جنگلی حیات کا قتل

May 20, 2018

عبدالغنی بجیر، اسلام کوٹ

صحرائے تھر میں جنگلی حیات کا بے دردی سے قتل عام ہورہا ہے، اس کی وجہ سے ہرن کی نایاب نسل کےناپید ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔جنگلی حیات کاتحفظ ،محکمہ وائلڈ لائف کی ذمہ داری ہے لیکن ان کی چشم پوشی کی وجہ سے شکاریوں نے وائلڈ لائف سے متعلق تمام قوانین کی دھجیاں اڑا دی ہیں اور آزادی کے ساتھ معصوم جانوروں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔کچھ عرصے قبل تک ضلع تھرپارکر کے 25 سو سے زائد دیہات میں ہزاروں کی تعداد میں مور ،ہرن ،نیل گائے،تیتر اور دیگر نایاب نسل کے جانور پائے جاتے تھے جو تھر کی خوبصورتی کی علامت تھے۔ 1980 میں24ہزار مربع کلومیٹر پر مشتمل صحرائے تھر میں سے نصف سرحدی علاقے کو ان جانوروں کی موجودگی کی وجہ سے،فری سینچری زون قرار دیا گیا تھا۔وائلد لائف ایکٹ 1972 کی شق نمبر 14 کے تحت سینچریز زون علاقہ میں آتشیںہتھیار یعنی بندوق ، رائفل، پستول اور ریوالورلے جانا قابل سزا جرم ہے ۔تاہم ان علاقوں میںمسلح افراد کی آمدو رفت بڑھنےاورجنگلات سے متعلق قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے نایاب جانور وں کی تعداد میں کمی واقع ہونے لگی۔جو پرندے اور جانور آبادیوں کے درمیان گھومتے نظر آتے تھے، انہوں نے اپنی جان بچانے کے لیے ممنوعہ زون کے آخری کونے پاک بھارت سرحدی پٹی کا رخ کیا جو کچھ عرصے تک ان کی پنا گاہ بنی رہی۔لیکن بارسوخ شکاریوں نے انہیں وہاں بھی سکون سے نہیں رہنے دیا اورجانوروں کے تحفظ کے ذمہ داراداروں کی کمزور عمل داری کا فائدہ اٹھاتے ہوئےنگرپارکر ،ڈیپلو ،چھاچھرو ،ڈاہلی تحصیل کی سرحدی پٹی پربھی شکاری پہنچ گئے اور صرف تفریح طبع کے لیے بے زبان جانوروں کی زندگیوں سے کھیلنے لگے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ اس حساس علاقے میں رات کے وقت بھی ان کی سرگرمیاں جا ری رہتی ہیں ، حالاں کہ وہاں 24گھنٹے سرحدی پولیس کا گشت رہتا ہے لیکن وہ بھی ان سے کچھ تعرض نہیں کرتی اور نہ فائرنگ کرنے پر بازپرس کرتی ہے۔کچھ عرصے قبل رات کے پچھلے پہر جب جانور سکون کی نیند لے رہے تھے، شکاری ان پرناگہانی آفت بن کر ٹوٹ پڑے اور کئی جانوروں کوبندوقوں سےبھون ڈالا۔نگرپارکر میں رن آف کچھ کے جنگلات میں بے رحم شکاریوں نے فائرنگ کرکے ایک نیل گائے کو ہلاک کردیا۔ اس کےکچھ ہی روز بعدگاؤں بھیمراڑ میںدوسری نیل گائے کو گولیوں کو نشانہ بنایا زخمی ہونے کے بعد مذکورہ نیل گائے وہاں سے بھاگی لیکن زخموں کی تاب نہ لاکر ہلاک ہوگئی۔اسی طرح کےبے شمار واقعات رونما ہوچکے ہیں ، اگر وائلڈ لائف کا کوئی اہل کار فرض شناسی کے ہاتھوں مجبور ہوکر ان شکاریوں کو گرفتار بھی کرتا ہے توان کے اثر و رسوخ سے مرعوب ہوکر انتظامیہ معاملے کو رفع دفع کر دیتی ہے۔

تھر کے جنگلات میں ہرن کے شکار کے ساتھ ان کے بچوں کی خرید و فروخت کاکاروبار بھی عروج پر ہے۔ محکمہ جنگلات کے باوثوق ذرائع کے مطابق، ہرنی کے چھوٹے بچوں کو پکڑنے کے بعد انہیں 20 سے 25 ہزار میںفروخت کیا جارہا ہے۔ اس کاروبار میں ملوث شکاری مافیاکو بااثر شخصیات کی پشت پناہی حاصل ہے جس کی وجہ سے وہ جنگلات میں قائم چیک پوسٹس سےبغیر کسی چیکنگ یا روک ٹوک کے ، اطمینان کے ساتھ گزر جا تی ہے۔

محکمہ جنگلات کے افسران کی جانب سے اس ضمن میں کوئی کارروائی نہ کیے جانے کے باعث ہرن کی نایاب نسل ’’چنکارا ‘‘کا وجود خطرےمیں پڑ گیا ہے اورتھر کے جنگلات میں یہ معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے۔تھر کے مقامی باشندوں کو جنگلی حیات سے ہم دردی ہے لیکن وہ نہ تو ہتھیار بند شکاریوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں اور نہ ہرن کے بچوں کی فروخت کے کاروبارکے خلاف مزاحمت کرسکتے ہیں۔ ان شکاریوں کوعلاقے کے بااثروں افراد کی بھی حمایت حاصل ہے ۔

نگرپارکر میں قائم محکمہ جنگلی حیات کا دفتر کی صورت حال بھی انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ اس کی عمارت مسافر خانے کا منظر پیش کرتی ہے۔جب تھر کے مکین وائلڈ لائف حکام کی توجہ جانوروں کے غیر قانونی شکار کی جانب مبذول کرانے کی کوشش کرتے اہیں تونشان دہی کے باوجود نہ تو ان شکاریوں کے خلاف وائلڈ لائف قوانین کے مطابق کوئی کارروائی ہوتی ہے اور نہ ہی ہرن کے بچوں کی غیرقانونی تجارت کی روک تھام کے لیے اقدامات بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ اگر کوئی فرض شناس اہل کار کسی شکاری کو موقع سے گرفتار بھی کرکے حکام کے سامنے پیش کرتا ہے، تو اس پر محض چند سو روپے جرمانہ عائد کرکے اسے رہا کر دیا جاتا ہے ۔

صحرائے تھر میں جنگلی حیات کو خاتمے سے بچانے کے لیے قانون سازی کے لیے اسمبلی سے بل پاس کرانے کی ضرورت ہےمگر علاقہ کے منتخب نمائندوں نے اب تک اس جانب کوئی توجہ نہیں دی۔ تھرپارکر کا علاقہ فطرت کا اوپن میوزیم تصور کیا جاتا ہے، جہاں حسین جمیل پرندے مور ،ہرن اور نیل گائے اور دیگرجنگلی حیات اس خطے کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں ۔ان کومکمل طور سے ناپید ہونے سے بچانے اور نسل کی افزائش کے لیے کارونجھر پہاڑ کو نیشنل پارک کا درجہ دیا جائے ، جہاں پر جنگلی حیات بے خوف زندگی بسر کر سکے ۔