حکومت کے ساتھ میرے چھ سال

June 03, 2018

(گزشتہ سے پیوستہ)
تمام اسکولوں میں یکساں تدریسی معیار کے لئے ہم نے پنجاب کی چھٹی سے بارہویں جماعت تک کی ساری نصابی کتابوں کو ڈیجیٹائزڈ کر دیا ہے اور ان کتابوں میں پہلے سے ریکارڈ کئے گئے 16,000ویڈیو لیکچرز کو بھی شامل کر دیا ہے۔ یہ مواد http://elearn.punjab.gov.pkپر مفت دستیاب ہے اورا سمارٹ بورڈز استعمال کرتے ہوئے پنجاب کے 1,000 سے زیادہ اسکولوں میں فراہم کر دیا گیا ہے۔جب میں نے 2011ء میں حکومت کے لئے کام کرنا شروع کیا تو پنجاب ڈینگی مرض کی زد میں تھا۔ صرف چار مہینوں میں 21,000سے زیادہ مریضوں کو اسپتالوں میں داخل کیا گیا تھا جبکہ 250سے زائد افراد جان کی بازی ہار چکے تھے۔ ہم نے اسمارٹ فون کی بنیاد پر ڈینگی کا سراغ لگانے اور وبا سے پیشگی خبردار کرنے کا نظام بنایا۔اب تک اس نظام میں ڈینگی کے تدارک کیلئے موقع پر لی گئی تین کروڑ ستر لاکھ سے زیادہ تصاویر اپ لوڈ کی جا چکی ہیں جس سے پنجاب ڈینگی کے مزید حملوں سے بچنے میں کامیاب رہا ہے۔ اسی طرح شعبہ صحت میں اسمارٹ فون کے استعمال سے اپنے کام کو توسیع دینے کے لئے ہم نے پنجاب میں حفاظتی ٹیکوں کو ٹریک کرنے کے لئے اسمارٹ فون بیسڈ نظام بنایا۔ ہمارے نظام نے دو سال میں پنجاب کے 18فی صد حصے سے بڑھ کر 88فی صد حصے کا احاطہ کر لیا‘ یہ ایک عالمی ریکارڈ ہے۔ اس کے نتیجے میں ڈی پی ٹی 3کوریج 54فی صد سے بڑھ کر 97فی صد ہو گئی۔ ہم نے کے پی اور بلوچستان کی حکومتوں کی درخواست پر اسی طرح کا نظام ان صوبوں میں بھی بنایا، جن کے نتائج اتنے ہی حوصلہ افزا نکلے۔محکمہ صحت کے ساتھ اپنے پروجیکٹس میں ہم نے پرائمری اور سیکنڈری سطح پر صحت کی سہولتیں مہیا کرنے پر توجہ مرکوز کی۔ پنجاب کے ہر ڈی ایچ کیو، ٹی ایچ کیو، آر ایچ سی اور بی ایچ یو میں بائیومیٹرک اٹینڈنس ڈیوائسز نصب کی جا چکی ہیں، جنھیں طبی عملے کے 70,000سے زیادہ ملازمین حاضری لگانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ اس سے دو سالوں میں ڈاکٹروں کی حاضری کی شرح 53فی صد سے بڑھ کر 87فی صد ہوچکی ہے۔ اسی طرح ان اسپتالوں میں ادویات کی دستیابی یقینی بنانے کے لیے ادویات کی خریداری ایک مرکزی آٹومیٹڈ نظام کے ذریعے کی جاتی ہے، جسے اس سال ساڑھے تیرہ ارب روپے سے زیادہ مالیت کی ادویات کی خریداری کے لیے استعمال کیا گیا۔ ادویات کا اسٹاک ختم ہونے سے بچنے کے لئے نظام اس طرح بنایا گیا ہے کہ ادویات کا اسٹاک خاص سطح سے نیچے ہوتے ہی خریداری کا آرڈر خودکار انداز سے جاری ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ڈرگ ٹیسٹنگ لیبز (ڈی ٹی ایل) کو بھی اس طرح آٹومیٹڈ بنا دیا گیا ہے کہ کسی دوائی کے ٹیسٹ کا سراغ لگانا یا ڈرگ ٹیسٹ کے نتائج پر اثر انداز ہونا ناممکن ہو چکا ہے۔ اس سے غیر معیاری ادویات کا بنیادی سبب ختم ہو گیا ہے۔ اسی طرح 40بڑے ڈی ایچ کیوز اور ٹی ایچ کیوز سے آغاز کرتے ہوئے ہم نے ہاسپٹل مینجمنٹ انفارمیشن کا جامع نظام رائج کیا ہے جسے کراچی انڈس ہاسپٹل کے اشتراک سے تیار کیا گیا۔پنجاب میں شہریوں کے عام استعمال میں آنے والی تقریباً تمام سروسز کو ڈیجیٹائزڈ کر دیا گیا ہے مثلاً ڈومیسائل، برتھ سرٹیفکیٹ، ڈرائیونگ لائسنس، وہیکل رجسٹریشن، وہیکل ٹوکن ٹیکس، میرج سرٹیفکیٹ، روٹ پرمٹ وغیرہ۔ بہرحال جہاں ان سروسز کی بیک اینڈ پروسیسنگ کمپیوٹرائزڈ بنا دی گئی ہے، وہاں شہریوں کو اب بھی سرکاری دفاتر میں جانا اور سروس حاصل کرنے کیلئے قطاروں میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ چنانچہ دو سال پہلے ہم نے ای خدمت مرکز کے نام سے پورے پنجاب میں ون ونڈو ای خدمت مراکز قائم کرنے کا آغاز کیا۔
