احتساب کا بے لاگ نظام ضروری

May 12, 2018

قومی احتساب بیورو(نیب) نے آٹھ مئی کو ایک ایسی پریس ریلیز جاری کی جس نے قومی سطح پر ایک بہت بڑا طوفان اٹھا دیا ہے۔ یہ طوفان تھمنے کے بجائے شدت اختیار کرتا جا رہا ہے اور کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کیا کچھ اسکی لپیٹ میں آئے گا۔ نیب کے پریس ریلیز یا اعلامیے میں ورلڈ بنک کی کسی پرانی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف اور کچھ دوسروں نے منی لانڈرنگ کرتے ہوئے 4.90 ارب ڈالر یعنی تقریبا پونے چھ کھرب روپے پاکستان سے بھارت منتقل کیے۔ اتنی بھاری رقم کی منتقلی سے زر مبادلہ کے بھارتی ذخائر کئی گنا بڑھ گئے اور پاکستانی ذخائر کو نقصان پہنچا۔ پریس ریلیز کےمطابق نیب کے چیئرمین جسٹس ریٹائر جاوید اقبال نے نواز شریف اور دیگر کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا ہے۔
یوں تو احتساب کے موجودہ موسم میں آئے روز کسی نہ کسی تفتیش یا تحقیق کی خبر سامنے آتی رہتی ہے لیکن اس خبر نے پورے ملک کو چونکا کر رکھ دیا ۔ یہ بات بھی اب کوئی زیادہ حیران کن نہیں رہی کہ نواز شریف، مسلم لیگ (ن)، اور اسکی حکومتی مشینری چلانے والی بیورو کریسی نیب کی فعالیت کا پسندیدہ ہدف ہے۔ اسکے باوجود یہ انکشاف در ودیوار ہلا دینے کیلئے کچھ کم نہ تھا کہ تین بار وزارت عظمیٰ کے بلند منصب پر فائز رہنے والے نواز شریف نے وطن عزیز کے مفادات کو شدید نقصان پہنچاتے ہوئے منی لانڈرنگ کے ذریعے اربوں ڈالر ایک دشمن ملک کے قومی خزانے تک پہنچائے۔ ردعمل یقینی تھا۔جیسے ہی یہ خبر سامنے آئی ، چند منٹ کے اندر اندر کھوج لگانے والے متحرک ہو گئے۔ یوں بھی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں ہر شخص پورا دفتر اپنے چھوٹے سے سیل میں لئے پھرتا ہے اور بیشتر لوگ تو اچھے خاصے تفتیش کار بن چکے ہیں۔ لہذا شام کے ٹاک شوز کا میلہ سجا تو پتہ چلا کہ نہ تو ورلڈ بنک نے کوئی تازہ رپورٹ جاری کی ہے۔ اورنہ ہی کہیں سے کوئی اور انکشاف نازل ہوا ہے۔ یہ ورلڈ بنک کی دو سال پہلے کی رپورٹ کا ایک سطری " انکشاف "ہے جو شاید نیب کی آنکھوں کی بینائی کئی گنا بڑھ جانے کے باعث اب اسکے چیئرمین یا اہلکاروں کی نظر سے گزرا ہے۔
اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے سر شام ہی تردیدی بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ نہ تو ورلڈ بنک نے منی لانڈرنگ کی بات کی ہے، نہ ہی کسی شخص کا حوالہ دیا ہے بلکہ اس نے تمام ممالک میں موجود دوسرے ممالک سے آنے والے آباد کاروں کی تعداد کے پیش نظر اندازہ لگایا ہے کہ انہوں نے کتنی رقوم اپنے آبائی وطن بھیجی ہوگی۔ اسکے ساتھ ہی خود ورلڈ بنک نے بھی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ انکی رپورٹ کو غلط معنی پہنا ئے جا رہے ہیں۔ یہ ایک تخمینہ ہے۔ نیز یہ کہ انہوں نے نہ تو اپنی رپورٹ میں کسی فرد کو مورد الزام ٹھہرایا ہے نہ ہی منی لانڈرنگ کی بات کی ہے۔ یہ ترسیل زر کا ایک عمومی اندازہ یا تخمینہ ہے۔
یہ بات بھی سامنے آئی کہ دو سال پہلے بھی اس مبینہ رپورٹ کا شوشہ اٹھا تھا۔ تب یہ کار خیر پی۔ٹی۔آئی نے سر انجام دیا تھا اور اسکے سرخیل اسد عمر تھے۔ اس وقت بھی ورلڈبنک نے صورتحال کی وضاحت کی تھی۔ اس وقت بھی اسٹیٹ بنک نے واضح الفاظ میں اسکی تردید کی تھی۔ اس وقت میڈیا کے ایک بڑے حلقے نے اسے مضحکہ خیز قرار دیا تھا۔ وال اسٹریٹ جرنل، ڈان اور بزنس ریکارڈر جیسے اخبارات نے اس پر اداریے اور خصوصی نوٹ لکھے تھے۔فرق صرف یہ تھا کہ اس وقت نواز شریف کا نام نہیں لیا گیا تھا۔ آج کل چونکہ ہرا لزام یا جرم کا رشتہ نواز شریف سے جوڑنا مقبول فیشن بن چکا ہے اس لئے دو سال پہلے والی کہانی میں اضافہ کر دیا گیا کہ کھربوں روپے کی بھارت منی لانڈرنگ میاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں نے کی۔
