عام انتخابات کا فاتح کون ؟

June 10, 2018

پورے ملک میں الیکشن کی گہما گہمی عروج پر ہے۔وفاق اور چاروں صوبوں میں نگران حکومتوں نے اپنی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔الیکٹیبلزکی بڑی تعداد تحریک انصاف کے ٹکٹ پر توکل کئے ہوئے ہے۔پنجاب اور بلوچستان کے نگران وزرائے اعلیٰ کے انتخاب نے صورتحال کو متنازع بنادیا ہے۔پنجاب کی بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ ن کی جانب سے حسن عسکری کو مسترد کرنا غیر معمولی ہے۔
ایسی صورتحال میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ساکھ شدید متاثر ہونے کا خدشہ ہے ۔لیکن اگر حسن عسکری صاحب چاہیں تو اس تاثر کو زائل بھی کرسکتے ہیں۔بطور تجزیہ نگار ان کی رائے ذاتی عمل تھا،مگر ملک کے سب سے بڑے صوبے کے نگران وزیراعلیٰ کی حیثیت سے وہ ایسے غیر جانبدارانہ اقدامات کرسکتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کو مزید کوئی بات کرنے کا موقع نہ ملے۔لیکن اگر صورتحال مختلف ہوئی تو پھر عام انتخابات کی شفافیت پر انگلیاں اٹھیں گی۔میری اطلاع کے مطابق پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ کے معاملے پر ایڈمرل صاحب سے گفتگو کا آغاز ہوااورتمام افراد نے ایڈمرل صاحب پر ایسے گفتگو شروع کی ،جیسے وہ انہیں برسوں سے جانتے ہوں بلکہ جو باتیں مسلم لیگ ن بھی نہیں جانتی تھی وہ تمام ممبران پوری طرح جانتے تھے۔یعنی ان کا نام مسترد کرنے کا پورا سامان موجود تھا۔پھر معاملہ جسٹس سائر پرآگیا۔ممبران کی اکثریت جسٹس سائر کو پسند کرتی تھی۔مگر اسی دوران معاملہ سامنے رکھ دیا گیا کہ جسٹس سائر کو وزیراعلیٰ پنجاب نامزد کرنے سے پورے ملک میں ہر اہم عہدے پر ججز ہی ججز ہوجائیں گے۔
یوں معاملے کو بریک حسن عسکری صاحب کے پاس آکر لگی۔حسن عسکری پر کمیشن میں 4اور1کی رائے موجود تھی۔مگر پھر متفقہ طور پر عسکری صاحب کو نامزد کردیا گیا ،تاکہ کمیشن کی ساکھ پر کوئی اثر نہ پڑے۔جبکہ بلوچستان کے نگران وزیراعلیٰ کی سی وی دیکھ کر کمیشن کے تمام ممبران اور سربراہ خاصے حیران ہوئے اور ان کی مضبوط سی وی دیکھتے ہوئے انہیں وزیراعلیٰ بلوچستان نامزد کردیا گیا۔اب جب پورے ملک میں نگران حکومت کے حوالے سے سارا سیٹ اپ مکمل ہوچکا ہے اور عید کے فوراََ بعد عام انتخابات کی باقاعدہ مہم کا آغاز کردیا جائے گا۔ایسے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان ،نگران حکومت اور تمام اداروں کو ایسے اقدامات کرنے چاہئیں،جس سے عام انتخابات کی شفافیت پر مزید مہر تصدیق ثبت ہو۔
