منصف علی کی کہانی

October 24, 2012

پانچ چھ سال پہلے منصف علی نے جب اپنی جگہ بنانے کی کوشش کی تو ان کے بڑے بھائی شمشیر علی اور جاگیر علی نے انہیں عاق کرنے کی کوشش کی تھی اور ان کو خاموش کرنے لئے ہر طرح کا ہتھکنڈہ استعمال کیا تھا لیکن جب عوام منصف علی کے حق میں کھڑے ہوگئے تو بہت لیت و لعل کے بعد بڑے بھائیوں نے نیم دلی سے ان کو تسلیم کرلیا تھا۔ اصل میں ہمیشہ سے جاگیر علی زمینوں کا کام سنبھالتے اور شمشیر علی جاگیر کے عوام کو قابو میں رکھتے تھے۔ بیچارے منصف علی چھوٹے تھے اس لئے ان کو برائے نام پنچایت کا سربراہ بنایا ہوا تھا لیکن ہوتا وہی تھا جو دونوں بڑے بھائی چاہتے تھے۔ باقی دو تین بھائی نوکریاں اور کاروبار کرتے تھے اور جاگیر کے کاموں میں کم ہی دلچسپی لیتے تھے۔ پھر پتہ نہیں کیا ہوا کہ ایک دن منصف علی نے آزادی کا اعلان کرتے ہوئے بڑے بھائیوں کو بتا دیا کہ اب وہ ان کی ہر بات نہیں مانیں گے بلکہ پنچایت کو انصاف دینے کے لئے استعمال کریں گے۔ آخر منصف علی بھی65سال کے ہوگئے تھے وہ کب تک کاٹھ کے الّو بنے رہتے؟
پاکستانی عدلیہ کی کہانی کا نیا سین پچھلے ہفتے سامنے آیا جب اصغر خان کیس پر فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے سابق فوجی سربراہ مرز اسلم بیگ اور اسد درانی کو سیاست میں ناجائز دخل اندازی کرنے کا مجرم ٹھہرایا اور حکومت سے کہا کہ ان کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی صاف صاف فیصلہ دیا کہ ملک کے صدر کو سیاسی سیل بنانے یا سیاسی جوڑ توڑ میں حصہ لینے کی آئینی اجازت نہیں ہے یعنی سپریم کورٹ نے ریاست کے ہر ادارے کو اپنے دائرہ کار میں رہنے کے اصول طے کر دیئے۔ اعلیٰ ترین عدالت کا یہی فرض تھا جو اس نے بطریق احسن نبھایا اور اپنے ناقدین پر ثابت کردیا کہ وہ آئین اور قانون کے اطلاق میں کسی جانبداری کا ارتکاب نہیں کرے گی۔ یہ فیصلہ تاریخی نوعیت کا تھا جس کا دس سال پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اب عدالت کے فیصلوں پر کس حد تک اور کس طرح سے عمل ہوتا ہے یہ ثانوی نوعیت کے معاملات ہیں لیکن اس فیصلے نے ایک آئینی اور قانونی روایت قائم کردی ہے جس پر باقی ترقی یافتہ ملکوں کی طرح جلد یا بدیر عمل ہو کر رہے گا۔ اگر پاکستان کی سپریم کورٹ کے فیصلے کو تاریخی سیاق و سباق میں دیکھا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستانی ریاست کے بنیادی ادارے بلوغت کی عمر کو پہنچ رہے ہیں۔ پاکستانی عدلیہ نے پانچ چھ سال پہلے جس طرح اپنے طاقتور ہونے کا اعلان کیا تھا یہ فیصلہ اسی ارتقائی عمل کی ایک منزل ہے۔ اگرچہ اس فیصلے کے بارے میں کئی طرح کی تنقید بھی کی جا رہی ہے اور مایوسی کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے کہ آخر سپریم کورٹ نے ساری فوج کو چھوڑ کر صرف دو افراد کو قابل تعزیر کیوں قرار دیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس کے حق اور مخالفت میں بہت سی باتیں کہی جا سکتی ہیں لیکن یہ سب تسلیم کریں گے کہ اس طرح کے فیصلے کا چند برس پہلے تک تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
اس فیصلے کا تاریخی تناظر یہ ہے کہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے پہلے زیادہ تر مسلمان فوج اور کسی حد تک پولیس کے اداروں میں بڑی تعداد میں تھے۔علاوہ ان محکموں کے آج کے پاکستان کے علاقے میں 1947ء تک ہر ادارے کو انگریز اور ہندو پڑھے لکھے طبقے چلاتے تھے۔ نوکر شاہی سے لیکر عدلیہ تک غیر مسلم ہی ریاست کا کاروبار سنبھالے ہوئے تھے۔لاہور ہائی کورٹ میں 1920ء تک انگریز چیف جسٹس ہوا کرتے تھے، شادی لال پہلے ہندو چیف جسٹس تھے جو 1920ء سے 1934ء تک لاہور ہائی کورٹ کے سربراہ رہے۔ سر عبدالرشید پہلے مسلمان تھے جو لاہور ہائی کورٹ میں 1946ء سے 1948ء تک چیف جسٹس رہے۔ اگر آپ پاکستان کے معرض وجود سے پہلے کا دور دیکھیں تو نہ ہی آپ کو اعلیٰ درجے کے بہت سے مسلمان وکیل نظر آئیں گے اور نہ ہی اعلیٰ عدالتوں کے جج۔ یہی حال معیشت کے شعبے کا بھی تھا کہ پوری انارکلی میں مسلمانوں کی ایک یا دو دکانیں تھیں لہٰذا جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو اس نئے ملک میں ایسے لوگوں اور طبقوں کا فقدان تھا جن کو اعلیٰ عدلیہ سمیت ریاست اور معیشت کے ادارے چلانے کا تجربہ یا شعور تھا۔ اس وجہ سے نئی پاکستانی ریاست میں ایک خلا تھا جس کا واحد منظم ادارے یعنی فوج نے فائدہ اٹھایا یا اس خلا کا ناگزیر نتیجہ تھا کہ فوج نے اس خلا میں ریاست پر قبضہ کر لیا۔ عدلیہ جیسے ریاست کے جدید اداروں کے قیام اور استحکام کے لئے ضروری ہے کہ ایک بالغ النظر صنعتی، تجارتی اور درمیانہ طبقہ موجود ہو۔ ہر ملک میں ریاستی ادارے انہی طبقات کی بلوغت کے ساتھ مستحکم ہوئے ہیں،اس پہلو سے پاکستان کوئی انوکھا ملک نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان بننے کے بعد یہ طبقات اپنی اوائل عمری کی منزلوں سے گزر رہے تھے تو اعلیٰ عدلیہ کو فوجی راج کے لئے نظریہٴ ضرورت ایجاد کرنا پڑتا تھا۔ ہم اسے جسٹس منیر وغیرہ کا قابل نفرت ذاتی فعل سمجھتے ہوئے ساری ذمہ داری انہی پر ڈال دیتے ہیں۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اس وقت کے پاکستانی سماج میں وہ طبقات موجود ہی نہیں تھے جو اس طرح کے فیصلوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے فوج کو رد کر دیتے۔ غالباً جسٹس منیر نے بھی بعد میں یہی جواز پیش کیا تھا جو کہ کافی حد تک درست تھا۔جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی فارغ ہو جاتے اگر عوام سڑکوں پر آکر ان کی پُرزور حمایت نہ کرتے۔ جسٹس چوہدری اس نئے طبقے کی نمائندگی کر رہے تھے جو ساٹھ سال میں مقداری اور معیاری لحاظ سے مضبوط ہو چکا تھا۔ پچھلے پانچ سالوں سے پاکستانی ریاست کے بحران کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ عدلیہ کا ادارہ پہلی مرتبہ مضبوط ہوا ہے اور وہ اپنا جائز مقام بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ پرانے نظام سے مستفیض ہونے والے طبقات کو عدلیہ کا آزادانہ کردار منظور نہیں ہے۔ اس کی سب سے زیادہ مخالفت جاگیردار اور ان سیاسی طبقات کی طرف سے ہوئی ہے جو کہ قوانین کو نہ ماننے کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔ اس میں فوج کا ادارہ ڈانواڈول رہا ہے کیونکہ اس کی جڑیں درمیانے طبقے میں ہیں لیکن اس کے مفادات روایتی حکمران طبقات کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اس لئے فوج نے عدلیہ کی بحالی کا ساتھ بھی دیا لیکن اس کے اپنے بارے میں کئے گئے فیصلوں پر عمل کرنے میں بھی گریز کیا ہے۔غرضیکہ ریاستی اداروں کے درمیان نئے توازن کیلئے کشمکش جاری و ساری ہے۔ عدلیہ نے فوج سمیت تمام اداروں اور طبقات کے بارے میں آزادانہ فیصلوں سے اپنا مقام پیدا کر لیا ہے۔ اس کے کچھ فیصلوں پر تنقید کی جا سکتی ہے لیکن کلی طور پر اسے جانبدار نہیں کہا جا سکتا۔
بہت سے لوگ سوال کرتے ہیں کہ اگر عدلیہ کے فیصلوں پر عمل ہی نہیں ہوتا تو اس کا فائدہ کیا ہے؟ امریکہ میں بھی جب سول رائٹس (مساوی حقوق) کا قانون منظور ہوا تھا تو بہت سی ریاستوں نے اسے رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ہارورڈ اورییل یونیورسٹی کے پڑھے ہوئے جج اپنے فیصلے ہم پر کیسے تھوپ سکتے ہیں لیکن بیس پچیس سالوں میں آخر میں امریکی سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل ہو کر رہا۔ پاکستانی سپریم کورٹ کے فیصلوں پر بھی وقت کے ساتھ عمل ہو کر رہے گا۔