دراصل ورلڈ بنک کی رپورٹ تخمینوں پر مشتمل تھی۔ بنک نے 1947 میں ہندستان سے پاکستان ہجرت کرنے والے لاکھوں مہاجرین کو کام اور محنت مزدوری کیلئے دوسرے ملک جانے والے افراد کے طور پر لیا۔ بالکل ایسے جیسے پاکستان سے لوگ مشرق وسطی، سعودی عرب یا یورپ محنت مزدوری کیلئے جاتے ہیں۔ اس تحقیقی متھاڈالوجی کا اطلاق کرتے ہوئے جب مہاجرین کو کام کاج کیلئے پاکستان آنے والے بھارتی شہری سمجھ لیا گیا، تو مشین نے اندازہ لگایا کہ 60 لاکھ سے زیادہ ان کارکنوں نے تقریباََ 5 ارب ڈالر بھارت بھیجے ہونگے۔ اسی طرح کی غلطی کئی دوسرے ممالک کے بارے میں بھی ہوئی جسے ماہرین نے مضحکہ خیز قرار دیا۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ غلطی کا اندازہ ہوتے ہی نیب کا اعلامیہ واپس لے لیا جاتا اور معذرت کر لی جاتی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ پہلے ایک اور پھر دوسری وضاحت نیب کی طرف سے جاری ہوئی جسے " ــ عذر گناہ بد تر از گناہ " قرار دیا جا رہا ہے۔ تازہ ترین دلیل یہ سامنے آئی ہے کہ ایک اردو اخبار میں کسی غیر معروف کالم نگار نے دو برس پرانی ورلڈ بنک رپورٹ کا سہارا لے کر اربوں ڈالرزبھارت بھیجنے کا معاملہ اٹھایا۔ اس کالم کو بنیاد بنا کر نیب نے تحقیقات کا نہ صرف آغاز کر دیا بلکہ قوم کو بھی بذریعہ پریس ریلیز یہ بتانا ضروری خیال کیا کہ اس گھنائونے جرم کا مرکزی کردار نواز شریف ہے۔
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اسے انتہائی سنگین معاملہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے تجویز پیش کی ہے کہ نیب کی طرف سے سابق وزیر اعظم پر بے بنیاد اور انتہائی افسوس ناک الزام عائد کرنے کا جائزہ لینے کیلئے ہائوس کی ایک خصوصی کمیٹی قائم کی جائے۔ یہ کمیٹی چیئرمین نیب کو طلب کرے اور ان سے پوچھے کہ انہوں نے کس بنیاد پر ساری دنیا میں ملک کی جگ ہنسائی کی ہے۔ یہ وقت مگر سیاسی کشمکش کا ہے۔ انتخابات سر پر کھڑے ہیں۔ گمان یہ ہے کہ اس طرح کی کمیٹی کیلئے شاید مسلم لیگ (ن) کو زیادہ حمایت نہ ملے لیکن وہ پھر بھی کمیٹی قائم کرنے کی پوزیشن میں ہے۔سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے بھی میڈیا ٹاک میں اپنا ردعمل دیا ۔ اس الزام کو گھٹیا اور نا قابل برداشت قرار دیا۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ چیئرمین نیب 24 گھنٹوں میں ثبوت دیں یا استعفیٰ۔ دیکھنا مگر یہ ہے کہ اگر اس مطالبے پر عمل نہیں کیا جاتا (جسکا قوی امکان ہے) تو مسلم لیگ(ن) کیا لائحہ عمل اختیار کرتی ہے۔ باخبر حلقے یہ امکان بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ ایسی صورت میں مسلم لیگ (ن) براہ راست قانونی اقدامات کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔
حقیقت تو یہی ہے کہ نیب اپنی ساکھ کھو چکا ہے۔ دور آمریت ( مشرف دور) میں قائم ہونے والے اس ادارے کو بری طرح سیاسی مخالفین کو دبوچنے اور سرکاری لیگ بنانے کیلئے استعمال کیا گیا۔ آج بھی شاید ہی کوئی ایسا شخص ملے جو نیب کو قانون و انصاف کی سیدھی راہ پر چلنے والا معتبر ادارہ خیال کرتا ہو۔ اب تو وقت گزر گیا ہے لیکن نئی پارلیمنٹ کو ضرور اس ساری صورتحال کا ازسر نو جائزہ لیتے ہوئے ،میثاق جمہوریت کے مطابق، احتساب کا ایک کھرا اور بے لاگ نظام وضع کر کے، ڈکٹیٹر کی اس نشانی کو رخصت کر دینا چاہئے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)