تحریک انصاف نے ملک بھر کے زیادہ تر حلقوں میں اپنے امیدواروں کا اعلان کردیا ہے۔تحریک انصاف کی فہرست کوئی خاص متاثر کن نہیں ہے۔جنوبی پنجاب کی بھی بعض سیٹوں پر کٹھن مقابلے کی توقع ہے۔سینٹرل پنجاب کے امیدوار زیادہ مضبوط نہیں ہیں۔الیکٹبلز کا بڑا گروہ شامل ہونے سے کچھ بہتری آئی ہے مگر پھر بھی یہ بڑا کٹھن سیاسی معرکہ ہوگا۔سنجیدہ سیاسی تجزیہ نگاروںکے خیال میں قوی امکان ہے کہ الیکٹبلز کی 1977سے شروع ہونے والی بلیک میلنگ حالیہ انتخابات میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے۔ 2018کا الیکشن الیکٹبلز کی سیاست کے خاتمے کا سال ہوگا۔مگر دوسری رائے یہ بھی ہے کہ الیکٹبلز کی مانگ مزید بڑھ جائے گی اور انہی الیکٹبلز کی وجہ سے تحریک انصاف مرکز میں حکومت بنائے گی اور عمران خان کو انہی سے بلیک میل ہونا پڑے گا۔اس ساری صورتحال میں یہ بات تو طے ہے کہ عام انتخابات سے ڈیڑھ ماہ قبل بھی کوئی حتمی رائے نہیں دے سکتا۔ہر شخص کنفیوژ نظر آرہا ہے۔جولائی کی گرمی اور کٹھن سیاسی مہم بڑے اپ سیٹ کا موجب بھی بن سکتی ہے۔تمام دعوے،کوششیں اور مینجمنٹ ناکام بھی ہوسکتی ہیں مگر اس کے امکانات بہت کم ہیں۔جب سیاستدان ہی سیاستدانوں کے خلاف سہولت کار بن جائیں تو پھر جیت کے امکانات معدوم ہوجاتے ہیں۔صورتحال ایسی سمت میں جارہی ہے کہ مرکز سے ہٹ کر پنجاب بھی چھینا جاسکتا ہے۔مگر شاید یہ مشکل عمل ہوگا۔لیکن پاکستان جیسے ملک میں کسی بھی وقت کچھ بھی ممکن ہے۔یہاں پر تو منافقت میں بھی ملاوٹ موجود ہے،باقی معاملات کے کیا کہنے۔
جبکہ عام انتخابات سے جڑا ایک مسئلہ الیکشن میں تاخیر کا ہے۔میری ذاتی رائے میں عام انتخابات میں تاخیر کا وقت گزر چکا ہے۔اب سب اس بات پر متفق ہیں کہ الیکشن کرانے میں ہی بہتری ہے۔آئین پاکستان میں اگر ایک فیصد بھی گنجائش ہوتی تو شاید اس آپشن کو بھرپور استعمال کیا جاتا مگر الیکشن کمیشن آف پاکستان سے لے کر کوئی بھی ادارہ تاخیر کے حوالے سے کچھ نہیں کرسکتا۔اس حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان کا بروقت ایکشن بھی قابل ستائش ہے۔25جولائی کو عام انتخابات منعقد ہونگے اور ملک کی آئندہ 50سالہ سیاسی تاریخ کی سمت کا تعین کردیں گے۔
مگر ایک بات طے ہے کہ 1970کے بعد حالیہ انتخابات ملکی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔انتخابات میں اداروں کا بھرم بھی ٹوٹ سکتا ہےیا معاملہ مختلف بھی ہوسکتا ہے۔آئندہ چند روز میں گرمی کی شدت کے ساتھ سیاسی حدت میں بھی اضافہ ہوگا ۔مگر 25جولائی کو جو بھی نتیجہ آئے ، خدشہ ہے کہ ملک میں سیاسی و معاشی عدم استحکام میں اضافہ ہوگا۔مسلم لیگ ن کی جیت سے بھی چیزیں پیچیدگی کی طرف جائیں گی جبکہ تحریک انصاف اور الیکٹبلز کی جیت بھی عدم برداشت اور سیاسی عدم استحکام کو فروغ دے گی۔قائد کے پاکستان کے حالات کچھ اچھے نظر نہیں آرہے۔
حکم یہ نشر کرادو عدم کہ آئندہ
عوام تن کر چلیں ،جھک کر شہریار چلے
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)