’’شجر‘‘ ہے شرط...درخت لگائیں، درجہ حرارت گھٹائیں

June 10, 2018

اہل کراچی نے رمضان المبارک کے ابتدائی دس، بارہ دن شدید ترین گرمی کے عالم میں گزارے۔ ایک روز کراچی کا درجۂ حرارت جیکب آباد سے بھی زیادہ ریکارڈ کیا گیا، جہاں کا درجۂ حرارت عام طور پر ملک بھر میں سب سے زیادہ رہتا ہے۔ شدید گرمی کے باعث بازار سنسان اور سڑکیں ویران نظر آئیں۔ محکمۂ موسمیات نے 19سے 23؍مئی تک ہیٹ ویوالرٹ جاری کیا اور عوام کو ہدایت کی گئی کہ وہ بلا ضرورت گھر سے باہر نہ نکلیں۔ گرمی کی شدّت کے پیش نظر کراچی کے اعلیٰ ثانوی بورڈ اور جامعہ کراچی نے ان تاریخوں پر ہونے والے امتحانات ملتوی کر دیئے۔ اتوار 20مئی کا دِن سال کا گرم ترین دن قرار پایا، لیکن دوسرے دِن اس سے زیادہ گرمی پڑی، دِن بَھر لو چلتی رہی اور درجۂ حرارت 44سینٹی گریڈ تک جا پہنچا ،جو شدید حبس کے سبب 47سینٹی گریڈ محسوس ہوا۔ ہیٹ اسٹروک سے متّاثرہ افراد کی تعداد میں اضافے کے پیش نظر سرکاری اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی۔ موسم کی سختی اپنی جگہ پر رہی ،مگر شہر کو بجلی سپلائی کرنے والے واحد ادارے ’کے الیکٹرک‘ نے بھی اپنی روایتی سنگ دِلی اور بے حسی کا مظاہرہ خوب کیا۔ شہر کے کچھ علاقوں میں بارہ، بارہ گھنٹے تک بجلی غائب رہی، لیکن کے الیکٹرک کی انتظامیہ نے اسے لوڈ شیڈنگ کے بجائے تکنیکی خرابی قرار دیا۔ اس ضمن میں ہالینڈ سے لائے جانے والے 45ٹن وزنی ایک پرزے کا خوب چرچا رہا، جسے بن قاسم پاور پلانٹ میں نصب کیا جانا مقصود تھا۔ بجلی کی بلا تعطّل فراہمی کا سارا انحصار اسی پرزے کی تنصیب پر بتایا جا رہا تھا ۔ تین سال قبل کراچی میں گرمی سے ڈیڑھ ہزار افراد کی ہلاکت کے ضمن میں بھی کے الیکٹرک کی ناقص کارکردگی کو ایک اہم سبب قرار دیا گیا تھا۔ اللہ کا شُکر، حالیہ گرمی اتنی ہلاکت خیز ثابت نہ ہوئی، لیکن ایدھی فائونڈیشن کی جانب سے ملنے والی اس اطلاع نے سب کو چونکا دیا کہ ان کے سردخانے میں گزشتہ چار روز کے دوران 64افراد کی لاشیں رکھوائی گئی ہیں،جو لواحقین کے مطابق شدید گرمی اور ہیٹ اسٹروک کے باعث ہلاک ہوئے۔ مرنے والوں کی عُمریں دس سے اسّی سال کے درمیان تھیں۔ تاہم، سرکاری حلقوں نے ایدھی فائونڈیشن کا یہ مؤقف تسلیم نہیں کیا۔ ڈائریکٹر صحت، کراچی کا کہنا تھا کہ اسپتالوں میں ہیٹ اسٹروک سے متّاثرہ مریض رپورٹ تو ہوئے ہیں، لیکن کوئی ہلاکت نہیں ہوئی۔

