اسکردو میں انقلابِ نسواں

May 18, 2018

یہ بلتستان کے شہر اسکردو کی بات ہے۔ صبح سویرے ہم نے دیکھا، کالج کی ایک جوان ، خوش شکل اور خوش لباس طالبہ اپنی درس گاہ کی بس کے انتظار میں سڑک کے کنارے تنہا کھڑی تھی۔ کام پر جانے والے لوگ بڑی تعداد میں سامنے سے گزر رہے تھے۔ نہ کوئی لڑکی کو گھور رہا تھا، نہ آوازے کس رہا تھا اور نہ موٹر سائیکلیں آپس میں ٹکرا رہی تھیں۔ بس آئی جس میں سوار درجنوں لڑکیاں کالج جارہی تھیں۔ اور اسی پر بس نہیں۔ پھر مختلف علاقوں سے اسی جیسی کتنی ہی بسیں آئیں اورتعلیمی ادارے طالبات سے بھرتے گئے۔
یہ اسی اسکردو کا ذکر ہے جہاں میں تقریباً تیس سال پہلے بھی آیا تھا۔ اب جو آیا تو ہرایک نے، یہاں تک کہ سڑک چلتے لوگوں نے بھی مجھ سے پوچھاکہ آج کے اسکردواور اُس وقت کے اسکردومیں آپ کو کیا فرق نظر آیا۔ میں نے کہا کہ کون سا اُس وقت؟میں نے کہا کہ اُس وقت تو یہاں کچھ بھی نہیںتھا۔ بس دریا تھا، ریت تھی ،پہاڑ تھے اور کچھ دکانیں تھیں ۔لوگوں نے پوچھا کہ آج سب سے بڑا کیا فرق دکھائی دیا؟ میں نے کہا کہ آج عورتیں دکھائی دیں۔ ورنہ وہ اپنا پہلا دورہ بھی یاد ہے جب انٹرویو کرنے کے لئے خواتین کی تلاش تھی۔ بڑی مشکل سے دو نو عمر خواتین ملی تھیں ۔کیسا عجب اتفاق ہوا کہ وہ دونوں تیس سال بعد مجھ سے ملنے آئیں۔میری طرح معمّر ہوگئی تھیں لیکن اس دوران پہاڑی فصیلوں کے بیچ پھنسی ہوئی خواتین کو اس مسدود معاشرے میں اوپر اٹھانے کی تحریک میںوہ پیش پیش تھیں۔ میری آنکھوں کو خود پر یقین نہیں آرہا کہ بازاروں میں ، گلی کوچوں میں، دفتروں اور کاروباری اداروں میں اتنی بڑی تعداد میں خواتین کس سہولت سے آرہی تھیں اورجا رہی تھیں۔ کاریں چلا رہی تھیں اور شہر کے تعلیمی ادارے لڑکیوں سے بھرے ہوئے تھے۔یہ جو میں نے دیکھا اس میں حیرت کی کوئی ایسی بات نہیں، حیرت کی بات یہ ہے کہ راہ چلتی خواتین کو ان ہی راہوں پر چلتے ہوئے مرد آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ رہے تھے۔ کیا مجا ل کہ کوئی ان خواتین کو گھور کر دیکھے،آوازہ کسے یا کھوے سے کھوا بھڑانے کی کوشش کرے۔ شہر میں کچھ بازار صرف خواتین کے لئے ہیں۔ بعض دکانوں پر لکھا ہے کہ مردوں کا داخلہ سخت ممنوع ہے۔پھر بھی اتنا ضرور ہے کہ خواتین اپنی ٹولیاں بنا کر چلتی ہیں لیکن اس کا یہ سبب نہیں کہ انہیں مردوں سے کوئی خوف ہے۔یہ بس یہاں کی روایت ہے۔لڑکیاں دن کے اوقات میں اسکول یا کالج جاتی نظر آتی ہیں اور سہ پہر کو جب سورج اونچے پہاڑوں کی آڑ میں جانے کو ہوتا ہے، وہ ٹیوشن پڑھ کر لوٹ رہی ہوتی ہیں۔ ساتھ میں گھر کا کوئی مرد نگراں بن کر چل رہا ہو، میری آنکھیں اسے ڈھونڈتی ہی رہیں۔میں نے وہ دن نہیں دیکھے لیکن لوگ بیان کرتے ہیں تو ان کی بات سچ لگتی ہے۔ زیادہ پرانی بات نہیں جب اس وادی میں عورتوں کا گھر سے نکلنا محال تھا۔ کوئی عورت بازاروں میں گھومتی تو لوگوں کا بس نہیں چلتا تھا کہ اسے کچّا چبا جائیں۔ عورتیں کاریں چلائیں، ناممکن۔ عورتیں ملازمت کریں، ہرگز نہیں، عورتیں کسی بھی کام کی غرض سے مردوں سے بات کریں، خارج از امکان۔ وہ دن میں کیسے بھول سکتا ہوں جب شہر اسکردو میں قیام کے دوران احباب کے ساتھ ہم ایک اچھے بھلے طعام خانے میں گئے اور ہمارے ساتھ دو تین خواتین بھی تھیں۔ ہم سب بیٹھے چائے پی رہے تھے کہ اچانک دروازہ کھلا اور دو علمائے دین داخل ہوئے۔ ان کے داخل ہونے کی دیر تھی ہمارے ساتھ کی خواتین دوڑ کر ایک عقبی کمرے میں جا چھپیں۔ میں نے اس سے پہلے خواتین کو اس رفتار سے دوڑتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ اب لطف کی بات سنئے کہ آج جب علما کہلانے والے حضرات کویہ واقعہ سنایا گیا تو وہ خوب ہنسے اور ان سے زیادہ ان کے گھر کی خواتین ہنسیں۔ وقت پہ نہ جانے کس نے کب اور کس جادو کی چھڑی پھیری ہے کہ آج اسکردو کے گلی کوچوں میں لڑکیوں کے تعلیمی اداروں کی بھر ما ر ہے ۔ لوگ بتاتے ہیں اور ٹھیک ہی بتاتے ہیں کہ شہر کے بعض علمائے دین لوگوں پر زور دے رہے ہیں کہ اپنی بیٹیوں کو تعلیم ضرور دلائیں اور ایک عالم نے شہر میں لڑکیوں کے ایک درجن کے قریب جدید علوم پڑھانے والے ادارے کھولے ہیں۔ مجھے شہر میں خواتین کے ایک بڑے کالج میں مدعو کیاگیا کہ آکر طالبات سے خطاب کروں ۔ بڑا مجمع تھا جس نے بہت دھیان سے میری باتیں سنیں، میرے لطیفوں سے محظوظ ہوئیں اور آخر میں جب مجھ سے سوالات کئے تو میں لڑکیوں کے لہجے کا اعتماد دیکھ کر حیران رہ گیا۔
پھر یہ ہوا کہ معلوم کیا جائے تعلیم کے میدان میں کون آگے ہے،لڑکیاں یا لڑکے۔ شہر سے ذرا باہر بلتستان یونی ورسٹی نے ایک چھوٹے سے دورے میں بڑی سی داستان کہہ سنائی۔ میں فون پر اطلاع دے کروہاں پہنچاتو عملے سے ملنے سے پہلے ذہن سوالات کی لمبی فہرست ترتیب دے چکا تھا۔ میں نے کامن روم میں موجود حضرات سے پوچھا کہ جاننا چاہتا ہوں کہ وہ شے جو مخلوط تعلیم کہلاتی ہے اور اب عرف عام میں جسے کو ایجوکیشن کہتے ہیں ، آپ کے ادارے میں اس کا کیا عالم ہے۔ انہوں نے کہا کہ چلئے آپ کو دکھاتے ہیں۔ ہم سب جلوس کی شکل میں چلتے ہوئے ایک جماعت میں پہنچے جس کا تعلق تعلیم کے شعبے سے تھا۔ کیا دیکھتے ہیں کہ کلاس روم لڑکیوں سے بھرا ہوا ہے او رپیچھے کہیں ایک کونے میں پانچ چھ لڑکے بیٹھے ہیں۔ چلئے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ تعلیم کے شعبے میں مرد استادوں سے زیادہ خواتین کی کھپت ہے اس لئے لڑکیاں اس شعبے میں بڑی تعدادمیں سما گئی ہیں اور لڑکے پانچ چھ رہ گئے ہیں۔ہم سائنس کے شعبے میں گئے۔ وہاں تو لڑکے پانچ چھ بھی نہ تھے۔میں نے پوچھا کہ لڑکیاں تعداد میں آگے ہیں، تعلیم میں بھی کچھ لیاقت کا مظاہرہ کرتی ہیںکہ نہیں؟ کسی نے بتایا کہ اسی سال سائنس کے امتحان میںلڑکے لوٹ پوٹ کر پا س تو ہوگئے تھے لیکن وہ جسے پوزیشن کہتے ہیںجسے اوّل دوئم سوئم سمجھئے، اسے حاصل کر نے میں ایک بھی لڑکا کامیاب نہیں ہوا تھا۔
یہی علاقہ ہے جہاں کبھی لڑکیاں جہالت کی پوٹ بنی گھروں میں گھٹ گھٹ کر رہا کرتی تھیں،کیسی لہراٹھی ہے کہ ان ہی گھروں میں علم کا نور بھر رہا ہے اور اس سے بھی بڑانقلاب یہ ہے کہ علمائے دین نہ خفا ہیں اور نہ برہم۔ لوگ بڑے وثوق سے کہتے ہیں کہ پڑھوں لکھوں کو شمار کیا جائے تو گلگت بلتستان میںان کی تعدادنیچے کے علاقوں سے کہیں زیادہ نکلے گی۔اور اگر یہ بات غلط ہے اور غلط بات کو ماننا گناہ ہے تو چلئے ہم یہ گناہ کئے لیتے ہیں ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)