پر امید نوازشریف

June 05, 2018

کمرہ عدالت میں وکلاء اور سکیورٹی کے اداروں سے وابستہ افراد کے علاوہ مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے چند افراد بھی موجود تھے۔ نوازشریف جب کٹہرے کی جانب بڑھنے لگے تو ان کی باڈی لینگوئج کا جائزہ میں ہمیشہ کی مانند ماضی میں ہوئی ان سے ملاقاتوں کی یادداشتوں کے سہارے لینے لگا۔ میری ان سے ملاقاتیں سعودی عرب ، برطانیہ اور پاکستان میں متعدد بار رہیں جب سعودی عرب میں جلا وطنی کے دور میں ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ ان کے اعتماد میں ان بدترین سیاسی حالات کے باوجود کوئی کمی نہیں آئی۔ مگر اب جب ان کو کٹہرے میں دیکھا تو یہ نوازشریف تو ان ملاقاتوں میں ملے نوازشریف سے بھی زیادہ پراعتماد اور مضبوط نظر آیا۔ اتنی سخت سیاسی گردش کے باوجود ایسی باڈی لینگوئج میں بڑبڑانے لگا تو میرے ساتھ کھڑے ایک معتبر مسلم لیگی نے کہا کہ کٹہرے میں کھڑا نوازشریف پریشان نہیں لگ رہا۔ میں بولا پریشان انسان غیر متوقع واقعات یا بے بسی کی حالت میں ہوتا ہے۔ نوازشریف نے طاقت کے مرکز کو راہ راست پر لانے کے سبب سے جو اقدامات کیے تو تین بار وزارت عظمیٰ کے منصب تک پہنچنے والے نوازشریف اس سے قطعاً لا علم یا ناآشنا نہیں ہو سکتے تھے کہ وہ جو قومی مفاد میں مقصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اس میں ان کو کس قسم کے حالات سے سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ نوازشریف جن حالات سے نبردآزما ہیں اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہ قومی مفاد کا تعین کرنے کے عوامی حق کے خاطر ڈٹ جانے والے ایک رہنماء کے طور پر سامنے آ کھڑے ہوئے ہیں۔ قومی مفاد اور دیگر پر گفتگو کرنے سے قبل یہ واضح کر دوں کہ ان کے خلاف جو پروپیگنڈا ہو رہا ہے وہ ان تمام افراد کے خلاف ہوتا ہے جو طاقت کے مرکز کی اصلاح اور اس کو راہ راست پر چلانے کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایئر مارشل اصغر خان مرحوم ایک سکہ بند فوجی تھے ۔ سیاسی ایوانوں میں بھی سرگرم رہے انہوں نے اپنی کتاب ’’جرنیل سیاست میں‘‘ میں تحریر کیا کہ وہ اس بات کے قائل نہیں تھے کہ سیاستدان ملک چلانے کے لئے نااہل ہیں۔ انہوں نے تحریر کیا کہ ’’آج کی دنیا میں جہاں بھی فوجی حکومتیں قائم ہوئیں انہوں نے مارشل لاء کے جواز میں روایتی طور پر اپنے زیر اثر ذرائع ابلاغ کے ذریعے عوام کو یہ تاثر دیا کہ سیاستدان ملک کا انتظام چلانے میں ناکام ہو چکے تھے‘‘ اگر ہم غور کریں تو آج بھی بنیادی طور پر یہی تصور عوام کو لٹایا جا رہا ہے کہ ملک کو ان سیاستدانوں سے خطرہ ہے۔ حالانکہ ابھی یہ کوئی ماضی بعید کا واقعہ نہیں جب پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کے دنوں میں ٹی وی انٹرویو میں یہ تسلیم کیا تھا کہ ان کے دور میں وفاق پاکستان کمزور ہوا۔ اصغر خان نے آگے تحریر کیا کہ ’’عوام اور ان کے نمائندے اپنے فرائض کی بجا آوری میں ناکام نہیں ہوئے کیونکہ انہیں تیس سالہ تاریخ میں مختصر عرصے کے علاوہ کام کرنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ایک مختصر عوامی دور میں عوام کے نمائندوں کے درمیان باہمی تضاد موجود تھا لیکن تضاد تو سماج کی زندگی میں ترقی کا لازمی جزو ہے۔ ان تضادات کے باوجود عوام کے نمائندوں نے قومی یکجہتی کے ضمن میں نمایاں کردار ادا کیا‘‘ المیہ یہ ہے کہ آج بھی عوام کے حق حاکمیت کی بات کرنے والے سیاستدان پر ناکام ہو جانے اور ملک کے لئے خطرہ جیسے گھسے پٹے الزامات ہی دہرائے جا رہے ہیں۔ بات بالکل واضح ہے کہ طاقت کے مرکز اور عوامی طاقت کے حامل سیاستدان نوازشریف کے درمیان یہ واضح طور پر اختلاف پیدا ہو چکا ہے کہ وہ کون ہو گا جو قومی مفاد کا تعین کرے گا؟ اس مفاد کو حاصل کرنے کی غرض سے حکمت عملی ترتیب دے گا اور پھر اس حکمت عملی پر عمل کروائے گا۔ اس میں قائدانہ کردار کس کا ہو گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس قائدانہ کردار کو 1973ء کے آئین کی تین دفعہ پامالی کرنیوالے بھی تحریری طور پر اپنے نام نہ لکھوا سکے کہ کوئی قانونی حیثیت ہو گی۔ کیونکہ یہ تصور کہ عوام کی بجائے حق حاکمیت کسی اور کے پاس ہے کسی کو بھی ہضم نہیں ہوتا۔ قومی مفاد کے تعین کا عوامی حق حاصل کرنے کے لئے نوازشریف کی یہ مجبوری ہے کہ وہ اس طاقت سے ٹکرا جائے جسے قومی مفادات کا ایک نقشہ تھوپا ہوا ہے۔ اس قومی مفادات کے نقشے کے سبب ہی آج گلی محلوں سے لے کر ٹی وی چینلوں تک مذہبی تشدد اور ایک دوسرے کو گالیاں دینے کی آوازیں صاف سنائی دے رہی ہیں۔ قتل و غارت گری معاشرے میں ساتھ ساتھ چل رہی ہے اور یہ سب کچھ اگر ایسے ہی چلتا رہا تو یہ کس قدر تباہی کا باعث ہو گا؟ لیکن یہاں اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ طاقت کے اس مرکز سے ٹکرا جانے کا مقصد نوازشریف کی ڈکشنری میں اس کو کمزور یا بے اثر کر ڈالنا ہرگز نہیں ہے۔ کیونکہ دنیا میں افغانستان اور عراق کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کے بعد اپنے دفاع کے لئے ایک لمحے بھی غافل رہنا موت کے مترادف ہے۔ بلکہ جدوجہد صرف اتنی ہے کہ تمام ادارے وہاں تک محدود ہو جائیں جہاں تک ترقی کرتے جمہوری ممالک کے ادارے محدود ہیں۔ میں یہ گفتگو کر ہی رہا تھا کہ میری نظر دوبارہ نوازشریف پر پڑی ان سے گفتگو کرنے کی غرض سے ان کی طرف بڑھا تو میرے ہاتھوں میں کرنل سہیل شہید کے بچوں کی تصویر والا اخبار تھا۔ نوازشریف کی نظریں شہید کے بچوں کے چہروں پر ٹھہر گئیں اور خود کلامی کے انداز میں بولے کاش ان کے باپ کو بچایا جا سکتا۔ میں نے ایک موضوع پر گفتگو کی تو مجھے جواب دیا کہ امید تو رکھنی چاہیے دنیا امید پر قائم ہے۔ اور میں اس پر امید شخص کی آنکھوں میں موجود عزم کو دیکھتا ہی رہ گیا کہ جس کی نگاہیں پھر شہید کرنل سہیل کے معصوم بچوں کی تصویر پر ٹکی ہوئی تھیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)