گزشتہ چند برسوں کے دوران کراچی کے درجۂ حرارت میں غیر معمولی اضافے کی وجوہ پر غور کیا جائے تو موسمیاتی تغیّرات کے ساتھ ساتھ اس میں ہمارا ماحول دشمن رویّہ بھی کارفرما نظر آئے گا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ شہر کسی مناسب منصوبہ بندی کے بغیر بے ہنگم انداز میں پھیلا اور بڑھا ہے۔ دوسری بات یہ ہوئی کہ حکومتوں سے لے کر شہری ماہرین تک کسی نے ایک فی صد بھی یہ غور نہیں کیا کہ یہاں کا ماحولیاتی نظام یا توازن کس طرح کا ہونا چاہیے۔ جغرافیائی لحاظ سے کراچی ایک نیم صحرائی اور نیم پہاڑی علاقہ ہے۔ ساحلی علاقہ ہونے کے باوجود یہاں بارش کا سالانہ اوسط انتہائی کم ہے۔ پاکستان کے قیام تک تین ساڑھے تین لاکھ کی آبادی کو عموماً پانی کی قلّت کا سامنا رہتا تھا۔ یہ شہر ان تمام خصوصیات سے یک سر محروم تھا، جو کسی دارالحکومت کےلیے ضروری ہوتی ہیں۔ ابتدائی دَور کے منصوبہ سازوں نے اس شہر کےلیے جو بھی منصوبہ بندی کی وہ عارضی اور ہنگامی نوعیت کی تھی۔ ان کے ذہن میں یہ تھا ہی نہیں کہ یہ شہر کبھی میگا سٹی بنے گا اور اس کی آبادی کروڑوں سے بھی بڑھ جائے گی۔ منصوبہ سازوں نے شہر میں ٹرانسپورٹ کا باقاعدہ نظام قائم کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی اور شہر میں چلنے والی گنتی کی چند ٹراموں ہی کو بہت سمجھ لیا۔ ملیر اور اس کے اطراف کے علاقے زرعی تھے، ڈرگ روڈ ریلوے اسٹیشن سے ہرے بھرے کھیتوں اور باغات کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا۔ شہر کے لوگ سیر و تفریح کےلیے یہاں آتے تھے۔ ملیر ندی اور لیاری ندی کے کناروں پر کھیت اور باغات تھے، مگر جب آبادی بڑھی، تو یہ کھیت اور باغات رفتہ رفتہ ختم ہوتے چلے گئے اور آبادیاں قائم ہوگئیں۔ اب عالم یہ ہے کہ ڈرگ روڈ ریلوے اسٹیشن سے گھگھر پھاٹک تک کوئی کھیت نظر نہیں آئے گا۔ لیاری ندی کے دونوں کناروں پر بھی بے شمار بستیاں آباد ہیں۔ یہ وہ سب سے بڑا نقصان ہے، جس نے کراچی کے ماحولیاتی نظام کو ہمیشہ کے لیے بگاڑ کر رکھ دیا۔ اگر کوئی دوراندیش حکومت ہوتی، تو زرعی زمینوں کو رہائشی مقاصد کےلیے استعمال کی اجازت دینے کے بجائے کراچی اور حیدرآباد کے درمیان بنجر و بے آب و گیاہ زمین آباد کرنے پر توجّہ دیتی، جو آج بھی ویران پڑی ہے۔ ایّوب خان کے دَور میں حب ڈیم کی تعمیر شروع ہوئی جس کا مقصد یہ تھا کہ کراچی کے نواح میں ایک ایسی گرین بیلٹ قائم ہو جائے، جہاں سے کراچی کو پانی ملنے کے ساتھ ساتھ اس کی سبزی، دودھ اور گوشت کی ضروریات بھی پوری ہو سکیں، مگر یہ منصوبہ بھی اپنی اصل شکل میں برقرار نہ رہ سکا اور ہائوسنگ اسکیموں کا سلسلہ اب یہاں بھی پہنچ گیا ہے۔ اب کیا یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ جب ہریالی، کھیت اور باغات ختم ہوتے ہیں ،تو لاتعداد حیاتیاتی انواع بھی ختم ہو جاتی ہیں جو انسانی بقا کےلیے انتہائی ضروری ہوتی ہیں۔ تین سال قبل جب کراچی میں شدید گرمی سے بڑے پیمانے پر اموات ہوئی تھیں، ممتاز ادیب اور افسانہ نگار انتظار حسین نے لکھا تھا:’’کراچی کی سب سے بڑی ضرورت کیا ہے؟ درخت، درخت، درخت، کراچی میں جو ماحولیات کے ماہرین بیٹھے ہیں، یہ ان کی آواز ہے۔ ایسے وقت میں جب یہ ستم رسیدہ شہر گرمی سے بولایا ہوا ہے، وہ سامنے آئے ہیں۔ کراچی کو کیا چاہیے، فی آدمی ایک درخت۔ فوری طور پر بڑے پیمانے پر درخت لگانے کا انتظام کیا جائے ،مگر کون سے درخت؟ اس شہر کو اپنے درخت درکار ہیں۔ یہ جو دور دور کے باغات اور جنگلات سے پود لائی جاتی ہے اور اجنبی درخت اُگائے جاتے ہیں، وہ درخت نہیں چاہئیں۔ اپنے درخت مثلاً نیم، املی، برگد، گل مہر، اپنے دیسی درخت لگانے کا اہتمام کرو، پھر دیکھو کہ کراچی کے ماحول میں کتنی جلدی کتنی بڑی تبدیلی آتی ہے۔‘‘

کراچی میں موسمیاتی توازن برقرار رکھنے کی پہلی شرط یہی ہے کہ یہاں بڑے پیمانے پر شجرکاری کی جائے۔ انتظار حسین صاحب کے بتائے ہوئے فارمولے ’’فی آدمی، ایک درخت‘‘ کا مطلب ہے کہ شہر کو کم از کم دو کروڑ درختوں کی ضرورت ہے، لیکن درختوں کے سب سے بڑے دشمن تو ہم ہی ہیں۔ ذرا موقع ملتا ہے، درخت کاٹ ڈالتے ہیں۔ اس کام میں عام فرد ہی نہیں، حکومت اور حکومتی ادارے بھی پیش پیش رہتے ہیں۔ کراچی میں ان دنوں سرجانی ٹائون سے ایم اے جناح روڈ تک گرین لائن بس منصوبہ زیر تعمیر ہے، لیکن ہم نے یہ کیا کہ چودہ کلومیٹر طویل منصوبے کی زد میں آنے والے تقریباً اٹھارہ ہزار سے زائد چھوٹے، بڑے درخت اور پودے بیدردی سے کاٹ دیئے۔ یہ درخت اور پودے برسوں کی محنت کا نتیجہ تھے، انہیں کاٹنے کے بجائے دوسری جگہ منتقل کیا جا سکتا تھا۔ اس سے قبل شارع فیصل پر سیکڑوں درخت صرف اس وجہ سے کاٹ دیئے گئے تھے کہ وی آئی پی موومنٹ کو ان سے خطرہ تھا یا وہاں لگائے ہوئے خفیہ کیمرے صحیح طرح کام نہیں کر رہے تھے۔ کنٹونمنٹ بورڈ کے عملے نے بھی اس سڑک پر کئی درخت اس وجہ سے کاٹ دیئے کہ وہاں نصب سائن بورڈز چھپ رہے تھے۔ دراصل بات یہ ہے کہ ہمارے منصوبوں میں درخت لگانے یا ان کے تحفّظ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جب کوئی بلڈر عمارت تعمیر کرتا ہے، تو سب سے پہلا کلہاڑا درخت اور پودوں ہی پر چلتا ہے۔ کے الیکٹرک زیر زمین بجلی کی لائنیں بچھانے کے بجائے لائنوں کی زد میں آنے والے درخت کاٹ ڈالتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے واٹر بورڈ کے ایم ڈی صاحب نے مطالبہ کیا تھا کہ واٹر بورڈ کی تنصیبات کے آس پاس لگے ہوئے تمام درخت کاٹ دیئے جائیں کیوں کہ ان کے بہ قول ان درختوں کی جڑیں لائنوں میں پیوست ہو جاتی ہیں اور یوں وہ فراہمی و نکاسیٔ آب کے نظام کےلیے خطرہ بن رہے ہیں۔ یونی ورسٹی روڈ کی ازسرِنو تعمیر کے دوران بھی ٹھیکیدار نے سیکڑوں درخت کاٹ کر پھینک دیئے۔

