انتخابی بلوغت آرہی ہے، ہوسکتا ہے افراد علامت نہ رہیں، اعجاز شفیع

May 21, 2018

کراچی (ٹی وی رپورٹ) چیئرمین گیلپ پاکستان اعجاز شفیع گیلانی کا کہنا ہے کہ اب پاکستان میں انتخابی سیاسی بلوغت کا نیا مرحلہ ہے جس میں ہوسکتا ہے کہ افراد بھی علامت نہ رہیں ، اگر حکومت کے انتظامی حصہ یہ سمجھتے کہ وہ کسی کا بازو مروڑ کر انتخاب کے نتائج کو متاثر کرسکتا ہے تو اسے 2002 اور 2008 سے سبق سیکھنا چاہیے، پولنگ کے دن حکومت بنانے کیلئے مداخلت موثر ثابت نہیں ہوتی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں جیو نیوز کے پروگرام ’جرگہ‘ میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ سلیم صافی کے اس سوال پر کہ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ لوگ مسلم لیگ کو نہیں نواز شریف کو ووٹ دیتے ہیں ،پی ٹی آئی کو نہیں عمران خان کو ووٹ دیتے ہیں شخصیت کا ووٹ ہوتا ہے یا پھر Electable ہوتا ہے جو کسی حلقے میں، آپ کا دعویٰ اسکے برعکس ہے کہ نہیں اکثریت ووٹر پارٹی کو و وٹ دیتا ہے کہ جواب میں چیئرمین گیلپ پاکستان اعجاز شفیع گیلانی کا کہنا تھا کہ شخص ہی پارٹی کی علامت بن جاتا ہے ،عمران خان مقبول تھے لیکن جب وہ پارٹی کی علامت بن گئے تو انکی یہ حیثیت ہوگئی جو آج ہے، نواز شریف بھی رفتہ رفتہ ایک پارٹی کی علامت بنے ہیں اور یہ عمل 1985ء سے شروع ہوا تھا جب ضیا، جونیجو لیگ کے پنجاب میں سربراہ بنے تھے اور 30 سال سے زائد عرصہ بعد انہوں نے اپنے لئے یہ مقام پیدا کیا ہے افراد ایسے ضرور ہوتے ہیں جو کسی پارٹی کی علامت بن جاتے ہیں لیکن اب رفتہ رفتہ یہ ہونے لگا ہے اور یہ اگلا الیکشن بھی ثابت کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہاں میں اعداد و شمار نہیں بلکہ اپنا تخمینہ بتارہا ہوں اور میرا خیال ہے کہ یہ اب پاکستان میں انتخابی سیاسی بلوغت کا نیا مرحلہ ہے جس میں ہوسکتا ہے کہ افراد بھی علامت نہ رہیں اپنی پارٹی کی ، پارٹی ، پارٹی کا ڈھانچہ اور پارٹی کا فیصلہ کرنے کے ادارے ماضی کی نسبت زیادہ مضبوط ہوجائیں ۔ Electableکا کسی پارٹی کی ہار جیت میں کیا کردار ہوتا ہے کے جواب میں چیئرمین گیلپ پاکستان کا کہنا تھا کہ اگر پارٹی یہ غلطی کرے کہ وہ کسی ایسے شخص کو ووٹ دیدے ملک کی چند دس پندرہ فیصد سیٹوں کو چھوڑ کے کہ جن کے پاس مقامی سیاست کرنے کا ڈھانچہ موجود نہ ہو تو ایسی پارٹی ملک میں کبھی بھی بڑی پارٹی ہو نہیں سکتی اس لیے پارٹی کا ٹکٹ دینے کے لئے Electableکی لسٹ میں ہونا ضروری ہے ۔ تو ملک میں Electableکی ایک لسٹ ہے اور وہ Electableایسے ہیں جن کے پاس ایک انتخابی مشین کے لئے جنہیں مذاق میں کھڑ پینچ کہتے ہیں ہر سیٹ پر جتنے پولنگ اسٹیشن ہیں ان سے ملتی جلتی تعداد ہوتی ہے تو یہ ان سے بہت زیادہ ہے جنہیں Electableآپ کہہ سکتے ہیں یعنی جتنی ملک میں انتخابی سیٹیں ہیں چنانچہ پارٹی اپنے ٹکٹ دینے میں اس کا دھیان رکھتی ہے اور جسے ہم بعض اوقات پارٹی کے نظریاتی کارکن کہتے ہیں وہ نظریاتی کارکن اس سے بہت خفا ہوتے ہیں کہ نظریات تو میرے پاس ہیں لیکن انتخابی جڑیں میری عوام میں نہیں تھیں تو پارٹی نے ایسے شخص کو ووٹ دیدیا جس کے پاس انتخابات کی جڑیں تھیں اب چند سیٹیں ایسی ہوتی ہیں کہ یہ جڑیں اور پیسہ جس میں پیسہ زیادہ ہوتا ہے جڑیں کم ہوتی ہیں لیکن زیادہ تر سیٹیں ایسی ہوتی ہیں کہ جس میں جڑیں اصل چیز ہیں پیسہ ہو تو اس کا فائدہ ہوتا ہے۔ سوال Electableپارٹی کو جتواتی ہے تو پارٹی Electableکو جتواتی ہے کے جواب میں اعجاز شفیع گیلانی کا کہنا تھا یہ آپس میں ایک طرح کا میلاپ ہے لیکن اس میں دیکھنا یہ ہے کہ زیادہ وزن کس کا ہے پارٹی کا ہے اور اگر انتظامی کار حکومت کے انتظامی حصہ یہ سمجھتے کہ وہ کسی کا بازو مروڑ کر انتخاب کے نتائج کو متاثر کرسکتا ہے تو اسے 2002 اور 2008 سے سبق سیکھنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے انتظامی حصے کو سیاسی حصے سے زیادہ تعلیم کی ضرورت ہے کہ اس کے جو مفروضے ہیں ملک کی انتخابی سیاست کے بارے میں وہ درست ہوسکیں۔ انہوں نے مزید کہا ملک کے انتظامی حصے کو زیادہ سنجیدگی سے اس بات کا مطالعہ کرنا چاہیے کہ وہ پے درپے ووٹرز سے ووٹ نہیں ڈلوا پاتا اس کے باوجود کہ اس کے پاس ملک کے Electableکا بازو مروڑنے کا اختیار حاصل ہوجائے،10 انتخابات اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ معلق پارلیمنٹ لانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن کامیابی نہیں ہوتی، پولنگ کے دن حکومت بنانے کیلئے مداخلت موثر ثابت نہیں ہوتی ہے، پولنگ سے پہلے اور پولنگ کے بعد مداخلت نتیجہ خیز ثابت ہوجاتی ہے۔جیو نیوز کے پروگرام ”جرگہ“ میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین گیلپ پاکستان ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی نے کہا ہے کہ ووٹرز کے نظریئے ووٹ ڈالنے کے حوالے سے سات چیزوں پر مشتمل ہے اُن میں سرفہرست پارٹی اور اجتماعی ڈیولپمنٹ ہے ہم نے آٹھ الیکشنز میں ملک کی تمام ڈسٹرکٹ سے تین یا چار ہزار سے زائد افراد سے یہ سوال کر چکے ہیں اس بات کو بنیاد بنا کر ہمیں یہ بات تسلیم کرلینی چاہیں کہ یہ دو چیزیں نمایاں ہوتی ہیں ووٹرز کی نظر میں تاہم 1970 ء میں ووٹنگ کے چار ٹرینڈز قائم ہوگئے پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، مذہبی جماعتیں، علاقائی جماعتیں اور پانچواں آزاد امیدوار آپ انکو نظریات کہہ سکتے ہیں جہاں تک مذہبی ووٹرز کا تعلق ہے نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے اسی طرح جو مذہبی جماعتوں کو ووٹ دیتا ہے وہ بھی آسمان سے زمین کی طرف چلا گیا ہے، 1970 ء میں بیس فیصد سے زیادہ تھا حالیہ انتخابات میں پانچ فیصد سے نیچے ہوتا ہے کبھی دو فیصد رہ جاتا ہے۔ اعجاز شفیع گیلانی نے کہا کہ 1970 ءء کے بعد سے مذہبی ووٹ نے اپنا وزن مسلم لیگ میں شامل کر دیا یہی وجہ ہے کہ لوگ یہ سوال اٹھا رہے تھے کہ لبیک کا نقصان مسلم لیگ کو ہوگا اسے آپ پاکستانی سیاست کہیں کہ پچاس سالہ انتخابات میں ملک میں مذہبی رحجانات کے ووٹروں کو تینوں بڑی پارٹیوں میں مختلف صوبوں میں تقسیم کر دیا اُن کی اکثریت پنجاب میں مسلم لیگ کو سندھ میں پیپلز پارٹی کو اور کراچی میں ایم کیو ایم کو ووٹ دیتی رہی ہے اور اُنکی اکثریت پی ٹی آئی کو بھی ووٹ دیتی ہے۔ جہاں تک لسانی بنیادوں پر ووٹ دینے کی بات ہے پاکستان میں دو بڑے حصے ایسے ہیں جہاں زبان کا عمل دخل بہت ہے الیکشن میں جس کی زبان سندھی ہے وہ پیپلز پارٹی کو اور پچھلے الیکشن تک جس کی زبان اردو ہے وہ ایم کیو ایم کو ووٹ دیتی رہی ہے پنجاب میں اکثریت پنجابی بولتی ہے یہاں زبانوں کی اتنا تنوع نہیں ہے اس کے باوجود سندھ کی سیاست میں لسانیت نہیں ہے کراچی میں یہ مسئلہ گھمبیر رہا ہے میری ذاتی رائے یہ ہے کہ لسانی سیاست میں مجھے کوئی خوف نظر نہیں آتا۔ اُن کا مزید کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے ووٹ میں اضافہ ہوا ہے 2013 ءء میں پی ٹی آئی کے سترہ فیصد ووٹ تھے اور اب جو حالیہ سروے ہیں پورے پاکستان کے اب وہ پچیس فیصد ہیں مسلم لیگ ن کا ووٹ تینتیس فیصد تھا اور حالیہ سروے کے مطابق 38 فیصد ہے 2013 ءء کی نسبت اضافہ ہوا ہے مسلم لیگ کا پی ٹی آئی کے مقابلہ میں تھوڑا زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی کے پندرہ فیصد ووٹ تھے پچھلے الیکشن میں جس میں کوئی نمایاں اضافہ یا کمی بہت زیادہ نہیں ہے۔ جہاں تک صوبائی حکومتوں کی بات ہے بلوچستان کے علاوہ باقی تین حکومتوں کے اپنے شہری بہت زیادہ عدم اطمینان کا اظہار نہیں کرتے اس میں اُن کے ووٹنگ کے تعصب کا بھی دخل ہوسکتا ہے تینوں صوبوں میں جو وہاں کے شہری ہیں وہ اپنی اپنی حکومتوں کے حوالے سے بہت عدم اطمینان کا اظہار نہیں کرتے بلوچستان کا اگرچہ کرتے ہیں وہاں ایک بکھری حکومت بنتی ہے تینوں بڑے صوبوں میں اور مرکزی حکومت میں بھی عدم اطمینان کی کیفیت کارکردگی کی بنیاد پر نہیں پائی جاتی آج بھی ستر فیصد سے زیادہ پاکستانی یہ سوچتے ہیں کہ ملک درست سمت میں جارہاہے پچھلے ایک سال کے دوران اس میں چار پانچ فیصد کمی ضرور آئی ہے۔ یہ کبھی کبھار ہوتا ہے کہ لیڈر کی مقبولیت کے حساب سے پارٹی کی مقبولیت نہیں ہوتی 2013 ء کے انتخابات سے پہلے عمران خان کی ذاتی مقبولیت کافی زیادہ تھی اسی لئے ہم نے کہا تھا کہ مقبولیت اور الیکٹیبلٹی گیپ ہوتا ہے لہٰذا ووٹ کو بڑھنے کی گنجائش ہوتی ہے جہاں تک ووٹ پڑنے کی بات ہے اُس کی ایک وجہ پارٹی کی مقبولیت ہے۔بطور شخصیت عمران خان نوازشریف سے تھوڑا سا پیچھے ہیں۔ حالیہ بیانات کے باوجود نوازشریف مقبول ہیں نواز شریف کے بیانات سے جو حالات ہوئے ہیں اُس کا فائدہ عمران خان کے بجائے شہباز شریف کو ہوگا، یہ میں سروے سے ہٹ کر بات کر رہا ہوں ۔ جہاں تک آصف زرداری اور بلاول بھٹو کی بات ہے میں ذاتی طور پر اس سے رنجیدہ ہوں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ ملک کے تمام سیاسی لیڈروں کا ایک قد ہونا چاہیے اُنکے بارے میں احترام پایا جانا چاہیے لیکن ان تین لیڈروں کے علاوہ کسی کی بھی بات قابل ذکر نہیں ہے۔اسفند یار ولی خان، محمود اچکزئی اور مصطفی کمال اور ان جیسے لیڈروں کا اپنے محدود حلقوں میں اتار چڑھاؤ ہے قومی سطح پر انہیں وہ احترام حاصل نہیں ہے۔چیف جسٹس اور آرمی کا بطور انسٹیٹیویشن گراف ہائی ہے اور آرمی چیف کا بھی گراف ہائی ہے مقبولیت کے حوالے سے نواز شریف جیسے لوگوں سے، اب جب نواز شریف اُنکے ساتھ مقابلہ پر اتر آتے ہیں تو اس سے اُنکی مقبولیت میں کمی نہیں آئی اس سوال کے جواب میں چیئرمین گیلپ کا کہنا ہے کہ آپ اسے عوام کی متضاد سوچ کہہ لیں عوامی رائے میں بہت سی چیزیں ایک ساتھ چلتی ہیں ۔ دو بڑے عہدے ہیں ملک کی افواج کے سربراہ کا اور ملک کی عدلیہ کے سربراہ کا ان کاپچپن سے لے کر ستر فیصد تک اتار چڑھاؤ ہوتا ہے سیاسی لیڈر بہت کم ایسے ہیں جو ساٹھ فیصد تک پہنچ پاتے ہیں چونکہ پہلے دو تو پوری قوم کے ہوتے ہیں سیاسی لیڈر اپنے آپ کو بہت زیادہ اپنی پارٹی سے منسلک کردیتے ہیں اُس وقت بھی جب وہ وزیراعظم ہوں ۔جہاں تک ہنگ حکومت کی بات اگر ہم ہنگ پارلیمنٹ سے یہ مراد لیں کہ جسکے پاس سب سے زیادہ سیٹیں آئیں گی مرکز میں مثال کے طور پر وہ پچاس فیصد سے زائد ہوں گی کہ وہ محض اپنے بل بوتے پر حکومت بنالے تو شاید ایسا نہیں ہوگا پچھلی مرتبہ بھی ایسا نہیں تھا۔مرکز کی سطح پر اکثریتی پارٹی کون سی ہوگی اس کے جواب میں چیئرمین گیلپ کا کہنا ہے کہ 38 اور پچیس کے آس پاس رہتی ہے 38 میں دو چار کم ہوجاتی ہیں پچیس میں دو چار کا اضافہ ہوجاتا ہے تو اُس صورت میں بھی مرکز کی حد تک اور پارٹیاں انتخاب سے پہلے کوئی الائنس نہیں بنا لیتیں ایک ہی سیمبل کے تحت تو پھر اکثریت مسلم لیگ کی ہوگی اگر پنجاب میں کوئی بڑا اتحاد نہیں بن جاتا۔ پنجاب کا ووٹر اس طرف جاتا ہے جہاں اسے یقین ہو کہ یہ حکومت بنالیں گے یا پھر یہ کہ اسٹیبلشمنٹ جس سائیڈ پر ہو اس کلیہ کے مطابق اس مرتبہ پنجاب میں عمران خان کو سوئپ نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے جواب میں ڈاکٹر اعجاز نے کہا کہ یہ مفروضہ ہی غلط ہے کہ کسی کے حق میں ہوا بنانے سے ووٹر اُس طرف ہوجاتا ہے پچھلے انتخابات پر غور کرلیں تو کبھی ایسا ہوا نہیں ہے پچھلے انتخابات کو دیکھا جائے پیپلز پارٹی کو چالیس فیصد سے زائد پنجاب سے ووٹ ملا جو اس وقت اینٹی اسٹیبلشمنٹ تھی۔ سارے الیکٹیبل مسلم لیگ سے نکل کر پی ٹی آئی میں کیوں جارہے ہیں اس پر چیئرمین گیلپ نے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اگر پی ٹی آئی کا پارٹی کی حیثیت سے پنجاب میں ووٹ نہ ہوا تو یہ الیکٹیبل ہار جائینگے اور اگر پی ٹی آئی کا پنجاب میں ووٹ ہوا تو پھر یہ جیتیں گے اسلئے یہ الیکٹیبل اپنے لئے ایک رسک لے رہے ہیں اور ان کا خیال یہ ہے کہ اس وقت پی ٹی آئی کا ٹکٹ زیادہ قیمتی ہے اگر اُن کا یہ خیال ہے کہ پنجاب کا ووٹر بادشاہ کے سامنے جھک کر ووٹ دیتا ہے تو یہ دس انتخابات کو دیکھتے ہوئے ایسا سوچنا پنجاب کے ووٹر کے ساتھ زیادتی ہوگی جہاں تک الیکٹیبل کے جھکنے کی بات ہے جو لوکل لیڈر ہے وہ بھی اسی کے ساتھ ہوتا ہے جو اس کے خیال میں جیتنے والی پارٹی ہوتی ہے ایک الیکشن ایسا ہے 2002 ءء کا وہ بہت ہی غیر معمولی حالات میں ہوا تھا ہوسکتا ہے مقامی جگہوں پر سر تسلیم خم کیا گیا ہو لیکن 2002 ءء کے علاوہ ایسا نہیں ہوا ۔ اگلے انتخابات میں آپ جمہوریت کا تاج کس کے سرپر دیکھ رہے ہیں اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایک جمہوری انسان کی حیثیت سے ہر پارٹی کو اُمید رکھنی چاہیے خواہ وہ دو فیصد ووٹ لینے والی پارٹی ہی ہو یہ جمہوریت کی شان ہے آج کے سروے بتاتے ہیں کہ مسلم لیگ ساری پارٹیوں سے آگے ہے۔ صوبے کی سطح پر مسلم لیگ ن پی ٹی آئی سے بیس فیصد کا فرق رکھتی ہے اس کے باوجود پی ٹی آئی کو امید رکھنی چاہیے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی واضح اکثریت نظر آتی ہے کراچی ایک ایسا میدان ہے جس میں سروے صبح کچھ بتاتے ہیں شام کچھ بتاتے ہیں کراچی کا ووٹر سال دو سال سے اپنے طور پر منقسم ہے خیبرپختونخوامیں مجموعی طور پر پی ٹی آئی کے ووٹنگ انٹینشن میں اضافہ ہوا ہے کارکردگی کے حوالے سے پی ٹی آئی کی حمایت میں ہے۔ آزاد اُمیدواروں کی اکثریت کے جیتنے کا بہت کم امکان ہے ، پچھلے دونوں الیکشنز میں ہمارے سروے ہماری ذاتی توقعات سے زیادہ مطابقت رکھتے تھے۔ جہاں تک وقت پر انتخابات کی بات ہے عوام کی اکثر یت چاہتی ہے کہ وقت پر انتخاب ہوں۔