یہ مراکز مکمل آٹومیٹڈ ہیں اور تقریباً 20سرکاری سروسز کم ترین وقت میں فراہم کرتے ہیں، جنہیں ہر درخواست کا ٹریکنگ نمبر استعمال کرتے ہوئے ٹریک بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ سینٹرز فی الحال تمام ڈویژنل ہیڈکوارٹرز میں کام کر رہے ہیں اور اٹھارہ لاکھ سے زیادہ شہریوں کو خدمات مہیا کر چکے ہیں۔پی آئی ٹی بی میں اپنے چھ سالوں کے دوران جو پروجیکٹس میرے دل کے قریب ترین تھے‘ ان کا مقصد پاکستان کے نوجوانوں کو ٹیک اسٹارٹ اپس کے لیے مدد دینا تھا۔ میں سرکاری ملازمت سے پہلے ہی کئی اسٹارٹ اپس میں شامل رہا تھااور ایک چھوٹا اسٹارٹ اپ انکیوبیٹر چلا رہا تھا۔ پی آئی ٹی بی میں میرے پہلے پروجیکٹس میں سے ایک پروجیکٹ ارفع ٹیکنالوجی پارک میں ’’پلان9‘‘ کا قیام تھا، جہاں ہم نے نوجوان طبقے کو اپنی ٹیکنالوجی کمپنیاں قائم کرنے میں مدد دی۔ پلان 9سے اب تک 160سے زیادہ اسٹارٹ اپس گریجویٹ ہو چکے ہیں۔ مجموعی طور سے یہ کمپنیاں‘ جیسے کہ پٹاری، مینگو باز، مارخور، ایکس گیئر‘ کئی ارب روپے قدر کی حامل ہو چکی ہیں اور 1,200سے زیادہ ملازمتیں فراہم کر چکی ہیں۔ پلان 9نے پاکستان میں اینٹرپرینیئرشپ کا کلچر متعارف کروانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اس کو دیکھ کر کئی دوسرے انکیوبیٹر، بزنس ایکسلریٹر اور انویسٹمنٹ فنڈ بھی قائم کیے جا چکے ہیں۔ ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے ملازمتیں مہیا کرنے کے اپنے خیال پر عمل کرتے ہوئے ہم پورے پنجاب میں 40ای روزگارسنٹرز کا نیٹ ورک بنا رہے ہیں جہاں یونیورسٹی کے طلبا کو آن لائن فری لانسنگ کے ذریعے پیسہ کمانے کی تربیت دی جا رہی ہے۔ یہ طلبا upwork, cross overاورfiverrجیسے پلیٹ فارم استعمال کرتے ہوئے کانٹینٹ رائٹنگ سے لے کر میڈیکل ٹرانسکرپشن تک چھوٹے چھوٹے آؤٹ سورس کام کر کے 10ڈالر سے 30ڈالر تک روزانہ کما رہے ہیں۔ پچھلے دس مہینوں میں اس پروگرام نے پنجاب کے 23اضلاع کے 4,000سے زیادہ طلبا کو تربیت دی جو 150,000ڈالر سے زیادہ کما چکے ہیں۔بڑے پروجیکٹس کے ساتھ ساتھ پی آئی ٹی بی نے شہریوں اور حکومت کو مدد دینے کے لیے سینکڑوں چھوٹی چھوٹی اصلاحات کی ہیں‘ مثلاً سیلاب کے موسم میں ریسکیو اور ریلیف کے کاموں کو مربوط بنانے کے لیے ہمارے وسیع پلیٹ فارم سے لے کر کسانوں کے لئے باردانہ کے اجرا‘ پورے پنجاب میں اینٹی کرپشن کیسوں کی ٹریکنگ، تمام سول سرونٹس کے لیے کمپیوٹرائزڈ ہیومن ریسورس مینجمنٹ‘ چھ اضلاع میں شہریوں کے لیے وائی فائی ہاٹ سپاٹس‘ میڈیکل اسٹوروں کی انسپکشن‘ ایریگیشن انسپکٹروں کی مانیٹرنگ‘فصلوں کے کیڑوں کی پیشگی وارننگ اورموبائل فون کا استعمال کرتے ہوئے کسانوں کو سبسڈی کی فراہمی‘ جن سے پنجاب اب ایک نئے ڈیجیٹل دور میں داخل ہو چکا ہے۔ یوں جو کام میں نے چھ سال پہلے ہچکچاتے ہوئے شروع کیا تھا، وہ میری پیشہ ورانہ زندگی کا سب سے ثمرآور فیصلہ ثابت ہوا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)