امیدوار

May 27, 2018

جوانی میں رابرٹ ریڈ فورڈ کی ایک یادگارفلم دیکھی تھی "The Candidate"یعنی امیدوار۔ آج نجانے کیوں اس کی یادآگئی۔ اس کے دھندلے سے رنگ اب بھی میری آنکھوں میں گھوم رہے ہیں۔ The Spy Chronicles نے مجھے متاثر کیاہے کہ میں بھی ایک کہانی لکھوں۔ میری یہ کہانی بالکل فرضی ہے۔ اس کے کردار بھی فرضی ہیں لیکن اگر اس میں شامل بعض واقعات اور کرداروں سے کسی کی مماثلت ہو تو یہ محض اتفاق ہوگا۔
ہماری کہانی ایک بڑے ہال میں جمع نوجوانوں پر مشتمل ایک بڑے کرائوڈ سے شروع ہوتی ہے۔ یہ تمام لوگ پرجوش نعرے لگا رہے ہیں۔ بعض لوگوں کی گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ آج ان کی پارٹی کا لیڈر اہم اعلانات کرنے والا ہے۔ اپنی پارٹی کے رنگ رنگ کے پرچم تھامے یہ لوگ انتہائی جذباتی ہو رہے ہیں۔ ہال میں بڑے پیمانے پر رپورٹرز بھی موجود ہیں۔ ان کے کیمرے لگ رہے ہیں، مائیک سیٹ ہو رہے ہیں۔ قریب ہی موجود سیڑھیوں پر بھی بے حد رش ہے۔ اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر لوگ جن میں بہت سے اخبارات اور ٹی وی کے رپورٹرز بھی شامل ہیں، دوڑتے پھررہے ہیں۔ ہمارا کیمرا ان ہی کے ساتھ چلتا ہوا ایک کمرے میںداخل ہوتا ہے جہاں ان کی پارٹی کا لیڈر ایک صوفے پر براجمان ہے۔ اس کے قریب ہی اس کی بیوی اور بچے بھی بیٹھے ہیں۔ یہاں بھی رپورٹرز اور پارٹی ورکرز کی بھرمار ہے۔ ان سب کی نگاہیں ٹی وی پر مرکوز ہیں، جہاں اب بریکنگ نیوز کے ٹکر چلنے شروع ہوچکے ہیں۔ پارٹی لیڈر اور پارٹی ورکرز سب سے خاموش ہونے کی التجاکرتے ہیں اور پھر ٹی وی کی آواز اونچی کردی جاتی ہے۔ انائونسر اسکرین پر آتی ہے اور اعلان کو بار باردہرانے لگتی ہے کہ ایک پارٹی کو الیکشن میں حصہ لینے سے روک دیاگیا ہے۔ اعلان سنتے ہی اس سیاسی لیڈر کے چہرے پروحشت پھیل جاتی ہے۔ ہال سے نعروںکی آوازیں بلند ہو رہی ہیں اورلیڈر کے ساتھ ہی رپورٹرز اور پارٹی ورکرز دوڑتے ہوئےہال کی طرف چلتے ہیں۔ ہال میں فلک شگاف نعرے لگ رہے ہیں۔ لیڈر مائیک پر آتا ہے۔لوگوں کو خاموش ہونے کاکہتاہے اور پھر جذباتی انداز میں خطاب شروع کرتاہے۔ وہ بتاتا ہے کہ ان کی پارٹی کو بین کردیاگیا ہے لیکن وہ سسٹم کے خلاف جدوجہد جاری رکھے گا۔ ورکرز میں سے بعض کی آنکھوں میں آنسو آگئے ہیں۔ بھگدڑ مچی ہے۔ لیکن ایسے میں کچھ ’’پراسرار چہروں‘‘ پرمسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔ وہ تیزی سے ایک کار میں بیٹھتے ہیں اور کسی سمت روانہ ہوجاتے ہیں۔ کار شراٹے بھرتی ایک بڑے کمپائونڈ میں داخل ہوتی ہے۔ یہ دو افراد تیزی سے چلتے ہوئے ایک بڑے آفس میں داخل ہوتے ہیں۔ وہاں دو ’’اوربھی زیادہ پراسرار ‘‘لوگ چہروں پر مسکراہٹ لئے ان کا استقبال کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کو مبارک باد دی جاتی ہے اور پھر آئندہ کے لائحہ عمل کے لئے فائلیں منگوالی جاتی ہیں۔