یہ تو چند واقعات عن قریب پیش آئے، وگرنہ ایسی انگنت مثالیں موجود ہیں، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف کراچی ہی میں نہیں، پورے مُلک میں درختوں کے ساتھ دشمنی کی جا رہی ہے، حتّیٰ کہ بعض ایسے علاقے جو اپنی شجرکاری کی وجہ سے مشہور ہیں، وہاں بھی درختوں کا بے دریغ صفایا کیا جا رہا ہے۔ حال ہی کی بات ہے چترال میں ٹرانسمیشن لائن کی زد میں آنے والے سترہ سو درخت کاٹ دیئے گئے ،جن میں 253 شاہ بلوط کے قدیم ترین درخت بھی تھے۔ عجب بات ہے کہ انسان آکسیجن کے سہارے زندہ رہتا ہے، لیکن آکسیجن فراہم کرنے والے درختوں ہی کا دشمن ہے۔ کراچی میں شجرکاری کی بات کریں، تو ہم آج تک یہ فیصلہ ہی نہیں کر سکے کہ یہاں کس قسم کے درخت لگانےچاہئیں۔ منصوبہ ساز پہلے ایک درخت کا انتخاب کرتے ہیں، کچھ عرصہ بعد پتا چلتا ہے کہ یہ درخت تو ہمارے ماحول سے مطابقت ہی نہیں رکھتا بلکہ الٹا ماحول کےلیے خطرہ بن رہا ہے۔ ستّر کے عشرے کی ابتداء میں کے ایم سی نے شہر کی تمام سڑکوں، کھلی جگہوں، پارکس اور فٹ پاتھوں پر سفیدے کے درخت لگائے تھے۔ اس وقت کہا گیا کہ یہ ماحول دوست درخت ہے، تیزی سے بڑھتا ہے، اس کی جڑیں زمین میں خاصی گہرائی تک چلی جاتی ہیں، لہٰذا اسے زیادہ پانی کی ضرورت نہیں ہوتی ۔چنانچہ شہر میں ہر طرف سفیدے کے درختوں کی بھرمار ہو گئی، چند برسوں میں یہ تیزی سے بڑھ گئے اور ان کی بلندی کئی منزلہ عمارات کے برابر ہو گئی۔ پھر پتا چلا کہ اس درخت کا تنا نہایت کم زور ہے، ذرا تیز ہوا چلتی ہے، تو یہ درمیان سے ٹوٹ جاتا ہے، لہٰذا ان درختوں کے گاڑیوں اور افراد پر گرنے کے متعدد واقعات رونما ہونے لگے۔ اسی دوران معلوم ہوا کہ یہ درخت بنیادی طور پر ان علاقوں کےلیے مناسب ہے، جہاں کی زمین سیم و تھور زدہ ہو کیوں کہ سفیدے کے ایک بالغ درخت کو دِن میں پندرہ سے بیس لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ زیر زمین پانی کےلیے نقصان دہ ہے، اسے رہائشی علاقوں میں لگایا جائے، تو آنے والی نسلوں کو پانی کی کمی کی صورت میں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ چنانچہ شہر میں سفیدے کے درختوں کا قتل عام شروع ہو گیا۔ پھر نئے ناظمِ شہر آئے، انہوں نے شہر میں جا بہ جا کھجور کے درخت لگوا دیئے، جن میں سے آدھے تو کچھ عرصے بعد ہی سوکھ کر ٹنڈمنڈ ہو گئے بقیہ کی حالت بھی خستہ ہی ہے۔ اس کے بعد اگلے ناظمِ شہر کا دور شروع ہوا ،تو آسٹریلیا سے ایک پودا ’’کونوکارپس‘‘ درآمد کیا گیا، جو انتہائی تیزی سے بڑھتا ہے۔ اس وقت پورے شہر میں ہر طرف یہی درخت نظر آتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ درخت ہمارے ماحول سے مطابقت نہیں رکھتا، اس درخت پر پرندے بیٹھتے ہیں اور نہ ہی گھونسلا بناتے ہیں، جب کہ کچھ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ درخت نقصان دہ نہیں ہے۔ اب تک یہ واضح نہیں ہوا کہ کونوکارپس نامی درخت کو کس زمرے میں رکھا جائے۔ تاہم،اس کی مخالفت میں آنے والی آراء زیادہ ہیں۔ ویسے یہ مشاہدے میں آ چکا ہے کہ کوئی پرندہ اس درخت کے قریب نہیں پھٹکتا۔ اس کی شاخیں نہایت گھنی اور افقی سمت پھیلنے کے بجائے عمودی ہوتی ہیں، جب کوئی پرندہ ان پر بیٹھتا ہے، تو اس کے پر ان شاخوں میں پھنس جاتے ہیں اور وہ بڑی بے کسی کے عالم میں موت سے ہم کنار ہو جاتا ہے۔

قیامِ پاکستان کے بعد کراچی کی سڑکوں پر زیادہ تر نیم، املی، آم، برگد، پیپل اور شیشم کے درخت لگانے کا رواج تھا۔ لوگ باگ اپنے گھروں کے سامنے یا گلیوں میں بھی یہی درخت لگاتے تھے۔ 1964ء میں کے ڈی اے نے اپنی رہائشی اسکیموں بالخصوص اسکیم 16فیڈرل بی ایریا میں بڑے پیمانے پر شیشم کے درختوں کی شجرکاری کی تھی، لیکن تعمیرات کے جنون میں رفتہ رفتہ یہ درخت کاٹ دیئے گئے۔ اب اس علاقے میں اکّادکّا ہی شیشم کے درخت باقی رہ گئے ہیں۔ یہ تمام درخت بنیادی طور پر گھنے اور سخت جان تھے۔ ایک مرتبہ لگانے کے بعد انہیں زیادہ دیکھ بھال کی ضرورت نہیں ہوتی تھی تاہم ان کی بڑھوتری کی رفتار سست تھی ،لیکن یہ طویل عرصے تک چلتے تھے۔ کراچی کے مختلف علاقوں میں آج بھی نیم اور برگد کے قدیم درخت نظر آئیں گے۔ ان میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرنے کی صلاحیت بہت زیادہ ہوتی ہے، گھنے اور سایہ دار بھی ہوتے ہیں، لہٰذا ان پر حیاتیاتی تنوع بھی خوب نظر آتا ہے۔ کراچی میں جب تک عمودی تعمیرات کا رواج نہیں ہوا تھا ،فلیٹس کم اور مکانات زیادہ تھے۔ ہر گھر میں کم از کم ایک درخت ضرور لگایا جاتا تھا یا پھر کیاریوں اور گملوں میں پودے لگائے جاتے تھے۔ سرِشام جب لوگ گلیوں سے گزرتے ،تو چنبیلی اور موتیے کی خوشبو سے پورا ماحول مہک رہا ہوتا ،لیکن جب آبادی کا دبائو بڑھا اور رہائشی ضروریات میں اضافہ ہوا، تو کشادہ مکان سمٹتے چلے گئے، کنکریٹ نے درختوں اور پودوں کےلیے گنجائش ہی نہیں چھوڑی۔ چالیس، چالیس گز رقبے پر آٹھ، آٹھ منزلہ فلیٹس بن گئے۔ اب درختوں اور پودوں کےلیے جگہ کہاں سے آئے۔ پھر بھی باذوق افراد گیلریوں اور سیڑھیوں پر گملے رکھنے کی جگہ نکال ہی لیتے ہیں ،لیکن ایسے افراد بہت کم ہیں۔ کچھ بنگلوں اور کوٹھیوں میں سرسبز لان نظر آتے ہیں، لیکن یہ بھی کچھ دِن کی بات ہے۔ بنگلوں کی جگہ کثیر المنزلہ عمارات بن رہی ہیں۔ طارق روڈ، شہید ملّت روڈ، نارتھ ناظم آباد، شاہراہ فیصل، پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی، فیڈرل بی ایریا اور محمد علی سوسائٹی کے علاقوں میں جہاں بنگلوں میں ہزاروں درخت، پودے اور گھاس سے حیاتیاتی تنوع اور ماحول بہتر ہوتا تھا، وہاں اب کنکریٹ کی بلند وبالا عمارات ہیں ،جہاں اب گھاس کا ایک پتّا بھی نظر نہیں آتا۔ کراچی میں بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے۔

