جاپان کے حراستی مرکز میں حالات کے قیدی

June 02, 2018

میں اس وقت جاپان کی امیگریشن کے حراستی مرکز کے باہر پہنچا ہی تھا کہ کالے بادلوں نے علاقے کو چاروں طرف سے گھیر لیا اور ہلکی پھلکی پھوار برسانے میں مصروف ہوگئے ۔ بہرحال باہر کا خوبصورت منظر دیکھنے کے بعد میں اپنے دوستوں جاپان کے معروف صحافتی و سماجی شخصیات ناصر ناکاگاوا اور طیب خان کے ہمراہ حراستی مرکزکی عمارت کے اندر داخل ہوا،ہماری کوشش تھی کہ ساٹھ سے زائد قید پاکستانی اور غیر ملکی شہریوں سے ملاقات ہوسکے اور اپنی اور مخیر حضرات کی امانتیں ان مظلوم قیدیوں میں تقسیم کرسکیں ۔ہمارے پاس چھ لاکھ ین سے زائد رقم تھی جبکہ ساٹھ سے زائد افراد کی فہرست بھی ہمارے پاس تھی جن میں دس ہزار ین فی کس تقسیم کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی، ابتدائی کاغذی کارروائی کے بعد میرے پاس تین پاکستانیوں اور ایک ایرانی شہری سے ملاقات کا اجازت نامہ تھا ،امیگریشن جیل میں وہ پاکستانی قید تھے جو یا تو غیر قانونی طور پر جاپان میں داخل ہوئے اور امیگریشن کے وقت ہی جعلی ویزہ یا دیگر وجوہات پر پکڑے گئے اور واپس پاکستان جانے سے انکار ی ہوئے تو انہیں امیگریشن جیل منتقل کردیا گیا ۔میں اپنے دوستوں کے ساتھ ویٹنگ ہال میں ملاقات کا منتظر تھا کہ اچانک ایک جاپانی اہلکار کمرے میں داخل ہوا اور میرانمبر پکارتے ہوئے اپنے ساتھ چلنے کو کہا ،ایک چھوٹے سے کمرے میں بٹھاکر وہ غائب ہوگیا ۔میرے سامنے شیشے کی دیوار تھی اور اس کے پیچھے دروازہ تھا کچھ ہی دیر بعد دروازہ کھلا ایک دبلاپتلا نوجوان کمرے میں داخل ہوا میری اس سے یہ پہلی ملاقات تھی ہلکا سانولا رنگ ، سفید رنگ کی ٹی شرٹ پہنے اور سر پر سفید ٹوپی کے ساتھ کافی مہذب دکھائی دے رہا تھا اس کا نام علی عدنان تھا ،اس کا تعلق لاہور سے تھا اور عمر انتیس برس تھی ، علی عدنان سات سال قبل تین مہینے کے ویزے پر جاپان آیا ویزہ بڑھنے کا کوئی آسرانہیں تھا لہٰذا سیاسی پناہ کی درخواست دائر کی جس کے بعد اسے کام کرنے کا اجازت نامہ بھی مل گیا لیکن وہ جاپانی امیگریشن کو مطمئن کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا ،اس کے باوجود جاپانی حکام نے اسے اگلے تین سال تک جاپان میں رہنے اور کام کرنے کی اجازت دیدی ۔اسی اثنامیں اسے ایک جاپانی خاتون سے محبت ہوگئی پھر شادی بھی ہوئی لیکن جب تک وہ شادی کا ویزہ اپلائی کرتا اس وقت تک اسے امیگریشن سے ایک لیٹر موصول ہوا جس میں اس کی پناہ کی درخواست مسترد کرنے کی خبر سنائی گئی اور فوری طورپر جاپان چھوڑنے کا حکم نامہ بھی دیا گیا تاہم وہ اپنی جاپانی بیوی کے بل بوتے پر جاپان میں رہنا چاہتا تھا اور ایک دن وہ اپنی بیگم کے ساتھ امیگریشن پہنچا تاکہ شادی کا ویزہ اپلائی کرسکے لیکن اسے اسی روز گرفتار کرکے ملک بدر کرنے کا فارم دستخط کے لیے دے دیا گیا لیکن اس نے جاپان چھوڑنے سے انکار کیا اور اب گزشتہ دو سالوں سے وہ امیگریشن جیل میں ہے ،علی عدنان ان دوسالوں میں اپنے آپ کو بدل چکا ہے پنج وقتہ نمازی ہوچکا ہے ،تمام روزے رکھ رہا ہے جبکہ باقاعدہ اذان دینے کے ساتھ ساتھ نماز کی امامت بھی کرارہا ہے علی عدنان کا کہنا ہے کہ اگر وہ جاپان میں رہ پایا تو مستقبل میں وہ تبلیغ کے لیے اپنی زندگی وقف کردے گا ۔لیکن اسکی جاپانی اہلیہ کا رویہ تبدیل ہوچکا ہے اور اب وہ اس سے ملنے بھی نہیں آتی ،علی عدنان نے مجھ سے اپنے لیے دعا کی درخواست کی اور پھر ہماری ملاقات کا وقت ختم ہوگیا۔ ایک دفعہ پھر کاغذی کارروائی کا عمل شروع ہوا اور کچھ دیر بعد ایک اور پاکستانی محمد سلمان سے ملاقات ہوئی، اس کا تعلق کراچی سے تھا اور اب سے چودہ برس قبل وہ جاپان پہنچا تھا ، سلمان کی عمر سینتالیس برس تھی اور وہ غیر شادی شدہ تھا ، سلمان نےآٹھ سال قانونی طور پر بطور شیف کے جاپان کے مختلف پاکستانی ریستورانوں پر کام کرتے ہوئے گزارے ، سلمان کے مطابق کراچی میں زندگی کی بتیس بہاریں دیکھیں اور کراچی کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے قائد کے پرسنل گارڈ کے طور پر خدمات انجام دیں جہاں اس کی جماعت کا طوطی بولتا تھا اور جماعت کے قائد کا پرسنل گارڈ ہونے کی بنا پر اس کی اپنی بھی بڑی ٹور تھی ۔پھر دو ہزار تین میں اسے جاپان آنے کا موقع ملا اور یہاں وہ کک کا ویزہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا جو ہر سال بڑھ جاتا تھا تاہم سات سال بعد جس ریستوران میں وہ کام کرتا تھا اس کے مالک سے ان بن ہونے کے باعث ویزہ بڑھنے سے ایک ماہ قبل پاکستانی مالک جان بوجھ کر پاکستان چلا گیا اور سلمان کے بار بار ویزہ بڑھوانے کی یاددہانی کے باوجود ٹال مٹول سے کام لیا اور آخری روز مالک نے سلمان سے کہا کہ تم سیاسی پناہ کی درخواست داخل کردو چند سال بعدمیں تمہارا ویزہ دوبارہ لگوادوں گا ، سلمان کے پاس اب سیاسی پناہ داخل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا لہذا س نے سیاسی پناہ داخل کی اور اگلے پانچ سال جاپان میں سیاسی پناہ پر رہا تاہم پانچ سال بعد جاپانی حکام نے اس کی درخواست رد کردی اور اسے جاپان بدر کرنے کے احکامات دیئے تاہم سلمان نے پاکستان جانے سے انکار کردیا کیونکہ اس کےوالدین وفات پاچکے تھے بھائی بہنوں سے رابطہ بہت ہی کم تھا جبکہ اس نے جو کمایا جاپان میں ہی لٹا دیا تھا پاکستان کچھ نہ بھیجا تھا اور اب تو اس کے پاس فون کرنے کے لیے بھی رقم نہیں تھی لہذا پاکستان جاکر وہ اپنے بھائی بہنوں پر بوجھ نہیں بننا چاہتا تھا اور جاپان میں رہ کر ہی اپنی بقایا زندگی گزارنا چاہتا تھا۔ محمد سلمان نے بتایا کہ امیگریشن جیل میں ایران سمیت کئی ممالک کے قیدی خود کشی بھی کرچکے ہیں لیکن مجبوری کے تحت واپس اپنے ملک بھی نہیں جاسکتے ۔میں اپنے پاکستانی بھائیوں کی مجبور زندگی دیکھ کر بہت مایوس ہوا لیکن ان کے لیے دعا گو بھی تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کی پریشانیوں کو دور فرمائے ، ایسا نہیں تھا کہ جاپانی حکومت نے انھیں زبردستی قید کررکھا تھا وہ چاہیں تو ایک ماہ کے اندر واپس اپنے ملک جاسکتے ہیں تاہم ان کی مجبوریاں ایسی ہیں کہ وہ جانا نہیں چاہتے ،سلمان سے ملاقات کے بعد میری ملاقات عاطف شیرازی سے ہوئی عاطف کی عمر بتیس برس تھی وہ پانچ سال قبل جاپان آیا تھا اسے پہلے ہی روز امیگریشن حکام نے جعلی کاغذات پر گرفتار کیا گیارہ میں قید میں رہا پھر ایک این جی او کی مدد سے باہر نکلا ،اسی دوران اس کی ایک فلپائنی خاتون سے ملاقات ہوئی اور جلد شادی بھی ہوگئی فلپائنی خاتون کے پاس جاپان کا پرمٹ ویزہ تھا لیکن جاپانی حکومت نے عاطف کی سیاسی پناہ کی درخواست صرف دوسال بعد رد کردی اور پاکستان نہ جانے کی صورت میں پابند سلاسل کردیا اور ایک سال سے وہ یہیں موجود ہے آخری ملاقات میری ایرانی شہری سے ہوئی جو حکومت مخالف مظاہروں کے بعد ایران سے فرار ہوا اورجعلی پاسپورٹ پر جاپان میں گرفتار ہوا اور ایک سال سے قید ہے ،شام تک امیگریشن میں رہنے کے بعد میں ،ناصر ناکا گاوا اور طیب صاحب جہاں ان لوگوں کی مدد کرکے مطمئن تھے وہیں ان کی پریشان کن کہانیوں نے بہت زیادہ ڈپریس بھی کردیا تھا، ایک بار پھر سب کے لیے دعا کرتے ہوئے واپسی کی راہ لی کیونکہ شام ہوچکی تھی روزہ بھی افطار کرنا تھا ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)