ایک بڑے ’’پراسرار شخص‘‘ کو اس کا اسسٹنٹ ایک فائل لاکر دیتاہے۔ وہ باقی لوگوں کو بتاتا ہے کہ یہ سب کچھ بالکل ایسے ہی ہو رہاہے جیسے پلان کیا گیا۔ باہرسےآنے والے پوچھتے ہیں کہ پھر آگے کا بھی کوئی پلان تو ہوگا۔ وہ مسکرا کر فائل کھولتا ہے۔ اس میں سے ایک مشہور رفاہی کاموں میں مشغول خوبرو آدمی کی تصویر نکال کر ان کے آگے رکھتا ہے اور کہتا ہے کہ اب یہ ہوگا ہمارا نیا امیدوار، اسی کو بنانا ہے۔ جس شخص کی تصویر امیدوار کے طور پر دکھائی گئی ہے وہ یوں تو ایک درمیانے درجے کی فلاحی تنظیم چلارہاہےلیکن سیاست سے لگتا ہے کہ اسے کوئی خاص دلچسپی نہیں۔ پراسرار لوگوں کی ملاقات کے بعد اچانک اس کی فلاحی تنظیم اور اس کے حق میں اخبارات میں بے پناہ تعریفی آرٹیکل چھپنا شروع ہوجاتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ اس کی فلاحی تنظیم میں شرکت کے لئے سابقہ سیاستدان، فوجی اور بیوروکریٹس جوق در جوق شمولیت کی درخواست دیتے ہیں۔ فنڈز بڑھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ فلاحی کام بڑھ رہے ہیں۔ لوگوں کی شرکت بھی بڑھ رہی ہے۔ انہی لوگوں میں سے کچھ لوگ اخبارات میں اس امیدوار کو پاکستان کا سب سے بڑا فلاحی لیڈر ثابت کرنے کے لئے آرٹیکل لکھ رہے ہیں۔ عوام میں بھی اس کی پسندیدگی کےلئے کرائے گئے سروے بتاتے ہیں کہ اس وقت ملک میں یہ سب سے زیادہ پسندیدہ شخص بن چکا ہے۔ اس کے لئے ’’نجات دہندہ‘‘ جیسے القابات کا استعمال شروع ہوتاہے اور پھر ایک دن اس کی فلاحی تنظیم میں شامل سابقہ سیاسی لیڈرز اور بیوروکریٹس اسے سیاسی پارٹی بنانے کے لئے کہتے ہیں۔ یہ امیدوار جو ملک میں اپنی شہرت کے حوالےسے پھولے نہیں سمارہا تھا، فوراً ہامی بھر لیتا ہے۔ پارٹی بنتے ہی اس میں دوسری پارٹیوں سے ٹوٹ ٹوٹ کر آنے والوں کا تانتا بندھ جاتا ہے۔ اس سے ملاقاتیں کرنے میں سرفہرست وہی چند پراسرار لوگ ہیں جن کی میٹنگ کا ذکر ہم نے شروع میں کیا۔ پھر ظاہر ہے کہ جیتنا تو اسی پارٹی نے تھا۔ دوسری تمام پارٹیاں کہیں پیچھے رہ جاتی ہیں۔ ہمارے اس امیدوار کو وزیراعظم چن لیا جاتا ہے۔ اس نے کیا کام کرنے ہیں، کس طرح بجٹ بنانا ہے؟ سب کے لئے اسے مشیر فراہم کردیئے جاتے ہیں۔ ہمارے پراسرار لوگوں کی اس سے ملاقاتیں بڑھتی جاتی ہیں۔ اس کے کچھ دن تو شادمانی سے گزرتے ہیں لیکن اقتدار کے 90دن کے بعد ہی اسے اندازہ ہوتاہے کہ وہ سب کچھ جیت کر بھی ہار گیاہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)