’گدگدیاں‘

May 12, 2018

قریشہ فاطمہ فاروقی ، محمد علی فاروقی۔ رحیم یار خان

٭ ایک دیہاتی امرود بیچ رہا تھا ایک صاحب اس کے پاس آئے اور پوچھا۔

’’کیا کلو بیچ رہے ہو؟‘‘

دیہاتی نے کہا ’’پندرہ روپے کلو۔‘‘

ان صاحب نے کہا۔ ’’امرود تو سب ہی اچھے نظر آرہے ہیں ایسا کرو سارے دے دو۔‘‘

دیہاتی نے یہ سن کر ایک نظر انہیں گھور کر دیکھا پھر بولا ’’اگر سارے ہی تمہیں دے دوں گا تو بیچوں گا کیا؟‘‘

٭…٭…٭

٭ایک ریاضی کا ماسٹر سڑک پار کررہا تھا کہ ایک تیز رفتار کار نے اسے ٹکر مار دی اور وہ سڑک پر جا گرا۔ لنگڑاتے ہوئے وہ پولیس اسٹیشن پہنچا اور شکایت کی۔

پولیس آفیسر نے پوچھا۔ ’’جناب کیا آپ نے کار کا نمبر نوٹ کیا تھا۔‘‘

’’نہیں جناب، کار اس قدر تیز تھی کہ میں نمبر نوٹ نہیں کرسکا البتہ اتنا یاد ہے کہ کار کے نمر کو دو پر تقسیم کریں اور حاصل کو اصل سے ضرب دیں تو حاصل ضرب چار سو ہوگا۔

٭…٭…٭

٭ ڈاکٹر (مریض سے): اب آپ خطرے سے باہر ہیں، پھر بھی آپ اتنا کیوں ڈر رہے ہیں؟‘‘

مریض (بے چارگی سے): ’’جس ٹرک سے میرا ایکسیڈنٹ ہوا تھا اس کے پیچھے لکھا تھا۔ زندگی رہی تو پھر ملیں گے۔‘‘

٭…٭…٭

٭ایک پاگل نے دوسرے سے کہا: ’’لوگ ہمیں پاگل کیوں کہتے ہیں؟‘‘

دوسرے پاگل نے جواب دیا: ’’لوگوں کو دفع کر، یہ لے لیموں ، لسی بنا۔‘‘

٭…٭…٭

٭احمد (احسن سے):

’’یہ کتاب بہت دلچسپ ہے تم نے کتنے کی لی؟‘‘

احسن: ’’جس وقت میں نے یہ لی تھی، اس وقت دکاندار دکان پر نہیں تھا۔‘‘

٭…٭…٭

٭پولیس:’’تمہیں کل صبح پانچ بجے پھانسی دی جائے گی۔‘‘

سردار ’’ہا ہا ہا ہا۔‘‘

پولیس:’’ ہنس کیوں رہے ہو؟‘‘

سردار: میں تو اٹھتا ہی صبح نو بجے ہوں۔‘‘