’’سیاسی اور مذہبی باتیں‘‘

June 11, 2018

رمضان کا مُبارک مہینہ ہے اور جلد ہی مکمل ہونے والا ہے اللہ پاک سب کی عبادت قبول فرمائے آمین ، اور عید پر غریبوں کی مدد کرنے کی ترغیب عطا فرمائے۔ آمین۔ چند اعلیٰ دینی کتب پر، ایک سوانح حیات پر اور ایک قرآن کی پکار پر چند سطور آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں۔
(1) پہلی کتاب ہمارے سینئر صحافی اور پی پی پی کے سابق سیکرٹری جنرل جناب قیوم نظامی کی تحریر کردہ ’’معاملات انسان اور قرآن‘‘ ہے۔ یہ اعلیٰ معلوماتی کتاب فروری 2018ءمیں خوبصورت پیرائے میں شائع کی گئی ہے۔ آپ نے اس کتاب میں اللہ اور انسان، رسول اللہؐ اور انسان، قرآن و انسان، معاملات، اخلاقیات اور انسان، وعدےکا تقدس، سچ اور جھوٹ، قول اور فعل میں تضاد (منافقت)، والدین سے حُسن سلوک، خیرات، رشتہ داری، یتیموں اور مساکین کا حق، پڑوسی کا حق، شوہر اور بیوی کے حقوق، ناپ تول میں دیانت امانت، دیانت اور خیانت، انسانوں سے سلوک، اعتدال، فحاشی اور بے حیائی سے اِجتناب، غرور اور تکبّر، تجسس اور غیبت، صبر، شکر، تقویٰ، عدل و انصاف، توکّل ، نیک اعمال، فرقہ واریت، انتہا پسندی، فتنہ فساد، غیرمسلموں سے سلوک، بنیادی انسانی حقوق، حقوق العباد، سرمایہ کاری، عبادات، اسلام، ایمان، نماز، زکوٰۃ، خیرات فوائد، مستحقین، روزہ، حج عمرہ، قربانی، جہاد، حلال، حرام، احسان جتانا، تقدیر، جزا ، سزا، توبہ، ذکر کثیر، ضابطہ حیات اور انسان، مسلم ریاست و سیاست، تخلیق انسان کے تقاضے، کائنات، دنیا اور انسان، شیطان اور انسان، قیامت اور انسان، قرآنی تعلیمات و آداب وغیرہ پر قرآن کی آیات اور احادیث کی مدد سے روشنی ڈالی ہے۔ یہ نہایت اہم، معلوماتی کتاب ہے اور ہر کالج، اسکول، یونیورسٹی کی لائبریری بلکہ ہر گھر کی زینت ہونی چاہئے۔ اللہ پاک جناب قیوم نظامی کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین
(2) دوسری معلوماتی اورمفید کتاب ’’بہار نقشبند‘‘ ہے۔ اس کتاب کے مصنف میاں محمد صادق قصوری ہیں۔ کتاب کی کتابت و تحریر دیدہ زیب ہے۔ اسکا انتساب جناب مجدّد الف ثانی حضرت شیخ احمد سرہندیؒ کے نام کیا گیا ہے ان سے اولیاء نقشبند کا تعلق ظاہر کیا گیا ہے۔ کتاب میں حیات رسول اکرم ؐ، حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بعد تقریباً تیس اولیائے کرام کی حیات اور کشفات کے بارے میں تفصیلی معلومات ہیں، آخر میں ہمارے جانے پہچانے مشہور عالم دین اور سیاسی رہنما جناب عبدالستار خان نیازی کا تفصیلی تذکرہ ہے۔ پاکستان کے قیام اور اسلامی تشخیص کیلئے ان کی اعلیٰ خدمات کو اجاگر کیا گیا ہے۔ کتاب کی ترتیب اور طرز تحریر آج سے ہزار سال پہلے لکھی گئی کتاب تذکرۃ الاولیاء (شیخ فریدالدین عطّار ) سے ملتا جلتا ہے وہ کتاب بھی خزینہ معلومات ہے اور تمام مشہور اولیاء کرام کی شخصیت پر روشنی ڈالتی ہے ۔ اسی طرح یہ کتاب بھی قیمتی معلومات سے پُر ہے۔ مصنف نے ان تمام مخیر حضرات کابھی ذکر کیا ہے جنہوں نے اس اہم کتاب کی اشاعت میں مدد کی ہے۔ مجھے ان ناموں میں اپنے پیارے، مخیر دوست ڈاکٹر محمد یوسف فاروق، وزیر آباد والے کا نام دیکھ کر بہت خوشی ہوئی، تعجب نہیں، کیونکہ وہ ہمیشہ سے ہی نہایت فراخدل اور مخیر شخصیت کے مالک ہیں اور ڈاکٹر صاحب اور انکے بھائی حاجی یعقوب صاحب ( اعلیٰ کھانے پکانے کے برتن، کانٹے چھری وغیرہ کی فیکٹری کے مالک) میرے نہایت عزیز دوست ہیں اور میں فرمائش کرکے انکے پاس جاکر ماش کی لذیز دال کھاتا ہوں۔ اللہ پاک انکو، ان کے اہل و عیال و عزیز و اقارب کو حفظ و امان میں رکھے، عمر دراز کرے، ہر شر سے محفوظ رکھے، اور رزق حلال میں برکت دے۔ آمین
