مردم شماری :شکایات کا ازالہ ضروری

May 29, 2018

مردم شماری 2017کے نتائج پر سندھ کے شہری ہی نہیں دیہی علاقوں کی جانب سے بھی نتائج کے اعلان کے بعد ہی سے تحفظات کا اظہار شروع ہوگیا تھا۔پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم دونوںنے نتائج پر سخت اعتراضات کیے تھے۔ کراچی کی آبادی عام تاثر کے برعکس مردم شماری کے نتائج میں ایک کروڑ کے لگ بھگ کم ظاہرکی گئی تھی جس پر عوام ہی نہیں سنجیدہ حلقوں نے بھی حیرت کا اظہار کیا تھا۔ نئی انتخابی حلقہ بندیوں کے موقع پر ان تحفظات کے ازالے کے لیے وفاقی حکومت نے پارلیمانی جماعتوں کے قائدین اور مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاسوں میں رینڈم سیمپلنگ کی بنیاد پر ملک کے مختلف علاقوں میں نتائج کے پانچ فی صد حصے کا کسی آزاد غیرسرکاری ادارے سے آڈٹ کرانے کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن اس سمت میں کوئی عملی اقدام نہیں کیا جاسکا اور منتخب حکومتوں کی آئینی مدت کے خاتمے کا وقت آپہنچا۔ ان حالات میںگزشتہ روز وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے زیر صدارت مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کی جانب سے مردم شماری کے نتائج تسلیم کرانے کی کوشش کی گئی تووزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے یہ موقف اختیار کیا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزرائے اعلیٰ کی عدم موجودگی میں نتائج کی منظوری جلد بازی کے مترادف ہوگی۔ اجلاس میں یہ رائے سامنے آئی کہ سندھ اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں بروز پیر تحلیل ہو جائیں گی اس لیے انتخابات کے بعد ہی مردم شماری کے نتائج پر حتمی فیصلہ کیا جانا چاہیے، پارلیمنٹ کی جانب انتخابات کے سلسلے میں الیکشن کمیشن کے قوانین میں تبدیلی کی بنیاد پر سی سی آئی کے اجلاس میں مردم شماری کے صوبائی نتائج کی تصدیق کردی گئی تھی تاہم صوبائی نتائج کو حتمی شکل نہیں دی گئی تھی لہٰذامشترکہ مفادات کونسل کو معاملے کو مؤخر کردیناچاہیے۔ مردم شماری کے نتائج کو شکوک و شبہات سے پاک رکھنا ضروری ہے لہٰذا جلد بازی کے بجائے اس کام کو انتخابات کے بعد نئی حکومتوں کے لیے چھوڑ دینا ہی بہتر ہوگا تاکہ جائز شکایات اور تحفظات کا اطمینان بخش طور پر ازالہ ممکن ہو۔