بجلی کا بدترین بریک ڈائون:انکوائری کرائیں

May 18, 2018

رمضان المبارک کے آغاز سے صرف ایک روز قبل بدھ کی صبح شروع ہونے والے بجلی کے بدترین بریک ڈائون سے پورے پنجاب، خیبرپختونخوا اور آزاد کشمیر میں زندگی کا نظام8 سے14گھنٹے تک تقریباً مکمل اور سندھ میں جزوی طور پر مفلوج ہو جانے کی وجہ وفاقی حکومت کے پاور ڈویژن کی جانب سے فنی اور تکنیکی خرابی بتائی گئی ہے لیکن اس شعبے کے ماہرین کا ٹھوس دلائل کی بنا پر کہنا ہے کہ اس میں انتظامی نااہلی کابھی بہت زیادہ عمل دخل ہے۔ موجودہ حکومت کے دور میں بجلی کا یہ چوتھا بڑا بریک ڈائون ہے جو گدو مظفر گڑھ پاور لائن میں خرابی سے پیدا ہوا اس کے نتیجے میں تمام بڑے بجلی گھر حتیٰ کہ چاروں چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹس بھی ٹرپ کر گئے اور ملک میں 4ہزار میگاواٹ سے بھی زیادہ بجلی کی کمی واقع ہو گئی۔ اس اچانک افتاد سے گھروں کے علاوہ اسپتال، تعلیمی ادارے، مارکیٹیں اور دفاتر بری طرح متاثر ہوئے، اسپتالوں میں مریضوں کے آپریشنز اور عدالتوں میں مقدمات ملتوی کرنا پڑے۔ قومی اور پنجاب اسمبلی کی کارروائی رک گئی نیو اسلام آباد ایئرپورٹ تاریکی میں ڈوب گیا۔ پروازوں کا شیڈول درہم برہم ہو گیا اورپنجاب میں صنعتوں کے لئے دس گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کرنا پڑی۔ بجلی نہ ہونے سے پانی کی فراہمی بھی معطل ہو گئی۔ شدید گرمی سے بے حال عوام سراپا احتجاج بن گئے اور کئی مقامات پر مشتعل لوگوں نے دھرنے دیئے۔ پاور ڈویژن کے ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ مشکلات منگلا، تربیلا اور غازی بروتھا کے پاور ہائوسز میں فنی خرابی سے پیدا ہوئیں ترجمان کے مطابق سسٹم میں پہلے سے موجود فاضل بجلی کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ عارضی ہے جس پر جلد قابو پا لیا جائے گا۔ فنی خرابی تو پونے 8گھنٹے میں دور کردی گئی لیکن بجلی پوری طرح بحال ہونے میں کئی گھنٹے زیادہ لگ گئے۔ بلوچستان میں اس دوران مجموعی طور پر صورت حال معمول کے مطابق رہی لیکن اس کے وہ علاقے جو پنجاب کی سرحد پر واقع ہیں گھنٹوں بجلی سے محروم رہے۔ موجودہ حکومت کے دور میں بلاشبہ بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہوا، لوڈ شیڈنگ کا مکمل خاتمہ اس کے منشور میں شامل تھا اور اپنی مدت کے آخری مہینوں میں وہ دعویٰ بھی کر رہی ہے کہ اس نے ملک کو لوڈ شیڈنگ سے نجات دلا دی ہے۔ اب صرف ان علاقوں میں لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے جہاں بجلی چوری ہو رہی ہے، اول تو بجلی کی چوری روکنا بھی حکومت اور اس کے عمال کی ذمہ داری ہے چوری نہیں روکی جاتی تو یہ بھی حکومت ہی کی ناکامی ہے لیکن عملی صورت حال یہ ہے کہ چند مخصوص شہروں کو چھوڑ کر زیادہ ترعلاقوں، خصوصاً دیہی علاقوں میں اب بھی لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے جہاں کے لوگوں کاکہنا ہے کہ وہ باقاعدگی سے بل ادا کر رہے ہیں۔ وزارت پانی و بجلی نے دعویٰ کیا تھا کہ ملک میں بجلی کی پیداوار 20ہزار میگاواٹ کی مجموعی طلب سے زیادہ ہو گئی ہے اور اس حوالے سے اب کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ حکومتی عہدیدار بھی مسلسل اپنی تقریروں میں لوڈ شیڈنگ کے مکمل خاتمے کے اعلانات کر رہے ہیں لیکن حقیقی منظر ایسا نظر نہیں آتا اور عوام کی توقعات اب بھی تشنہ تکمیل ہیں۔ بجلی کی پیداوار تو بڑھی ہے لیکن جنریشن سے قطع نظر ڈسٹری بیوشن اور ٹرانسمیشن کی خرابیاں پوری طرح دور نہیں کی جا سکیں۔ پھر ہائیڈرو پاور جنریشن جو بجلی پیدا کرنے کا سب سے سستا ذریعہ ہے مسلسل کمی کے رجحان کا شکار ہے، ان خرابیوں کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ وزارت پانی و بجلی کے پاور ڈویژن میں ماہرین کی بجائے زیادہ تر پیشہ ور بیورو کریٹس متعین ہیں جن کا انتظامی تجربہ تولائق تحسین ہو گا مگر فنی معاملات پرا نہیں دسترس حاصل نہیں۔ بدھ کو ہونے والے طویل ترین بریک ڈائون کی تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے جو ہونی چاہئے۔ تحقیقاتی کمیٹی کو دیکھنا چاہئے کہ بجلی کی تقسیم اور ترسیل کا نظام فول پروف اور موثر بنانے کی ناکامی میں بیورو کریسی کی ناقص منصوبہ بندی کا دخل ہے یا سیاستدانوں کی غلط پلاننگ پر بھی اس کی ذمہ داری ڈالی جا سکتی ہے ۔کوشش ہونی چاہئے کہ آئندہ اس قسم کے بحرانوں سے بچنے کے لئے دوسرے ملکوں کی طرح پیشگی اقدامات کئے جائیںاور ان کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جائے۔