اگر ہم کراچی کا ماحول بہتر بنانا چاہتے ہیں، تو ہمیں سب سے پہلے اور سب سے زیادہ توجّہ شجرکاری پر دینی ہوگی۔ اگر گھر میں درخت لگانے کی گنجائش نہیں ہے، تو گملوں میں پودے لگائیں۔ گھر کے باہر اگر کوئی خالی جگہ ہے ،تو وہاں چھوٹا موٹا درخت لگا دیں۔ کراچی کے کسی بھی گھر میں چلے جائیں مصنوعی پودے اور بیلیں ضرور نظر آئیں گی۔ لوگ سجاوٹ کےلیے مہنگے مہنگے مصنوعی پودے خریدتے ہیں، لیکن اصل اور حقیقی پودے نہیں لگاتے۔ اگر ہم اپنے حصّے کا ایک پودا ہی لگا لیں، تو حکومت، سرکاری محکموں اور بلدیاتی اداروں کی طرف دیکھنے کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے، لیکن حکومت اور اس کے اداروں کو بھی شہر میں ہنگامی بنیادوں پر شجرکاری کو رواج دینا ہو گا۔ صرف درخت لگانا ہی کافی نہیں، ان کی دیکھ بھال اور نگہداشت بھی ضروری ہے، اس سے کہیں زیادہ ضروری امر یہ ہے کہ مناسب اور دیرپا درختوں کا انتخاب کیا جائے۔ کثیرالمنزلہ عمارات کی تعمیر کی اجازت دینے سے قبل بلڈرز اور مالکان کو پابند کیا جائے کہ وہ چھتوں پر نرسریاں اور کیاریاں بنائیں گے۔ شہر میں متعدد مقامات پر کھلے میدان ہیں، ان کے کناروں پر درخت لگائے جائیں۔ سب سے بہتر جگہ لیاری ندی ہے۔ شہر کے اندر گزرنے والی پچیس کلومیٹر طویل اس ندی کے دونوں کناروں پر کثیر تعداد میں درخت لگائے جائیں، تو ہزاروں درخت چند سال میں بڑے ہو کر شہر کا درجۂ حرارت کم کر دیں گے۔ دبئی میں سمندری پانی کو بخارات اور نمی میں تبدیل کرنے کے پلانٹس کی تنصیب سے درجۂ حرارت میں مناسب کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ کراچی کے ساحلی علاقوں کلفٹن اور ڈیفنس میں اگر اس قسم کے پلانٹس لگا دیئے جائیں تو صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔

مستقبل میں کراچی کے درجۂ حرارت کو معمول پر لانے یا قابل برداشت حد تک رکھنے کےلیے جیوگرافک انفارمیشن سسٹم بھی اختیار کیا جا سکتا ہے۔ اس نظام کے تحت شہر کے گرم ترین مقامات کا پتا چلایا جا سکتا ہے اور معلوم کیا جا سکتا ہے کہ گرمی کا سبب گنجان آبادی ہے یا ٹریفک کی بہتات یا پھر کوئی اور وجہ، ان معلومات کی روشنی میں بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت کی روک تھام کےلیے منصوبہ بندی کرنا آسان ہو جاتا ہے۔