق کا فخریہ اظہار کرتا ہے۔

سندھ مدرسہ اسکول کے سامنے آج بھی کراچی انڈین مرچنٹس کی عمارت موجود ہے جس کا گاندھی نے 1934 میں افتتاح کیا تھا۔ آج وہاں کراچی چیمبر آف کامرس کا دفتر ہے اور گاندھی کے نام کی تختی لگی ہے۔یہ عمارت کراچی کی دو بڑی شاہراؤں ایم اے جناح روڈ اور آئی آئی چندریگر روڈ کے درمیان موجود ہے۔

اس کی تعمیر میں جو میٹریل استعمال کیا گیا وہ جودھ پور سے لایا گیا تھا جس پراصلی حالت میں موجود سنگ بنیاد کی تختی واضح کرتی کہ اسے جولائی 1934 میں مہاتما گاندھی کی طرف سے رکھا گیا تھا۔اس وقت کراچی شہر کی کاروباری برادری کی نمائندہ تنظیم کراچی انڈین مرچنٹس ایسوسی ایشن تھی۔

اخبار کے مطابق گزشتہ ہفتے کراچی کے دورے میں بھارتی ہائی کمشنر اجے بساریہ نے اسی سنگ بنیاد کی تختی کے سامنے مختلف انداز میں سیلفیاں لیں ۔ علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبا یونین آفس سے جناح پورٹریٹ کو ہٹانے کے سوال پر اجے بساریہ نے صحافیوں سے کہا کہ دونوں اطراف کے رہنماؤں کا احترام کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ علی گڑھ یونیورسٹی میں جو ہوا اس پر میں کچھ نہیں کہنا چاہتا لیکن یہ کہوں گا کہ ہمیں دونوں ممالک کے رہنماؤں کا احترام کرنا چاہئے۔

کراچی لینڈ مارکس واک کی طرف سے بنائے گئے نشان میں بھی یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ گاندھی کی طرف سے کراچی چیمبر کے لئے رکھی گئی بنیاد، عمارت کے خدوخال اوراس پر کنندہ لکڑی کے کام کو تبدیل نہیں کیا گیا لہذا یہ ایک سیاسی ورثہ ہے ۔کراچی چیمبر کے رکن اور سابق صد ر خالد فیروز کا کہنا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ مہاتما گاندھی کی طرف سے رکھا گیا سنگ بنیاد عمارت کی شہرت اور کردار میں اضافہ کرتا ہے۔

اخبار لکھتا ہے کہ کراچی بھر میں کئی ایسی عمارتیں موجود ہیں جو سابق ہندو باسیوں کی تعمیر کردہ ہیں۔کراچی چیمبر سے ذرا سے فاصلے پر سیٹھ رام گوپال گووردھن داس موہٹہ ہندو جمخانہ ہے جسے حکومت نے آرٹ کے مرکز میں بدل دیا ہے، تاہم عمارت کا نام وہی ہے۔

کراچی کا مرکزی میوزیم ’موہٹہ پیلس ‘ کا نام اس کے مالک ہندو مارواڑی تاجر شیورتن چندرا رتن موہٹہ کی وجہ سے رکھا گیا کیونکہ اس نے موسم گرما میں اپنے قیام کےلئے اسے بنایا تھا۔

اب بھی کراچی کے برنس روڈ پر کئی عمارتیں ہیں جو متوسط طبقے کے زیر رہائش ہیں اور ان پر اب بھی ہندومالکوں کا نام آویزاں ہیں۔کئی عمارتوں اور بالکونیوں کے اوپر ’اوم ‘ کی علامت بھی دیکھی جاسکتی ہے ۔

سن1931میں کراچی انڈین مرچنٹس ایسوسی ایشن کی طرف سے سندھ ہائی کورٹ کی عمارت کے سامنے گاندھی کا ایک دیوقامت کانسی کا مجسمہ نصب کیا گیا جسے 1950کے فسادات کے دوران گرا کر توڑ دیا تھا۔مجسمے کے ٹکڑوں کو 1981 میں کراچی میں سابق بھارتی قونصل خانے کے حوالے کردیا گیا تھا، بھارتی حکام نے بعد میں مجسمے کی مرمت کرکے اسے اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن کی لابی میں نصب کیا۔

اخبار کے مطابق نئی دہلی میں وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ سے ملاقات کے بعد ایم او یو کے وائس چانسلر طارق منصور نے صحافیوں کو بتایا کہ جناح کے پورٹریٹ کو ہٹانے کا مطالبہ’نان ایشو‘ ہے ۔

بی جے پی کے مقامی رکن پارلیمان ستیش کمار گوتم نے یونیورسٹی کے یونین حال میں آویزاں پاکستان کے بانی محمد علی جناح کی تصویر پر اعتراض کرتے ہوئے اسے وہاں سے ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ تصویر وہاں 1938 سے لگی ہوئی ہے، جب یونیورسٹی کے طلبہ نے جناح کو اپنی یونین کی تاحیات رکنیت دی تھی ۔ تصویر ہٹانے کے مطالبے پر تنازع پیدا ہوگیا اور پرتشدد واقعات میں دو افرادکو گرفتار کرلیا گیا اور امتحانات ملتوی کردیئے گئے ۔