(3) تیسری نہات اہم کتاب، سوانح حیات بنام ’’سچ تو یہ ہے‘‘ جناب چوہدری شجاعت حسین کی تحریر کردہ ہے۔ چوہدری صاحب کا سیاسی اور سماجی کردار کئی دہائیوں پر مشتمل ہے آپکے والد مشہور سیاستدان چوہدری ظہور الٰہی تھے جن کو ملک دشمن لوگوں نے لاہور میں شہید کردیا تھا۔ چوہدری صاحب اور انکے کزن چوہدری پرویز الٰہی نے پنجاب اور ملکی سیاست میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ چوہدری شجاعت پاکستان کے وزیر صنعت، وزیر اطلاعات، سابق وزیر اعظم رہے ہیں، نہایت ہمہ گیر شخصیت کے مالک ہیں، رحمدل، نرم مزاج، نرم گفتار، پرمزاح انسان ہیں۔ میرے ان سے تقریباً 35 سال سے اچھے تعلقات ہیں۔ اکثر مجھے صبح دفتر جانے سے پہلے ناشتہ کیلئے بلا لیتے تھے۔ آپ کی یہ کتاب ایک سیاسی انسائیکلوپیڈیاہے۔ آپ نے اپنے خاندان سے تعارف کے بعد ایوب خان کی صدارت سے لے کر تمام وزرائے اعظم کے دور حکومت کے واقعات ، نواز شریف اور بینظیر بھٹو کی حکومتیں اور برخاستگی، مشرف کا حکومت پر ناجائز قبضہ اور اس کے سیاہ دور کی تفصیل، این آر او، لال مسجد، کارگل پر احمقانہ ایکشن، نواب اکبربگٹی کا بہیمانہ قتل، امریکہ کی ایک فون پر غلامی، اور میرے ساتھ شرمناک سلوک اور وعدہ خلافی وغیرہ پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ امریکی صدر بش اور سی آئی اے کے سربراہ جارج ٹینیٹ (George Tenet) کے احکام کی تابعداری اور خوشنودی کی کوشش وغیرہ شامل ہیں۔ مجھ سے جھوٹا بیان ٹی وی پر پڑھوانے اور پھر وعدے سے پھرنے کی تفصیل ہے۔ میرے بیان پڑھنے کے بعد جوحرکتیں کی گئیں وہ آج بھی جاری ہیں۔ سیاسی حکمراں غلاموں کی طرح ایک آمر کے جاری کردہ احکامات پر عمل کررہے ہیں۔ جس دن (4 فروری 2004 ) کو میں نے وہ لکھا ہوا، تھمایا ہوا بیان پڑھا ہم پر زندگی تنگ کردی گئی۔ اُسی روز چوہدری شجاعت نے (جو اس تمام دوران مشرف سے اورمجھ سے رابطہ میں تھے)ان کے ساتھ جناب ایم ایم ظفر بھی تھے مگر بعد میں اس نے ظفر کو علیحدہ کردیا کہ وہ مجھے مشورہ دے رہے تھے کہ میں ہرگز اس ڈکٹیٹر کی کسی بات اور وعدہ پر اعتبار نہ کروں وہ بالکل صحیح ثابت ہوئے۔ چوہدری شجاعت نے کراچی کےایک انگریزی اخبار کو طویل انٹرویو دیا اور کہا کہ ڈاکٹر صاحب نے کوئی غلط کام نہیں کیا انھوں نے یہ الزام اپنے سر لے کر بہت بڑی قربانی دی ہے اور ملک کو ایک اور بار تباہی سے بچا لیا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ میں نے ایک روپیہ کی کرپشن یا بے ایمانی نہیں کی۔ اگر میں حقائق بیان کرتا تو ملک کو بہت نقصان پہنچتا۔اپنی سوانح حیات میں آپ نے یہ بتلایا ہے کہ جب وہ مجھ سے آکر ملے تو میں نے صاف طور پر کہا ’’چوہدری صاحب مجھ پر یہ الزام سراسر جھوٹ ہے میں نے کوئی چیز فروخت نہیں کی (اور کیسے کرتا میری ٹیکنالوجی تھی دو ارب ڈالر کی تھی اور میں نے مفت دی تھی) اور نہ کسی سے کوئی رقم لی ہے یہ جو فرنیچر جو میرے گھر میں آپ دیکھ رہے ہیں یہ بھی میری بیگم کے جہیز کا فرنیچر ہے۔ میں تو نیا فرنیچر نہیں خرید سکتا۔ یہ مجھ پر الزام لگا رہے ہیں‘‘۔ بہرحال میری درخواست پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ملک و قوم کی خاطر ٹی وی پر آکر سارا الزام اپنے سر لے لیا۔ اس پر میں نے ایک بیان جاری کیا جس کا متن یہ ہے۔ ’’ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بڑے پن کا ثبوت دیا ہے اور قومی مفاد میں ساری ذمہ داری اپنے سر لی ہے انھوں نے ایک پیسے کی کرپشن نہیں کی نہ ہی تفتیش کاروں کو کوئی بیان دیا ہے، میں نے گزشتہ روز ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ملاقات میں ملک میں پیدا ہونے والے بحران کے خاتمہ کے لئے کردار ادا کرنے کی استدعا کی تھی انھوں نے تمام ذمّہ داری اپنے سر لے کر ملک و قوم کے لئے پہلے سے بڑھ کر کام کیا ہے جس سے ملک میں ابہام کا خاتمہ ہوا ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ ہمیں کمزور سمجھ کر بیرونی دنیا ہم پر پریشر ڈال رہی ہے‘‘۔’’ میں آج بھی یہ سمجھتا ہوں کہ اس وقت ڈاکٹر صاحب نے معاملے کی ساری ذمہ داری اپنے سر لے کر پاکستان کو ایک انتہائی مشکل صورت حال سے نکالا تھااور یہ کوئی معمولی قربانی نہیں تھی۔ ڈاکٹر صاحب کے اس ایثار و قربانی سے میرے دل میں ان کی عزّت مزید بڑھ گئی ہے‘‘۔ چوہدری صاحب کی سفارش پر وزیر اعظم میر ظفر اللہ خان جمالی نے میری بیگم (جن کی مدد اور قربانی سے پاکستان ایٹمی قوّت بنا) 14 اگست 2003 کو ہلال امتیازکا اعزاز دیا۔ مارچ23؍ 2004کو مشرف نے ان کو یہ انعام وصول کرنے سے روک دیا اوربعض بے ضمیر سیاستدانوں نے بھی اس بدمعاشی کا ازالہ نہیں کیا۔ آمر تو آمربعض سیاستداں بھی نہایت احسان فراموش ہیں۔ کاش چوہدری صاحب چشم دید گواہ کے طور پر مشرف اور اسلم سکھیرا کے تعلقات پر روشنی ڈال دیتے جس سے مشرف کے کردار کی پول کھل جاتی۔ ٹی وی پر میرے بیان پڑھنے کے بعد گلف نیوز نے خبر لگائی کے میرے اس اقدام نے میرا قد بلند کردیا ہے اور عزّت بڑھا دی ہے۔
دنیا کے لاتعداد اخبارات اور ملک میں لاکھوں لوگوں کے بھی یہی تاثرات تھے۔ چوہدری صاحب کا شکرگزار ہوں کہ انھوں نے عوام کو حقیقت سے آگاہ کر دیا ہے۔
(4) کوئٹہ میں ایک عالم دین قاری عبدالمالک، استاد گورنمنٹ شفیق احمد خان شہید بوائز ماڈل ہائی اسکول نے ایک کتابچہ (مضمون) بعنوان قرآن کی فریاد، قرآن کی زبان میں‘‘ تحریر کیا ہے۔ اس سے پیشتر قرآن کی تفسیر مجموعۃ التفاسیر پر بھی کئی جلدیں شائع کرچکے ہیں اور مزید زیر قلم ہیں۔ کلام مجید کے بارے میں حدیث مسلم ہے ’’بے شک اللہ تعالیٰ قوموں کو قرآن پاک پر عمل کرنے کی وجہ سے اونچا اُٹھاتا ہے اور اُسے چھوڑنے کی وجہ سے قوموں کو نیچے گراتا ہے‘‘۔ قرآن میں کلام اِلٰہی ہے: ’’جو میرے ذکر اور درس نصیحت سے منہ موڑے گا اس کے لئے دنیا میں زندگی تنگ ہوگی اور قیامت کے روز ہم اُسے اَندھا اُٹھائینگے۔وہ کہے گا۔ اے پروردگار دنیا میں تو میں آنکھوں والا تھا یہاں مجھے اندھا کیوں اُٹھایا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ہاں! اسی طرح تو ہماری آیات کو جبکہ وہ تیرے پاس آئی تھیں تو نے بھلا دیا تھا۔ اسی طرح آج تو بھلایا جارہا ہے‘‘۔ یہ مضمون کافی طویل ہے انشاء اللہ جلد ہی مکمل شائع کرونگا کہ بہت مفید ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)